قيا م پاکستان
میں شیعہ اکا بر ين کا کردار
یوں تو قيا م پاکستان میں سبھی اہل تشیع نے حصہ لیا لیکن کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کے بغیر پاکستان کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا، 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ کے اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بعد میں آپ نے اثنا عشری مکتب کو قبول کیا ۔ دوسری اہم ترین شخصیت سر آغا خان سوم کی ہے جو 1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے پہلے صدر رہے۔1906ء میں انہوں نے 35 نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ میں قیادت کی اور برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی۔ اپنے تاریخی خطاب میں انہوں نے برطانوی وائسرائے پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ان کی تکریم کی جائے -نیز انہیں لوکل باڈیز اور قانون ساز کونسل دونوں میں نمائندگی دی جائے۔
1930ء اور1931ء میں گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ سر آغا خان کولندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے لیے مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر مدعو کیا گیا جہاں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے سر آغا خان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے کانفرنس کے روبرو یہ مطالبات آغا خان کی رہنمائی میں پیش کیے ہیں جنہیں ہم سب دل سے سراہتے ہیں اور برصغیر کے مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں ‘‘۔ تیسری اہم ترین شخصیت راجا امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد (جس کی آمدنی کا اندازہ ان دنوں ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان راجا بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس اوربعدکی رابطہ عوام مہم کا خرچہ راجا صاحب نے اٹھایا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرزا ابوالحسن اصفہانی بھی تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔ حبیب بینک والے سیٹھ محمد علی نے بھی متعدد موقعوں پر تحریک پاکستان کی مالی مدد کی 1948ء میں نو زائیدہ ریاست کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 80 ملین روپے کا چیک قائد اعظم کو دیا۔
پی آئی اے کی بنیاد رکھنے والے مرزا احمد اصفہانی ؛مسلم کمرشل بینک کے بانی سر آدم جی؛ راجا غضنفر علی خان اور نواب فتح علی خان قزلباش تک شیعہ رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمہ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم، لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمہ صغریٰ کے نام قابل ذکر ہیں۔ کی فضا ہی رہی ہے-مسلم لیگ کے رہنما۔ راجا امیر احمد خان آف محمود آباد یو۔ پی )بھارت کے بہت بڑے جاگیردار اور قائداعظم کے معتمد رفقا میں سے تھے۔ راجا صاحب محمود آباد نے سیاسی بصیرت انہی سے حاصل کی اور نوعمری ہی میں مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔
1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم رکن بن گئے۔ 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل کی اور مسلم نوجوانوں کو تحریک پاکستان سے روشناس کرایا۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد کراچی آ گئے۔ لیکن سیاسی انتشار سے دل برداشتہ ہو کر عراق چلے گئے اور پھر لندن میں سکونت اختیار کی۔ آپ لندن میں اسلام کلچر سینٹر کے ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ کہتے ہيں: پاکستان، سر سيد احمد خان کی تعليمی خدمات، قائد اعظم کي رہنمائي اور راجہ صاحب محمود آباد کی دولت کے مرہونِ منت ہے۔راجا صاحب محمود آباد ریاست محمود آباد کے والی تھے جو لکھنؤ سے 30 میل دور شیعہ اکثریتی ریاست تھی۔ آپ کے والد سرمحمد علی خان مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔آپ کے والد ’’مہاراجا علی محمد خاں‘‘، نے ايک دفعہ کانپورمسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپنی پوری رياست پيش کرديی تھی۔ لوگوں نے کہا بھی ’’آپ بلاامتياز سب کی ضمانت دے رہے ہيں، ان کی اکثريت سے آپ واقف بھی نہيں ہيں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کو بچانے کے لیے ميری رياست ختم ہو جائے تو ميں اسے معمولی سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کی تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لیے ميں اپنی جان اور آن کے لیے بھی خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔راجا صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحريکِ پاکستان ميں اپنی دولت لٹائی، اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي، مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر آپ کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنؤ ميں محفلوں کو گرماتا۔ جب آپ نے مسلم ليگ ميں شموليت اختيار کي تویہ ایک قسم سے گورنر’’سرہنري ہيگ‘‘ کے ساتھ ٹکرکے مترادف تھا۔ اسی وجہ سے آپ کو بلاکردھمکي دي گئي کہ اگرآپ نے مسلم ليگ نہ چھوڑي تو رياست ضبط کرلي جائے گي۔ ليکن آپ پراس کا کوئی اثرنہ ہوا بلکہ شعلۂ آتش اورتيزہوگيا۔
