انٹرنیٹ پر ایک تصویر نظر سے گزری جو میرے وطن کے صوبہ پنجاب کی تھی اسکول کے چھوٹے بڑے بچے جو اسموگ میں اسکول جارہے ہیں بلاشبہ صرف چند بڑے بچے تو ماسک لگائے ہوئے باقی تمام ماسک کے بغیر ہیں -میری اپنے وطن کی ماؤں سے گزارش ہے کہ اسموگ کے دنو ں میں بھی ماسک اسی طرح استعمال کروائیے جس طرح کرونا کے زمانے میں کروا رہی تھیں کیونکہ دھند میں شامل تمام گیسز انسانی زندگی کو گھٹانے والی ہوتی ہیں -دوسری خبریں عام ہی تو ہیں جیسےآج بھی اسموگ اور دھند کی لپیٹ میں رہا، اسموگ کے باعث آج بھی موٹرویز مختلف مقامات سے بند کردی گئی۔ترجمان ٹریفک اور موٹروے پولیس کے مطابق اسموگ اور دھند کے باعث حد نگاہ کم ہونے پر موٹروےایم2 کو لاہور سے کوٹ مومن تک، موٹروے ایم 4 کو لاہور سے درخانہ تک اور ایم 11سیالکوٹ موٹروے کو سمبڑیال تک بند کر دیا گیا ہے۔ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ موٹرویز کو عوام کی حفاظت اور محفوظ سفر یقینی بنانے کے لیے بند کیا جاتا ہے، روڈ یوزرز اسموگ اور دھند سیزن میں دن کے اوقات میں سفر کو ترجیح دیا کریں-
موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلد کے مسائل میں گرفتار ہو سکتے ہیں- اسموگ ہوا میں موجود نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ،کاربن مونوآکسائیڈ، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، مٹی اور آگ کے دھوئیں کے مرکب سےبنتی ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اگر فضا میں اسموگ موجود ہے تو کوشش کریں کہ کم سے کم باہر نکلیں اور وہ افراد جو سائیکلنگ یا جوگنگ کرتے ہیں انہیں چاہئیے کہ اپنی ان سرگرمیوں کو کچھ دنوں کے لیے موخر کردیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو شام کے وقت باہر نکلیں جب فضا میں اسموگ کی مقدار کم ہوتی ہے، وگر نہ نمونیا، نزلہ زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن سکتی ہے۔پنجاب سمیت پاکستان کے مختلف اضلاع میں صبح کے وقت شدید دھند اور اسموگ نے لوگوں کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔
سموگ کی وجہ سے اب تک ہونے والے ٹریفک حادثات میں6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں.موسمی تبدیلیوں اور سردی کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ نے مختلف شہروں پر قبضہ جما لیا ہے جب کہ دھند کے باعث شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں -ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں اور گرمی کے بعد سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں اسموگ اور دھند کا راج بڑھ جاتا ہے۔ ہر سال اسموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں سانس لینے میں دشواری، گلے میں تکلیف اورآنکھوں کا سوجنا، جلنا اورآنکھوں سے پانی نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔اسموگ کی وجہ سے پنجاب بھر میں کوڑا جلانے، فصلوں کے مڈھ کو آگ لگانے اور اینٹوں کے بھٹے میں پرانے ٹائر جلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ہر طرف لوگ چہروں پر ماسک چڑھائے نظر آتے ہیں،اسموگ انسانوں، جانوروں، درختوں سمیت فطرت کی پیدا کردہ ہر فائدہ مند شئے کے لیے نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا باعث بنتی ہے، خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید اسموگ سورج کی شعاعوں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کردیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔
کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لیں تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں ماہر موسمیات اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حنیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سب سے پہلے تو اسموگ اور دھوئیں میں فرق کرنا لازمی ہے۔ کچھ لوگ اسموگ کو معمولی دھواں سمجھ کر نظرا نداز کردیتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسموگ اور دھواں دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ اسموگ صرف آلودگی اور گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے نہیں بنتی بلکہ ہریالی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے بھی اسموگ وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی کوشش کریں۔ درخت اسموگ کو بننے سے روکتے ہیں۔پاکستان میں آنے والی اسموگ بہت غیر معمولی ہے۔ یہ پہلے بھی ہوتی تھی لیکن محدود علاقوں میں ہوتی تھی۔ ماضی میں اسموگ صرف چین اور بھارت میں دیکھنے میں آتی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے میدانی علاقوں میں شدت سے آرہی ہے،ڈاکٹر حنیف کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں آنے والی اسموگ کی شدت ماضی کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ بارشوں کا نہ ہونا ہے۔ موجودہ خشک سالی چھ ہفتوں سے زائد کی ہوگئی ہے اوررواں ماہ بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔ ایک ہلکی بارش کی توقع تو ہے لیکن وہ ملک کے بالائی علاقوں تک محدود ہوگی۔
پنجاب کے میدانی علاقوں میں بارش کا امکان نہیں ہے۔ اس وقت اس کی شدت سب سے زیادہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں ہے۔ اگر ہلکی بارش ہوئی تو بھی اس کی شدت میں کمی ہوجائے گی۔ملک میں بارش کی کمی کے حوالے سے ڈاکٹر حنیف کا کہنا تھا کہ بارشوں کی کمی کی وجہ اور اسموگ کی وجہ سے اس وقت گندم کی کاشت نہیں ہورہی کیونکہ اسموگ کی وجہ سے اب تک چاول کی کٹائی مکمل نہیں ہوئی اور بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت متاثر ہورہی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق صوبے پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباﹰ سوا کروڑ بچے زہریلے اسموگ کا شکار ہیں۔ حکام نے بیشتر آؤٹ ڈور سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور دکانوں کو بھی جلدی بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔پنجاب کی حکومت نے کہا کہ "فضا میں دھواں، دھول یا کیمیائی اجزا کے سبب بیکٹیریا کے وائرل انفیکشن سے آشوب چشم یعنی آنکھ سے متعلق بیماری عام ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے صحت عامہ کو ایک سنگین خطرہ لاحق ہے۔"حکومت نے اپنی نوٹس میں مزید کہا کہ کھلی فضا میں کھیلوں کی تقریبات، نمائشیں، تہوار اور ریس ٹورینٹس میں کھانے پر پابندی عائد ہے،
میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے تیا ر کیا ہے
جواب دیںحذف کریں