جمعہ، 13 جون، 2025

ایک معصوم ٹک ٹاکر لڑ کی کی موت

 

ٹک ٹاک کلچر اور معاشرتی انحطاط:پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ٹک ٹاک کلچر‘‘ ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ٹک ٹاک پر آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں ویڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا،ویڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا،سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا،ریل کی پٹری پر ویڈیو بنانا اوریوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور خودساختہ انفلوئنسرز کی نئی نسل ابھر رہی ہے جو نہ صرف مسلم معاشرت بلکہ عمومی انسانی اقدار   کی  پامالی کا سبب بھی بن رہی          ہے۔ معاشرہ ان مشینی ایجادات کے درمیان اپنی بنیادی انسانی حسیات کھو چکا ہے۔ چند برس میں ٹک          ٹاک ایسا ’ورچوئل اسٹیج‘ بن چکا ہے جہاں شہرت کا حصول آسان ترین ہوگیا ہے۔ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں   اسی جھوٹی دنیا کےاسیر  بن چکے ہیں  جہاں اخلاقیات، روایات، اور معاشرتی اقدار ہوتی ہی نہیں۔ جو والدین بچوں کی سرگرمیوں سے بے خبر ہیں اُن کے بچے ’فالورز‘ پانے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کوئی رقص کے ذریعے، کوئی بر ہنگی کے زریعے ،۔ کوئی ادائیں بیچ رہا ہے، توکوئی محض جنسی جذبات بھڑکاکر وائرل ہونے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں عبرت انگیز کیسز کی بھرمار ہے، مگر یہ سب مثالیں سگریٹ نوشی کی عبرت کی مانند بنتی جا رہی ہیں، جس کا نقصان سب اجتماعی طور پر اٹھائیں گے۔


ٹک ٹاک کو دور حاضر کا خطرناک دجالی    فتنہ کہا جا سکتا ہے ۔یہ بات ایک کڑوی سچائی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ لڑکیاں شہرت کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنی عزت، وقار اور دینی حدود کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نام کمانے کی خواہش انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے جہاں عزت، حیا اور حفاظت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ کوئین دارو جیسی   شادی شدہ لڑکی کی بھی نمایاں مثال ہے  جو نا گھر کی رہی  نا گھاٹ کی ۔  یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کوعزت، حیا اور تحفظ کی چادر میں لپٹا ہوا ایک عظیم مقام،عطا فرمایا ہے- جب کوئی لڑکی ان حدود کو توڑ کر بے راہ روی اختیار کرتی ہے ، تو وہ نہ صرف اپنے لیے خطرات کو دعوت دیتی ہے بلکہ معاشرے میں فساد اور بے حیائی کے دروازے بھی کھولتی ہے ۔ پھر انجام اکثر افسوسناک اور عبرتناک ہوتا ہے ، چاہے وہ قتل ہو، بدنامی ہو  ایسے لاکھوں نوجوانوں میں ثنا یوسف بھی ایک تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ثنا کی ویڈیوز بے لباسی، عریانی و فحاشی پر مشتمل نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بے حیائی صرف ننگ پن یا جسمانی نمائش نہیں ہوتی۔ ثنا کی وڈیوز میں جو کچھ تھا وہ  نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے کافی تھا ، ۔ 


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد 50 لاکھ لوگوں نے اس کا اکائونٹ دیکھا۔ انسان کو مرنے کے بعد جن چیزوں کا اجر اور گناہ ملتا ہے ان میں اگر آپ نے نیکی کی طرف دعوت دی اور کسی نے قبول کی تو وہ آپ کے لیے باعثِ ایصالِ ثواب ہے، لیکن اگر برائی عام کی تو وہ قبر میں آپ کے لیے باعثِ عذاب اور دکھ ہے۔ اس کے طرزِ زندگی، لباس،گفتگو، حرکتوں اور ماحول کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی طور پشتون روایت کی حامل نہیں تھی۔ نومبر 2023ء سے اُس نے ٹک ٹاک پر وڈیوز ڈالیں اور تادم تحریر یعنی محض 18 ماہ میں وہ 13 لاکھ فالوورز کرچکی تھی۔ثنا یوسف کو اُنہی 13لاکھ فالوورز میں سے ایک ’عاشق‘ نے قتل کردیا۔ سترہ برس کی وہ دوشیزہ جس کے حسن نے ہزاروں دل جیتے، مگر کسی ایک دل کو قبول نہ کیا۔ وہ سوشل میڈیا کی شہزادی تھی۔ہر دن اپنی تصویر، اپنی مسکراہٹ، اور اپنے نخرے بکھیرتی تھی اور کہتی تھی: ’’شادی کرنی ہو تو پٹھانی سے کرو، ورنہ چترالی سے‘‘… کیونکہ وہ خود چترالی پٹھان تھی۔