راجا صاحب مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اورشايد
خدمت کي يہ ميراث ان کو اپنے والد مہاراجا محمد علي خاں سے ملي تھي۔ یہی وجہ تھی
کہ راجا صاحب ایک طرف سے مسلم ليگ کے تمام جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تو دوسري طرف
ذاتي طورپرہربيکس و نادارکي مدد کے لے ہمہ وقت تيار رہتے۔ جب آپ کے بيٹے ’’سليمان
مياں صاحب‘‘ کي ولاد ت ہوئي تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ ديا۔ مگرآپ نے عجيب
انداز سے اللہ کي اس نعمت کا شکرادا کيا۔ وہ اس طرح کہ رياست کي تمام 24 تحصيلوں
سے کل ايسے آدميوں کي فہرست منگوائي جو موتيا کے مرض کا شکارتھے۔ چنانچہ انھوں نے
گيارہ سو اٹھاون 1158 مريضوں کو اپنے علاقے کے کيمپ ميں ٹھہرايا اور تمام لوگوں کا
مفت آپريشن ڈاکٹر ٹي پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروايا۔
قیام پاکستان کی تحریک میں آپ کی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ آپ قائد اعظم کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں مالی، اخلاقی مدد فراہم کرنے میں بہت زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح متعدد مواقع پر آپ کے وجود کو باعث افتخار قراردیا۔ اور آپ کي صلاحيتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کومسلم ليگ کا خزانچي مقررکيا ليکن راجا صاحب اس اہم منصب کے ساتھ ساتھ اپني شعلہ بياني سے بھي نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے، يوں زباني خرچ کے ساتھ ساتھ جيب خرچ کي ذمہ دارياں بھي انجام ديتے رہے۔ليکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپني رياست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان ميں تين فيکٹرياں لگانے کي پيشکش بھي ہوئي ليکن آپ اسے ٹھکرا ديا۔ اپني زندگي کے آخري ايام بڑي کسمپري کے ساتھ جو کي روٹي اور بسوں ميں سفرکرتے ہوئے گزارے۔
مرزا ابوالحسن اصفہانی 1902ء میں بنگال کے ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ 1924ء میں بار ایٹ لاء ہوئے۔ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ وہ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ بعد میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور مرکز میں تجارت و صنعت کے وزیر رہے۔ 1981ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔1937ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ کا پہلا اجلاس 15 اکتوبر سے 18 اکتوبر 1937ء تک لکھئنو میں منعقد ہوا۔ جناح‘ راجہ صاحب محمود آباد کی کوٹھ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اجلاس میں شرکت کے لئے تیار ہو کر آئے تو شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ اصفہانی، چوہدری خلیق الزمان اور راجہ صاحب بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں نواب اسماعیل خاں بھی بے عیب لباس میں ملبوس اور ایک سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے آگئے۔ جناح نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ کیا آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنی ٹوپی مجھے دے سکتے ہیں۔ نواب اسماعیل خاں نے اپنی روایتی خوش خلقی سے نہ صرف انہیں یہ ٹوپی دی بلکہ پہننے کے لئے بھی کہا۔ صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کیسی لگتی ہے، جناح نے اسے پہن لیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں تو وہ اٹھ کر ساتھ کی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہاں ایک قدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی رائے کا محاسبہ کرنے لگے۔ ٹوپی نہ صرف ٹھیک آئی تھی بلکہ ان پر زیب بھی دیتی تھی۔ دو منٹ بعد وہ واپس آئے تو اصفہانی نے ان سے کہا کہ آپ ٹوپی پہنے رہیں اور اسی طرح اجلاس میں شرکت کریں۔ انہوں نے یہ بات مان لی اور ٹوپی پہنے ہوئے جلسے میں چلے گئے۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ مجھے وہ مجمع ابھی تک یاد ہے۔ مجھے لوگوں کے مسکراتے ہوئے چہرے اب تک نظر آتے ہیں۔ وہ زور زور کی تالیاں اور اللہ اکبر کے فلگ شگاف نعرے اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ سب لوگ سرگوشی کے انداز میں یا باآواز بلند اس ٹوپی اور شیروانی کی تعریف کرنے لگے۔ اس سے انہیں خود بھی اتنی ہی خوشی اور مسرت ہوئی جتنی ہم سب کو۔ لکھنو کا اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی شہر کے بہت سے نوجوان اور معمر لوگوں نے یہ ٹوپی پہننا شروع کر دی جو جناح کی بدولت راتوں رات مقبول ہو گئی تھی۔1۔ یہ ٹوپی اب ’’جناح کیپ‘‘ کہلاتی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں