بدھ، 31 جولائی، 2024

علمی اور ادبی دنیا کا منفرد نام 'جو ن ایلیا'

 



جون ایلیا دسمبر کی 31تار یخ 1931 کو اتر پردیش کے امروہہ میں پیدا ہوئے ایلیا  بتاتے  ہیں کہ وہ اپنی ولادت کے تھوڑی دیر بعد چھت کو گھورتے ہوئے میں عجیب طرح  سے ہنس پڑے تھے  جب انکی خالاؤں نے یہ منظر  دیکھا تو ڈر کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس بے محل ہنسی کے بعد میں آج تک کھل کر نہیں ہنس سکا  ایلیا نے57 19 میں پاکستان ہجرت کی اور  کراچی  میں آباد ہو گئے ۔ یہاں ان کے سننے والوں میں انکی بہت پزیرائ ہوئ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول عام  ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی،  ان کا کہنا تھا ’’ کبھی کبھی تومجھے اپنی شاعری بری، بے تکی لگتی ہے... اس لیے اب تک میرا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا... اور جب تک خدا ہی شائع نہیں کرائے گا اس وقت تک شائع ہوگا بھی نہیں۔‘‘یہ سطور عالمی شہرت یافتہ اور اپنی مختلف طرز شاعری کے لیے پہچانے جانے والے شاعر جون ایلیا کے ہیں۔ جون ایلیا، یعنی ایک ایسا شاعر جس نے دنیا کو شاعری کے ایک نئے ڈھنگ سے روشناس کرایا اور لفظوں کو ایک نیا پیراہن عطا کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ لیکن جیسا کہ جون ایلیا نے اوپر دیے گئے سطور میں کہا ہے، وہ اپنی شاعری کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ سکتا ہوں کہ جس نے محض 8 سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی اور پھر عنفوان شباب میں مشاعرے لوٹتے رہے، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاید‘ 1990 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ ۔‘ 


31   جون ایلیا نے ایک علمی و ادبی خاندان پایا تھا اور والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں لسانیات کی باریکیوں کو سمجھا۔ چونکہ علامہ شفیق حسن خود عربی، فارسی و عبرانی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، ان کا اثر جون ایلیا پر بھی پڑا۔ عربی کی تعلیم تو انھوں نے باضابطہ دیوبند سے بھی حاصل کی اور ’کتاب التواسین‘ جیسی عربی کی متعدد کتابوں کے تراجم کی اشاعت کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ بھی جون ایلیا کے بیشتر شعری مجموعوں، مثلاً ’یعنی‘، ’گویا‘، ’لیکن‘ وغیرہ کی طرح ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہوئے۔ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے جون ایلیا کے بارے میں ان کے  'عبرانی نزدیکی رشتہ دار سعید ممتاز کہتے ہیں کہ ’’جون کی لسانیات میں کافی دلچسپی تھی۔ اور  انہوں نے اردو'عربی ' فارسی سنسکرت' پر مہارت حاصل کی -ان کی شاعری کا انداز بھی انوکھا تھا اور ان کی تحریریں بھی نرالی تھیں - ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انھیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے پڑھنے کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوتے تھے۔ ان کی شرکت مشاعروں کی کام یابی کی ضمانت تھی۔ نام ور شاعر ان مشاعروں میں، جن میں جون ایلیا بھی ہوں، شرکت سے گھبراتے تھے۔ جون کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر نکلنا، رات کے وقت دھوپ کا چشمہ لگانا، کھڑاؤں پہن کر دُور دُور تک لوگوں سے ملنے چلے جانا، ان کے لیے عام بات تھی۔ 


جون ایلیا کی شاعری سے متعلق ایک بات جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسند، جدیدیت اور وجودیت جیسی تحریکوں سے وابستہ شاعروں کی اس روش سے خود کو الگ کیا جس میں ذات و کائنات کے مسائل حاوی ہوتے تھے۔ انھوں نے میر و مومن کے بعد ایک بار پھر عشق و محبت جیسے موضوعات کو شاعری کا عنصر بنایا اور غم ہجراں، وصال اور درد و الم سے شرابور نظمیں، غزلیں و قطعات صفحہ قرطاس پر اتار دیے۔ کچھ اشعار آپ بھی دیکھیے:روایتی اردو شاعری کی زمین پر سانسیں لیتے ہوئے بھی جون ایلیا ہمیشہ مثالی زندگی کے متلاشی رہے۔ لیکن اصل زندگی میں اخلاقیات کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، اس میں تو مکاری اور نمائش کا عنصر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں بہت ناراض اور جھنجھلائے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جب یہ ناراضگی اور جھنجھلاہٹ ان کی شاعری کا حصہ بنتی ہے تو وہ کلاسیکی عشقیہ شاعری نہ ہو کر زمین پر سانس لیتے ہوئے مرد و عورت کی محبت و نفرت کی شاعری بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری جون ایلیا کے یہاں خوب ملتی ہیں اور ان کی اصل پہچان بھی یہی بن گئی ہیں 

 پاکستان کے نام ور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہوی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر و فلسفی سید محمد تقی، جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشھور خطاط و مصور صادقین، فلم ساز کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ جون کی ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدارس میں ہوئی جہاں انھوں نے اردو عربی اور فارسی سیکھی۔ درسی کتابوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور امتحان میں فیل بھی ہو جاتے تھے۔ بڑے ہونے کے بعد ان کو فلسفہ اور ہیئت سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی و عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ نوجوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کے بڑے بھائی پاکستان چلے گئے تھے۔ والدہ اور والد کے انتقال کے بعد جون ایلیا کو بھی ) میں با دل ناخواستہ پاکستان جانا پڑا اور وہ تا زندگی امروہہ اور ہندوستان کو یاد کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا "پاکستان آ کر میں ہندوستانی ہو گیا۔" جون کو کام میں مشغول کر کے ان کو ہجرت کے کرب سے نکالنے کے لیے رئیس امروہوی نے اک علمی و ادبی رسالہ "انشا" جاری کیا، جس میں جون اداریے لکھتے تھے۔ بعد میں اس رسالہ کو "عالمی ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی زمانہ میں جون نے قبل از اسلام مشرق وسطی کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنی تحریک نیز فلسفے پر انگریزی، عربی اور فارسی کتابوں کے ترجمے کیے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ترقی بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انھوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

جس زمانہ میں جون ایلیا "انشا" میں کام کر رہے تھے، ان کی ملاقات مشہور جرنلسٹ اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔ (1970) میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا نے ان کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی اور وہ ان کے ساتھ خوش بھی رہے لیکن دونوں کے مزاجوں کے فرق نے دھیرے دھیرے اپنا رنگ دکھایا۔ آخر تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں کی طلاق ہو گئی۔زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بڑا صدمہ تھی۔ وہ نیم تاریک کمرے میں پہروں تنہا بیٹھے رہتے۔ سگرٹ اور مشروب نے بھی ان کی صحت متاثر کی۔ 8 نومبر (2002) کو ان کی وفات ہو گئی۔ اپنی زندگی کی طرح وہ اپنی شاعری کی اشاعت کی طرف سے بھی لاپروا تھے۔ (1990) میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں لوگوں کے اصرار پر انھوں نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ”شاید" شاٸع کیا۔ جون صاحب کا مرتب کردہ دوسرا مجموعہ ”یعنی“ بعد از مرگ (2003) میں منظرِ عام پر آیا۔ بعد میں جون ایلیا کے قریبی ساتھی خالد احمد انصاری نے ان کا بکھرا ہوا کلام اور تحریریں سمیٹنے اور ان کی تدوین کر کے چھپوانے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ انھوں نے ’گمان‘ (2004) ’لیکن‘ (2006) ’گویا‘ (2008) جیسے خوب صورت شعری مجموعے قارئین کی نذر کیے۔ 2007 میں جون کے دوسرے شعری مجموعے ’یعنی‘ کو 80 اشعار کے اضافے کے ساتھ دوبارہ اور مختلف موضوعات پر انشائیوں کا مجموعہ، اردو نثری شاہکار ’فرنود‘ (2012) میں شائع کیا۔ (2016) میں جون ایلیا کی ایک طویل نظم ’راموز‘ کی مختلف اور منتخب الواح کے مجموعے کے بعد اب جون ایلیا پر لکھی گئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر