نجران یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع ایک خُوبصُورت اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے اس علاقے میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جو کہ مالی لحاظ سے بہت دولتمند اور خُوش حال بھی تھے۔فتح مکہ کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ارد گرد کے تمام سرداروں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے کہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر جزیہ ادا کریں، آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا یہ پیغام نجران کے عیسائی سردار کے پاس پہنچا تو اس نے نجران کے بزرگ پادریوں کو بلایا اور حضور صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا وہ سبھی اس خط کو پڑھ کر سخت مشتعل ہوئے مگر انہوں نے جنگ سے بچنے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے مذاکرات کا مشورہ دیا، چنانچہ 14 بزرگ پادریوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ منورہ روانہ کیا گیا جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور مسجد نبوی میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی طرف سے مُنہ پھیر لیا کیونکہ اُن کے لباس زرق برق اور فاخرہ تھے، اور وہ لوگ مسجد سے باہر نکل آئے، حضرت علی علیہ السلام نے اُن کو ملاقات نہ کرنے کی وجہ بتائی کہ آپ کے فاخرہ لباس سے غرور و تکبر اور ذہنی برتری کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور عام سادہ لباس پہن کر آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ لوگ سادہ لباس پہن کر آئے اور آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے کافی تفصیلی مذاکرات بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوئے،
حضرت رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو لاکھ سمجھایا دلائل دیئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خُدا کے بیٹے نہیں حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی مگر عیسائی نہ مانے بحث لمبی ہو رہی تھی اور عیسائی نہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ تھے اور نہ جزیہ دینے کو تیار تھے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 61 کا نزول ہوا ،بِسْمِ اللهِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِيْمِ * فَمَنْ حَأجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جأءَكَ مِنَ الْعِلْمِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَأءَنَا وَ اَبْنَأءَكُمْ وَ نِسَأءَنَا وَ نِسَأءَكُمْ ثُمَّ نَتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلیَ الکَاذِبِینَ **آل عمران 61-پھر اے میرے حبیب! آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو آپ سے (حضرت عیسٰیؑ) کے بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنی بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنی بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو، تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو تم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔عیسائی پادریوں نے یہ بات قبول کر لی، مقام اور جگہ کا تعین ہو گیا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو 24 ذوالحجہ 10 ہجری کی نمازِ فجر کے بعد ایک سرخ قالین اور چار لکڑیاں دے کر مقررہ میدان میں بھیجا، اور ایک سائبان کھڑا کرنے کا حکم دیا، اہلِ اسلام کے تمام بڑے اور نامی مفسرین سمیت علامہ زمخشریؒ، علامہ فخرالدین رازیؒ، علامہ جلال الدین سیوطی ؒنے تفسیر در منثور میں اور علامہ بیضاوی ؒنے جلاؤالعیون میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے گھر سے باہر نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو بغل میں اُٹھائے اور امام حسن علیہ السلام کو انگلی سے پکڑے ہوئے تھے جنابِ سیّدہ فاطمۃُ الزَّہرا سلام اللہِ علیہا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اور اور اُن کے پیچھے حضرت علی علیہ السلام تھے اور یہاں پر آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث بیان فرمائی صحیح بخاری سمیت دیگر حدیث کی کتب میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ جس طرح ہر نبی کے اہلبیت ہوتے ہیں یہ میرے اہلبیت ہیں، تو انہیں ہر بُرائی اور نجاست سے دور رکھ اور پاک و پاکیزہ فرما جب آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے میدانِ مباہلہ میں پہنچے کہ زمین و آسمان ان ہستیوں کے نور سے روشن تھے تو نصاریٰ کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی
عیسائی راہبوں کے سردار جس کا نام تاریخ نے عافث لکھا ہے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔واللہ ! میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ اس پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا حکم دیں تو یقیناً ہٹ جائے گا، عافیت اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اُٹھا لو ورنہ قیامت تک نسلِ نصاریٰ کا خاتمہ ہو جائے گااور یوں نجران کے نصاریٰ نے جزیہ دینا قبول کر لیا جلاء العیون میں علامہ بیضاوی ؒ لکھتے ہیں کہ جنابِ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہیہ لوگ اگر مباہلہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ اور بگاڑ دیتا یہ میدان آگ بن جاتا اور نجران میں زندگی ختم ہو جاتی24- ذی الحجہ 9 ہجری کا یہ دن اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت سے اس کے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم فتح نصیب ہوئی تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مذہب و مسلک اس دن کو عید کے طور پر منانا چاہیے اور اسلامی احکامات پر عمل کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت ہمیں بھی حاصل ہو۔مباہلہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےمباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔
مباہلہ آیہ تطہیر کی طرح اہل بیت ﴿ع﴾ کے مقام اور حقانیت کو متعارف کرواتا ہے لہذا انسانیت کو چاہئے کہ اس خاندان کے دسترخوان پر اکھٹی ہو اور ان سے دوری بشریت کو مصائب و مشکلات سے دوچار کر دے گا۔سلامی کلینڈر میں ۲۴ ذی الحجہ کا دن روز مباہلہ کے عنوان سے معروف ہے۔ مباہلہ کا واقعہ نہ صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے بلکہ آپ کے ساتھ مباہلے کے لئے نکلنے والوں یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ ﴿س﴾، حضرت امام حسین و حسین ﴿ع﴾ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت امام علی ﴿ع﴾ آیہ مباہلہ کی رو سے نفس اور جانِ پیغمبر صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر فائز ہیں۔ مباہلہ کا واقعہ ہجرت کے نویں سال ۲۴ ذی الحجہ کو پیش آیا۔ سورہ آل عمران کی آیہ ٦١ میں اس واقعے کا بیان آیا ہے۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ؛ پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار ۔ مباہلہ گزشتہ انبیا کے زمانے میں بھی رائج تھا جیسے کہ حضرت نوح کا اپنی قوم سے، حضرت موسی کا فرعون سے اور حضرت ابراہیم کا نمرود سے مباہلہ کہ جنہوں نے علم و منطق سے عبودیت کا تسلیم نہیں کیا اور درنہایت انبیا کے بدعا اور نفرین کی سبب ہلاک ہوگئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ صدر اسلام کے ان واقعات میں سے ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے اور ان سے ساتھ نکلنے والوں یعنی یعنی حضرت علی علیہ السّلام حضرت فاطمہ حضرت امام حسین و حسین کی فضیلت اوران کی راہ و روش کی حقانیت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک واقعہ تھا کہ جسے رونما ہونا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پنجتن آل عبا کے حجت ہونے اور حق ہونے کا اعلان تمام دنیا والوں تک پہنچ جائے۔ شیعہ اور اہل سنت تواریخ میں اس واقعے کا بیان تسلسل کے ساتھ موجود ہے اس آیت کی رو سے حضرت امام علی علیہ السّلام نفسِ پیغمبر ہیں۔ شیخ مفید کے بقول واقعہ مباہلہ میں حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے عالمگیر مقام کو روشناس کروایا گیا ہے چونکہ مد مقابل عیسائیت تھی اور عیسائی راہبوں اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم دو بچوں، ایک خاتون اور حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ مباہلے کے میدان کی طرف آرہے ہیں، انہوں نے یہ منظر دیکھتے ہیں پسپائی اختیار کی۔ مباہلہ کا واقعہ کہ جو حضرت علی علیہ السّلام ا ور اہل بیت کے مقام و فضیلت کو بیان کرتا ہے یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلام کی گونج دنیا کے تمام گوشوں تک پہنچ چکی تھی اور پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ممالک کے سربراہان اور مختلف اقوام اور قبائل کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی تھی۔ انہی خطوط میں سے ایک خط نجران کے عیسائیوں کے لئے بھی تھا۔مباہلہ پیغمبر اکرم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور امیر الموٴمنین کی ولایت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہےدر حقیقت مباہلہ کے واقعے میں اسلام کو قیصر روم کے نمائندوں پر ایک عظیم فتح نصیب ہوئی جو فتح خیبر اور مکہ کے بعد حاصل ہوئی۔ یہ فتح اسلام کے عالمگیر ہونے اور دوسرے ادیان کے خاتمے اور اسلام کے سامنے ان کے تسلیم ہونے کا مظہر ہے۔ دوسری جانب سے اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت ہر بڑی فتح کے موقع پر پیغمبر کے ہمراہ تھے اور ان کا کردار بنیادی تھا۔ مباہلہ دنیا والوں کو دین کے تسلسل کے لئے حضرت علی علیہ السّلام اور اہل بیت کے تعارف کا تسلسل ہے اور ایک طرح سے اسلام کی علی اور اہل بیت کے ساتھ معیت کا عمومی اعلان ہے۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں