بدھ، 13 نومبر، 2024

تحریک خلافت کے روح رواں "مولانا محمد علی جوہر"

 

 ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی،  ریاست رام پور 1878 عیسوی  میں پیدا ہوئے -  دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتے جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔   تک تحریک خلافت کی تاریخ کا سوال ہے دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر مصنفین و مؤلفین اس پرسرسری گذر گئے اور جس نے کچھ لکھا بھی تو تاریخ اور سنہ تک موجود نہیں۔ البتہ گاندھی جی کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا جس سے کافی مدد ملتی ہے کیونکہ ۱۹۱۸ء؁ سے ۱۹۲۵ء؁ تک گاندھی جی کی زندگی اور تحریک خلافت ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔



 اسلامی خلافت کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ اسلام کا۔ لیکن آج وہ ایک بھولا ہوا سبق ہے۔ تحریک خلافت کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے ہمارے ملک میں آزادی کامل کی بنیاد پڑی۔ اور ہندو مسلم اتحاد کا بیج بویا گیا۔ تحریکِ خلافت ایک مشعل تھی جس نے ہندوستان کے ضمیر کو روشن کیا اور اس اجالے میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا۔ فروری ۱۹۲۰ءمین بنگال کی صوبائی خلافت کانفرس کے صدر کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسلۂ خلافت کی شرعی حیثیت بر بحث کرتے ہوئے کہا تھا۔’اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہئے ۔ خلیفہ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان بادشاہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو۔ اور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے پوری طرح طاقتور ہو۔ صدیوں سے اسلامی خلافت کا منصب سلاطین عثمانیہ کو حاصل ہے اور اس وقت ازروئے شرع تمام مسلمانانِ عالم کے خلیفہ و امام وہی ہیں۔ پس ان کی اطاعت اور اعانت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام کا حکم شرعی ہے کہ جزیرۃ العرب کو غیر مسلم اثر سے محفوظ رکھا جائے اس میں عراق کا ایک حصہ بغداد بھی داخل ہے۔




 پس اگر کوئی غیر مسلم حکومت اس پر قابض ہونا چاہے یا اس کو خلیفہ اسلام کی حکومت سے نکال کر اپنے زیر اثر لانا چاہے تو یہ صرف ایک اسلامی ملک سے نکل جانے کا مسئلہ نہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک مخصوص سنگین حالت پیدا ہو جائے گی۔ یعنی اسلام کی مرکزی زمین پر کفر چھا جائے گا۔ پس ایسی حالت میں تمام مسلمانِ عالم کا اولین فرض ہوگا کہ وہ اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسلام کے مقامامت مقدسہ میں بیت المقدس اسی طرح محترم ہے جس طرح حرمین شریف اسکے لئے لاکھوں مسلمان اپنی جان کی قربانیاں او یورپ کے آٹھ صلیبی جہادوں کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ پس تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس مقام کو دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں نہ جانے دیں۔ خاص طور سے مسیحی حکومتوں کے قبضہ واقتدار میں۔ اور اگر ایسا ہورہا ہے تو اس کے خلاف دفاع کرنا صرف وہاں کی مسلمان آبادی ہی کا فرض نہ ہوگا بلکہ بیک وقت وبیک دفعہ تمام مسلمانانِ عالم کا فرض ہوگا‘‘  جوہر  مولانا جوہرؔ تحریک خلافت کے روح رواں اور جنگ آزادی کے میر کارواں تھے۔ ایک نڈر، حق گو، بے باک صحافی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ان کے لئے کہا تھا کہ ان کی آواز مشرق نے بھی سنی اور مغرب نے بھی“


 


مشہور نو مسلم انگریز مصنف و مترجم قرآن مسٹر محمد مارڈیوک پکتھال سابق ایڈیٹر ممبئی کرانیکل نے ڈاکٹر سید محمود کی کتاب’’خلافت اور اسلام‘‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے:۔مذہب اسلام حیات انسانی کا مکمل قانون ہے اور تہذیب و شائستگی کا مخزن ہے جو ابھی تک اپنے عروج کو نہیں پہونچا ہے۔ خدا کے قوانین جو بنی نوع انسانی پرکلیتاً حکمراں ہیں اور وہ قوانین جن کی پابندی پر انسانی زندگی کی اخلاقی ترقی مبنی ہے سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب میں صراحتاً موجود نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب قوانین الٰہی پر مبنی ہے۔ خلیفہ اس کا دینوی سردار ہے، خواہ اہل عرب ہوں یا غیر اہل عرب۔ خواہ اس کا دارالحکومت بغداد ہو، مدینہ ہو یا قسطنطنیہ، اور اسلامی تہذیب اور ترقی کا مرکز، مرکزِ خلافت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے‘’’تحریکِ خلافت کے رہنماؤں میں اصل روح مولانا محمد علی جوہر کی کام کر رہی تھی وہ شعلہ جوالہ بنے ہوئے تھے۔ گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ پھر کر پورے ملک کو حرارتِ ایمانی اور جوشِ آزادی سے مخمور بنا دیا تھا۔ دراصل انھیں نے گاندھی جی کو ان کے گوشۂ عزلت سے نکالا اور ان کے ساتھ دورہ کر کے اور ان کی جے کارلگوا کر ان کو عوامی لیڈر اور ملک کا محبوب رہنما بنا دیا۔ تحریک خلافت و آزادی وطن کے ساتھ تحریک ترک موالات ضم کر کے غیر ملکی حکومت کے خلافت نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑکادی اور آزادیٔ وطن کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ سارے ملک میں یہاں تک فوج و پولس میں ایک جنبش اور مظبوط انگریزی فوج میں ایک ارتعاش پیدا ہوگیا‘‘


مہاتماگاندھی اس اعلان کے ساتھ تحریک خلافت میں شریک ہوئے تھے یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور جب ہمارے مسلمان بھائی بے چین ہیں تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار کہا تحریک خلافت کو مسلمانوں کا ایک مقدس معاملہ سمجھ کر اس میںشریک ہوا ہوں۔ عزل خلافت کے بعد مہاتما گاندھی نے کہا کہ اگر میں ایک نجومی یا غیب داں ہوتا اور مجھے معلوم ہوتا کہ ترکی میں خلافت توڑی جائے گی تب بھی میں اس میں اسی عزم و حوصلے کے ساتھ شرکت کرتا۔انہوں نے اپنے جذبات کو الفاظ کے سحر آگیں سانچوں میں ایسا ڈھالا کہ انگریز اقتدار اعلیٰ کی اکثریت کامریڈ کی پرستار بن گئی۔ یہاں تک کہ خود لیڈی ہارڈنگ بھی کامریڈ کے دفتر فون کر کے اگلے شمارے کے بارے میں دریافت کرتی تھیں۔ مولانا جوہر نے جس نصب العین کے لیے کامریڈ شروع کیا تھا، اسی نہج پر 23 فروری 1913 کو اردو میں ایک ہفت روزہ ہمدرد کی بھی اشاعت کا آغاز کیا۔ ہمدرد کے مضامین نے صحافتی میدان میں طوفان برپا کر دیا۔ جس نے ہندوستانیوں میں جذبہ حب الوطنی اور جدوجہد آزادی کے لیے نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا، نیز بلاامتیاز قوم وملت میں اتحاد اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھایا 

1 تبصرہ:

  1. تحریکِ خلافت کے رہنماؤں میں اصل روح مولانا محمد علی جوہر کی کام کر رہی تھی وہ شعلہ جوالہ بنے ہوئے تھے۔ گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ پھر کر پورے ملک کو حرارتِ ایمانی اور جوشِ آزادی سے مخمور بنا دیا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر