کسی بھی ملک کے عوام کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ گیس کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے اور ایم ڈی اڑسٹھ لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں -بجلی کے بلوں نے عوام کو جیتے جی مارڈالا ہے اور وہی بھوکے عوام گردشی قرضے بجلی کے بلوں میں اتار رہے ہیں اور ان کے حکمرانوں کی جانب سے مژدہ ء جانفزاء سنائ دیتا ہے کہ ججز کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال جولائی میں وفاقی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ میں 2 لاکھ 4 ہزار864 روپے اضافہ کیا تھا جس کے بعد تنخواہ 12 لاکھ 29 ہزار 189 روپے ہوگئی تھی سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے سے متعلق آرڈیننس اُس وقت کے قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے جاری کیا تھا۔آرڈیننس کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ میں ایک لاکھ 93 ہزار 527 روپے کا اضافہ کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 11 لاکھ 61 ہزار 163روپے ہوگیا - وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں اضافہ کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ 68 ہزار سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس 3 لاکھ 42 ہزار سے بڑھا کر 10 لاکھ 90 ہزار روپے کر دیا گیا۔قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی منظوری کے بعد وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔تنخواہوں میں اضافہ ان خوش نصیبوں کے یہاں ہوا ہے جن کے ہاں لاکھوں مقدمے فیصلے کے منتظر ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سیاسی رشوت کے بعد فیصلے ان کے حق میں ہوں گےتو آپ ججز کی تنخواہیں چاہے جتنی مرضی بڑھا دیتے کوئی سوال نہ کرتا، کوئی جواز نہ پوچھتا، کوئی اختلاف نہ کرتا۔آگر تو یہاں نچلی عدالتوں کی حالت بہتر ہو چکی ہوتی، التوا میں پڑے لاکھوں مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، سپریم کورٹ میں 60 ہزار مقدمات نمٹائے جا چکے ہوتے، سائلیں انصاف کی بروقت فراہمی پر جشن منا رہے ہوتے، عدالتوں میں رشوت کا کاروبار عروج پر ہے انصاف دینے والے فیصلوں کے وقت چھٹی پر چلے جاتے ہیں جیلوں میں بے گناہ اور گناہگار قیدیوں کے رشتے دار ان سے ملنے آتے ہیں تو رشوت دربان کو پیش کرتے ہیں تب ملاقات کا سامان کیا جاتا ہے
عدالتوں میں انسانوں کی تذلیل کے نت نئے بہانے ہوتے ہیں ، ماضی میں سبکدوش ہونے والے پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا کہ نظامِ عدل کی تباہی میں جہاں ججوں اور وکیلوں کا ہاتھ ہے وہیں ساتھ ساتھ اِس کی ذمہ دار حکومت بھی ہے۔ انہوں نےاپنے اعزاز میں دیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ دیوانی عدالتوں میں مقدمات کا لا متناہی سلسلہ صرف اس لیے آ رہا ہے کیونکہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے شہریوں کو ان کا حق دینے سے قاصر ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر فوجداری مقدمات میں معصوموں کو سزا اور مجرموں کو ڈھیل مل رہی ہے تو اِس کی ذمہ داری زیادہ تر پولیس اور استغاثہ کے محکموں پر عائد ہوتی ہے۔کہ آج سے سو سال قبل مقدموں کا اوسط دورانیہ صرف ایک سال تھااس عرصے میں مقدمہ پہلی عدالت سے لے کر آخری عدالت تک پہنچ جاتا تھا۔ آج اسی کارروائی میں 25 سال لگتے ہیں اور شائد دوسری نسل ان مقدمات کا فیصلہ سنتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے تمام اداروں کو یہ برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ جس ’سستے اور فوری انصاف‘ کا وعدہ ہمارا آئین عوام سے کرتا ہے، ہم اُس وعدہ کو نبھانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہوئے، اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کی ناکامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اِس نظام کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جا سکتا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ججز کے ضابطہ اخلاق کی ایک اہم شق میں یہ لکھا ہے کہ جج اپنے زیرِ سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے جو بھی اقدامات لازم ہیں، اُنھیں اُٹھانے سے گریز نہیں کرےگا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں غربت کا یہ عالم ہے کہ مزدور نان شبینہ کا محتاج ہو چکا ہے ، کم سے کم اُجرت بس اتنی ہے کہ آدحی اجرت میں صرف بجلی کا بل دینا ، گیس کا بل دینا باقی اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے تعلیم سے محروم اڑھائی کروڑ بچے اسکول جانے کے بجائے گلیوں میں آوارہ پحر رہے ہیں -ان کے اسکولوں میں گائیاں اور بھنسیں بندھی ہیں موجودہ پاکستان وہ ملک ہے جس میں 2 وقت کی روٹی کا حصول ہی عوام کا مقصد حیات بن چکا ہے، خط افلاس تلے آنے والوں میں ماہانہ لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں کی اسکول فیس ان کی تعلیم میں سب سے بڑی روکاٹ بن رہی ہے۔ بیمار ادویات کے حصول کے لیے مر رہے ہیں۔ بجلی کے بل سوہانِ روح بن چکے ہیں -بیٹیوں کی شادیوں کے لیے لوگ گردے بیچ رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر شے مہنگی ہو چکی ہے، ایسے میں فقط ایک شے ارزاں ہے، اور وہ انسانی جان ہے۔ایک زمانہ تھا وکلا نے نعرہ لگایا تھا کہ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘ اس وقت کسی نے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ریاست صرف ججز کے لیے سگی ماں جیسی ہوگی اور غریب عوام سے اس کا رویہ سوتیلی ماں کا سا ہوگا۔خود سوچیے کہ ججز کی تنخواہوں میں ہاؤس رینٹ یا جوڈیشل الاونس کے نام پر 12 سے 14 لاکھ روپے کے اضافے کا اعلان ایک عام مزدور پر بجلی بن کر گرا ہوگا کہ جس کی کل آمدنی کم از کم 37 ہزار روپے مقرر کی گئی اور وہ کمائی اس کو کام ختم کرنے کے بعد ملتی ہے۔
اس تنخواہ میں اس نے گھر چلانا ہے، روٹی کھانی ہے، بچے پڑھانے ہیں، دوائی خریدنی ہے، بجلی کا بل دینا ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاں ان کی تاریخ اس بات پر قہقے ضرور لگائے گی کہ کام نہ کرنے والوں پر ہُن کی یہ برسات شاید چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جب کہ روسائے شہر کو بلا ضرورت سوا دو ارب کی لگژری گاڑیوں کی رشوت بھی دی گئ تھی ۔
مولائے کائنا ت حضرت علی علیہ السلام کا فرما ہے کہ حکومتیں کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہیں ظلم کے ساتھ نہیں
جواب دیںحذف کریں