ایک خبر کے مطابق نگران وزیراعظم کی ہدایت پر پی آئی اے کے اثاثوں کی نجکاری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ امریکہ میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت کے لیے بھی اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نجکاری کمیشن نے روز ویلٹ ہوٹل کی نیلامی سے متعلق فنانشل ایڈوائز کے تقرر کے لیے دلچسپی رکھنے والی فرموں سے 9 اکتوبر تک پیشکش طلب کر لی ہیں۔ روز ویلٹ ہوٹل اس وقت ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ قبل ازیں جنوری میں اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے اور ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا تھا کہ روز ویلٹ ہوٹل لیز پر دینے کیلئے نیویارک سٹی ایڈ منسٹریشن کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ معاہدہ ہونے سے دو سو بیس ملین ڈالر کی آمدنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سال کیلئے ہونے والا معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہے، تین سال بعد معاہدہ ختم ہونے پر ہوٹل واپس پاکستان کو مل جائے گا جبکہ معاہدے سے سول ایوی ایشن کا کوئی ملازم بیروزگار نہیں ہو گا۔
پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اسوقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل سنہ 2005 میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔سنہ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر چھ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح 23 ستمبر سنہ 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم صرف ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔روزویلٹ ہوٹل دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔
اس کے علاوہ 1947 میں روزویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے۔کونریڈ ہلٹن نے 1943 میں یہ ہوٹل خرید لیا۔ کونریڈ ہلٹن بعد میں والڈورف ایسٹوریا اور دی پلازہ جیسے اعلی معیار کے ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انھوں نے اپنا قیام روزویلٹ ہوٹل کے صدارتی سوئٹ میں ہی رکھا۔روز ویلٹ ہوٹل میں کون کون ٹھہر چکا ہے؟سنہ 2015 میں جب نواز شریف نیویارک تشریف لے گئے تو اس وقت بھی انھوں نے ویلڈورف اسٹوریا کا ہی انتخاب کیا تھا جب کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس ہوٹل میں مقیم تھے۔جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو اتنے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پر امریکی صحافی اکثر حیران ہوا کرتے تھے۔سنہ 2008 میں صدر آصف علی زرداری جب نیویارک گئے تھے تو وہ روز ویلٹ ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ان کے قیام کے لیے ہوٹل کا صدارتی سوئٹ بک کرایا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ چھ ہزار ڈالر یومیہ تھا۔
اس سے قبل سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اکتوبر سنہ 2006 میں امریکہ کے دورے کے دوران نیویارک میں اس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ صدر مشرف کا یہ دورہ اخراجات کے اعتبار سے مہنگا ترین دورہ تھا۔اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق صدر مشرف کے قیام کے دوران پاکستان سفارت خانے نے 28 لیموزینز کرائے پر حاصل کی تھیں جن کا کرایہ لاکھوں ڈالر میں ادا کرنا پڑا تھا۔صدر مشرف اکتوبر سنہ 2001 میں بھی اپنے امریکی دورے کے دوران اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔پی آئی اے کی ملکیت سنہ 1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر حاصل کر لیا۔
اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنے مالی خصاروں کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز مین ہیٹن کی 45ویں اور 46 ویں سٹریٹ کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سنٹرل سٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔ یہاں سے ٹائمز سکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔
میں نے یہ مضمون انٹر نیٹ کی مدد سے لکھا ہے
جواب دیںحذف کریں