ڈاون سنڈروم کا حامل بچہ 46 کی جگہ 47 کروموسوم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے- یہ زائد کروموسوم دراصل کروموسوم 21 ہوتا ہے۔ یہ زائد کروموسوم دماغ کی نشونما میں تاخیر اور جسمانی معذوری کا سبب بنتا ہے۔ ڈاون کروموسوم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے تمام سماجی و اقتصادی حیثیت سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہےکہ ماں کی عمر 37 سے اوپر ہو تو اس قسم کا بچہ پیدا ہونے کے چانسز قوی ہوتے ہیں کا
کہا جاتا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ فرد اپنی ذات میں گم رہتا ہے، حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا ہے۔ ان بچوں کو چیزوں کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔یہ معذوری عمر کے ابتدائی سالوں میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دماغ کی کیمسٹری میں کچھ خرابی کا اثر دماغ کے ان حصّوں پر پڑتا ہے جو رابطے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی‘ان کا کہنا ہے کہ آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کوبھی آٹزم تھا۔
امریکن سا ئکائٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق مندرجہ ذیل علامات اگر بچے کی عمر کے پہلے تین سالوں میں ظاہر ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اسے آٹزم ہے۔آپس میں تعلقات یعنی سماجی میل جول میں واضح طور پر عام بچوں سے پیچھے ہونا۔رابطے کی مہارت میں واضح طور پر اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا۔ماحول میں دلچسپی نہ لینا اور اردگر کی چیزوں پر توجہ نہ دینا ۔گزشتہ دنوں ہم نے آٹزم کا شکار18سالہ عمر کے والد سے ملاقات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے معمولات اور اس سے جڑے افراد کس طرح مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔عمرکے والد گزشتہ 28سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،وہ ایک ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں۔ہم جب ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے انتہائی پرتپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیااور ساتھ ہی تواضع کا سامان بھی سامنے رکھ دیا۔اپنے فرزند کی بیماری کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ گویا ہوئے:
میرے چار بچے ہیں،عمر میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس وقت اس کی عمر 18برس ہے ۔ہمیں عمر کی بیماری کا ابتدائی چار پانچ سال میں بالکل اندازہ نہیں ہو سکا،نہ ہی اس وقت آٹزم جیسی بیماری کا کسی اخبار یاٹی وی میں ذکر ہوتا تھا،یہی سبب ہے کہ اس کے مرض کی تشخیص میں کافی وقت لگا،یہ کارٹون بہت دیکھتا تھا ،کارٹون کی زبان انگریزی تھی تو جب اس نے بولنا شروع کیا تو یہ بھی کارٹون میں سنے ہوئے بامعنی جملے کہتا، Taxi Wait for me۔ابتداء میں ہم نے انہیں معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر ۔پھر معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون کے پاس گئے،انہوں نے دو ڈھائی سو سوالات پوچھے اور مرض کی تشخیص کرتے ہوئے بتایا کہ اسے بیک وقت آٹزمADHD(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)اورHyperactivity Disorderہے۔انہوں نے ادویات دیئے اور علاج شروع کیا۔اسی عرصے میں کچھ لوگوں نے ہمیں روحانی علاج کا مشورہ دیا،ہم روحانی معالج کے پاس گئے
تو انہوں نے ہمیں چالیس دن کا کورس بتایا اور ان کی شرط یہ تھی کہ ایک دن بھی ناغہ کیے بغیر ان کے پاس جانا ہے ،یہ یک مشکل مرحلہ تھا کہ کیوں کہ عامل صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ایک ایسے مقام پر تھے جہاں بس نہیں جاتی اور ٹیکسی والے بھی کم ہی جاتے تھے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر وہاں جانا شروع کیا،مگر وہاں جانا بھی ہمارے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا ،ان کے پاس جانے کا اس کے سوااور کوئی نتیجہ نہیں نکلا کہ عمر نے بھی ان کی طرح نقش بنانا اور بوتلوں میں پھونکنا سیکھ لیا۔ان عامل صاحب کو جب پتا چلا کہ میں ایک صحافی ہوں تو انہوں نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا ،ان کے عمل سے اعشاریہ ایک فیصد بھی مرض میں بہتری نہیں آئی۔پھر ایک صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ سورہ ملک اور سورہ واقعہ 23-23مرتبہ پڑھ کر پھونکا جائے ،ہم نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ بھی کیا۔ پہلے دن تلاوت میں پونے دو گھنٹے لگے،پھر اس عمل کو ہم نے معمول بنالیاکہ عشاء کی نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کے بعد دم کرتا،ڈھائی پونے تین ماہ ہم نے یہ عمل کیا مگر اس کا بھی اثر نہیں ہوا۔ایک اور صاحب نے ہمیں چند دعائیں بتائیں کہ یہ پڑھ کر کان میں پھونکیں مگر اس کا بھی نتیجہ نہیں نکلا۔
اس مرض کے حوالے سے کوئی اسکول بھی نہیں تھا جہاں ہم اسے داخل کراتے ،ایک مرتبہ ہمیں پتا چلا کہ ہل پارک کے قریب ماں عائشہؓ اسکول ہے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسکول بن رہا ہے مگر پک اینڈ ڈراپ نہیں ہے،یہ سہولت ہمارے پاس بھی نہیں تھی سو ہم نے گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا ساتھ ایک ڈرائیور بھی رکھا۔عمر پہلی مرتبہ اسکول گیا۔وہاں اسکول والوں کو عمر کی صحیح کیفیت کا اندازہ نہیں تھا ایک دن وہ اسکول سے باہر نکل گیا اور یہ ہوا کہ وہاں کے استاد کا اسکول انتظامیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور وہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے اس طرح یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔پھر ہم ایک حکیم صاحب کے پاس گئے انہوں نے بتایا کہ اس بچے کے دماغ کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا جب یہ سوجائے تو اس کے سر پر جَو کے آٹے کی گرم روٹی لیپ کریں یہ ایک ایسا عمل تھا جس کو عمرکے نیند کی کچی کیفیت کی وجہ سے بروئے کار لانا ممکن نہ تھا سو ہم ایسا نہیں کر سکے۔ایک اور صاحب نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ کل سورج گرہن ہے اور جب تک سورج گرہن رہے آپ ساحل پر لے جاکر دھڑ تک اسے ریت میں دبادیں،اس کی شعاعوں سے علاج ممکن ہے،یہ ایک مضحکہ خیر عمل محسوس ہوا مگر اپنے بیٹے کی محبت نے ہمیں اس پر بھی مجبور کردیا اور ہم نے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیامگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر ہم نے کئی ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ تحریر یہاں پر ختم ہے
میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک گھریلو خاتون ہوں میرا میڈیکل کے شعبے سے کوئ تعلق نہیں ہے لیکن کتابی علم سے وابستگی کی بدولت جو حاصل کرتی ہوں آپ کی نظر کر دیتی ہوں
نقائص سے مبرا اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی دولت ہے -
جواب دیںحذف کریں