 ثنا کو اپنے ٹک ٹاک کے لاکھوں فالوورز پر بڑا ناز تھا، کروڑوں ویوز پر بڑا غرور تھا۔ وہ اب معروف ٹک ٹاکر بن چکی تھی۔ اس کو لوگ اپنے پاس بلاتے، تحائف دیتے، مفت سہولیات دیتے، اور بدلے میں وہ دو جملے بول دیتی اور خوب شہرت و مال کماتی۔ یہ سب کچھ اُس کے فالوورز کی وجہ سے تھا۔ عمر بھی لاکھوں فالوورز کے ہجوم میں سے ایک تھا۔ وہ بھی ثنا کے نشر کردہ مواد کا شکار ہوگیا تھا۔ بقول آئی جی اسلام آباد: وہ لڑکی کی قربت، دوستی وغیرہ کے لیے دیوانہ ہوگیا۔ اُس نے بارہا کوشش کی، پیغام دیا، مگر لڑکی نے کبھی نظرِ کرم نہ ڈالی۔ اس کو اپنی ایسی آزادی پر فخر تھا۔ وہ ایک وڈیو میں کہتی ہے کہ ’’میں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی‘‘۔ عمر کا معاملہ تاحال ہم آئی جی کے بیان کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے مطابق وہ دوبارہ اُس سے ملنے، التجا لے کر گیا تھا، اس دوران ثنا کے گھر ہی نہیں اس کے کمرے میں اس کی کیا بات ہوئی، یہ سب نامعلوم ہے۔ بہرحال عمر نے دو گولیاں لڑکی کو مار دیں۔ اس کی مبینہ محبت… لہو میں نہا گئی۔ قاتل کا بیان میڈیا سے مستقل غائب ہے؟



  بظاہر دیکھیں تو وہ صرف ایک ’ناکام عاشق‘ ہے،جس کا دل ٹوٹا اور جذبات میں وہ انتہائی قدم اٹھا بیٹھا۔قاتل گرفتار ہوگیا مگر اس کیس نے دوبارہ کئی سوالات اٹھا دیے۔ایک 17 سالہ لڑکی کو اُس کے والدین نے اتنا آزاد کیسے چھوڑا ہوا تھا؟جب زندہ تھی توکئی شہر پھلانگ کر عاشق پہنچ جاتے، مگر مرنے کے بعد 13 لاکھ فالوورز رکھنے والی کے جنازے میں 13سو لوگ بھی کیوں نہ تھے؟آئی جی اسلام آباد نے صرف یہی بات دہرائی کہ لڑکا بار بار کے انکار پر مشتعل ہوا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتارہے کہ ایسا شخص جس سے لڑکی بالکل ملنا نہیں چاہتی تھی، وہ اُس کے گھر میں داخل کیسے ہوگیا؟ثنا نہ اس سے ملنا چاہتی تھی، نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی تھی۔ پھر وہ لڑکا گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ سیدھا اس کے کمرے میں کیسے پہنچ گیا؟لڑکا اس حد تک قریب پہنچا ہوا تھا کہ لڑکی کا فون بھی لے کر بھاگ گیا۔ جب لڑکی ملنا نہیں چاہتی تھی تو اس کے فون میں ایسا کیا تھا؟گھر میں ماں، بھائی سب موجود تھے، کسی نے اس اجنبی کو کیوں نہ روکا؟سوشل میڈیا پر اس واقعے کو عبرت انگیز قرار دیا گیا۔ ملزم کے گھر والے تالا لگا کر غائب ہوچکے ہیں 


1 تبصرہ:

  1. اللہ پاک نوجوان بچوں کے والدین کو نیک ہدائت دے اوربچوں کو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار بنائے آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر