صو بہ سندھ میں معدنی زخائر-پاکستان کے ماہرین ارضیات بتاتے ہیں کہ صرف سندھ کی سرزمین پر پچاس ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کے معدنی ذخائرموجود ہیں۔یہ بات ایک وزیر معدنیات نے محکمہ معدنیات و ذخائر ڈویلپمنٹ اور داود یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی -انہوں نے کہا کہ پہلی بار بائیولوجیکل مشینوں کے استعمال، ڈیٹا شئیرنگ اور ریسرچ کے ذریعے سے ان ذخائر سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ وزیر برائے معدنیات کا کہنا تھا کہ ماضی میں محکمے، جامعات اور متعلقہ ذمہ داران کی غلطیوں سے اس محکمے میں بہتر کام نہ ہوسکا، دنیا کے مختلف ممالک کی جی ڈی پی ان کی معدنیات پر منحصر ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری لائی جائے-انہوں نے بتایا کہ سندھ کی زمین میں سلیکا سینڈ سمیت پچاس ٹریلین ڈالرز کے بے شمار معدنیات موجود ہیں جبکہ ملک محض ایک ٹریلین ڈالر کے لیے ترس رہا ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی مائننگ کے خلاف اداروں کو شکایتی خط لکھا ہے، محکمہ کا سسٹم ڈیجیٹلائز کرنے اور مانیٹرنگ کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ضلع جامشورو معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے ضلع میں چونے کا پتھر (لائم اسٹون) یہ تھانو بولا خان کے قریب 10کلو میٹر کے فاصلے پر دریافت ہوئے۔ سیلٹائیٹ کی رگیں عمر ایوسین کے چونا پتھر میں ایک شگاف زدہ زون کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں اور دھاتیں سڑانشیم سلفیٹ، کیلشیم سلفیٹ، کیلشیم کاربونیٹ، سلیکا، بیریم سلفیٹ اس مقام پر اندازہ شدہ محفوظ 52ہزار لانگ ٹن ہیں۔ جن میں 25فیصد بے فائدہ مواد ہے باقی 39ہزار لانگ ٹن سیلٹائیٹ ہے۔ یہاں کانکنی 1956ء کے قریب شروع کی گئی تھی اور کچ دھات کھلے گڑھے کھود کر نکالی گئی کچھ کو دوسر ے پیوستہ پتھروں سے علیحدہ کرنے کا کام ہاتھوں سے کیا گیا۔ کچ دھات کا زیادہ تر استعمال کراچی اور لاہور میں واقع پینٹ کی فیکٹریز میں ہوتا ہے اس پہاڑی کے مشرق میں کئی اور فالٹ ہیں جن میں مزید معدنی گیس ملز کی توقع ہے۔سرزمین سندھ کے پہاڑ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔
ماہرین ارضیات کے مطابق، سندھ کے پہاڑ تیل، گیس، گرینائیٹ، جپسم، کیلشئیم، چونا، گندھک، نباتات اور نادر قسم کے چرند پرند سے آباد ہیں۔ سندھ کے سب سے طویل پہاڑی سلسلے کو کھیرتھر رینج کہتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے ’کھیر‘ ایک عربی نام ہے جس کا مطلب فضیلت، اعزاز اور سخاوت ہے۔ کھیرتھر رینج بھی سندھ کے لئے اعزاز کی بات ہے، جس کے طویل سلسلے میں کئی اور پہاڑ جڑے ہوئے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی، ان مختلف چوٹیوں کے جو الگ الگ مقامات پر ملتی ہیں، اپنے اپنے نام ہیں مگر یہ تمام چوٹیاں، چٹانیں اور پہاڑیاں کھیر تھر رینج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ کوہ کی پہاڑیوں، چوٹیوں اور ان کے نشیبی علاقوں کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔کراچی کے علاقے گڈاپ سے اندر کی جانب سفر کریں تو کھار اور مول کے پہاڑ ہیں۔ لائم اسٹون اور چونے کے پتھر کا بڑا ذخیرہ ان پہاڑوں میں ملتا ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1500 فٹ بلند ہیں۔جھمپیر کے قریب میٹنگ کے پہاڑوں میں چائنا کلی جو کہ چینی کے برتن اور سرامکس (سینیٹری) کے لئے استعمال ہوتی ہے بڑے پیمانے پر ملتی ہے۔ یہاں میلوں رقبے پر چونے کے پتھر کے بڑے ذخائر موجود ہیں جو کیمیائی انڈسٹری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
دو ہزار پانچ سو سال پرانی تاریخ کا حامل ضلع جامشوروتھانو بولا خان سے 5کلو میٹر دور فلرمٹی کے ذخائر کی بھی دریافت ہوئی ہے یہ مٹی دو مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے ایک تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دوسرے کوزہ گری کے لئے اس کی سالانہ پیداوار تقریباً آٹھ ہزار ٹن ہے۔ کوٹری کے نزدیک سنگ مرمر کے ذخائر کی دریافت ہوئی ہے یہاں عمر ایوسیں کا چونا کا پتھر بھی موجود ہے۔ لاکھڑا کا علاقہ کوئلے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ میٹنگ قصبہ سے 98 کلو میٹر خانوٹ ریلوے اسٹیشن سے 16؍کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے۔ یہ کوئلے کی بہت بڑی کان کہلاتی ہے۔ضلع جامشورو میں آئل ا ینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 1965ء میں ساری اور 1970ء میں ہندی کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کئے۔ ساری میں 57کروڑ مکعب گیس موجود ہے۔ بحوالہ: (پاکستان کی معدنی دولت اعداد و شمار 2008ء تک کے ہیں)سیہون شریف سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بڈو نامی بلند و بالا پہاڑ موجود ہے۔
یہ پہاڑ 3000 فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے متعدد ذخائر ریافت ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اب بھی کئی مقامات پر مزید تلاش جاری ہے۔ بڈو جبل سے ماربل کا ذخیرہ بھی ملا ہے جو 46 میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کا پتھر ریتیلا کہا جاتا ہے جو تعمیرات کے لئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں پر قدرتی چشمے بھی ہیں۔ٹھٹہ کے قریب سندھ کا قدیم شہر سونڈا ہے۔ سونڈا کے پہاڑوں میں چونے کا پتھر ملتا ہے جبکہ تعمیراتی کام کے لئے پتھر بھی یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی اور نیشنل ہائی وے پر اکثر مرمتی کام کے لئے سونڈا کے پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا جاتا ہے۔ بالکل ہلدی کی طرح پیلا، چمکدار پتھر فقط یہاں نظر آتا ہے۔ جب برسات ہوتی ہے یہ پتھر دھل کر اور بھی نکھر جاتا ہے۔ سونڈا میں پہاڑیوں سے مزدور، سخت مشقت کر کے، پتھر توڑ کر، اسے فروخت کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک سونڈا میں قبریں اسی پتھر کی بنائی جاتی ہیں۔ یہاں ایک تاریخی قبرستان بھی ہے جو 15 صدی عیسوی کے زمانے کی لگتی ہیں۔
یہ تحریر میں نے انٹرنیٹ اور کچھ اپنی معلومات کی مدد سے تیار کی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں