شہر چھوڑو یا زہر کا پیالہ پی لو-قاضی
نے فیصلہ کیا تو اس نے بھی بے دھڑک جواب دیا شہر نہیں چھوڑوں گا اور زہر کا پیالہ
ہونٹوں سے لگا لیا-سقراط اس مرد حر کا نام ہے جس نے جیتے جی زہر کا پیالہ پی کر
اپنے نام کو امر کر لیا لیکن اپنے سچۤے نظریا ت سے دستبردار نہیں ہوا سقراط نے جو دنیا کا
پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے کوئی کتاب نہیں لکھی کیو نکہ وہ لکھنا نہیں جانتا
تھا۔ سقراط دنیائے فلسفہ کاعظیم اور جلیل المرتبت معلم تھا، جس نے پانچویں صدی قبل
مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ سقراط 470 سال پہلے یونان کے معروف
شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تحریری شواہد ناپید ہیں۔
تاہم افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ ایک مجسمہ ساز تھا، جس
نےحب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر کئی یونانی جنگوں میں حصہ لیا اور دادِ شجاعت
پائی -سقراط انتہائی بد صورت تھا اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی
تھی۔ جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہوتی
ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ با پ
مجسمہ ساز تھا۔سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی
ہر وقت لڑتی رہتی تھی ۔سقراط نے اس کا کبھی برا نہیں مانا ۔سقراط کا ایک خوشحال
خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے۔"ایک روز میں سقراط کے گھر گیا
تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہہ رہی
تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط کوئی
جواب نہیں دےرہا ہے تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر
سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا۔ کیٹو مجھے معلوم تھا
بادل گرج رہے ہیں بارش ہوگی"ایک دن افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا
اور کہنے لگا “آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا
تھا” سقراط نے مسکرا کر پوچھا “وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟” افلاطون نے جذباتی لہجے میں
جواب دیا “آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا۔۔۔!” اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے
ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا “تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی
کسوٹی پر رکھو، اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے
بتانی چاہیے، یا نہیں” افلاطون نے عرض کیا “میرے عظیم استاد! تین کی کسوٹی کیا
ہے؟” سقراط بولا “کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ سو فیصد سچ
ہے۔۔۔؟” افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔ سقراط نے ہنس کر کہا “پھر یہ بات
بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟” افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی
طرف دیکھنے لگا، سقراط نے کہا “یہ پہلی کسوٹی تھی۔ اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔
“مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟” افلاطون نے انکار میں سر
ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!” سقراط نے مسکرا کر کہا “کیا تم یہ
سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟” افلاطون نے پھر انکار میں
سر ہلا دیا۔ سقراط بولا “گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔”
افلاطون خاموش رہا۔۔! سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا “اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ
جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟” افلاطون نے انکار میں
سر ہلایا اور عرض کیا “اُستاد محترم! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں
ہے۔۔!” سقراط نے ہنس کر کہا “اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے
بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟” افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سقراط نے
گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے، اُس کے تمام شاگرد اس
پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل ہر بات کو تین کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔۔! 1۔ “کیا
یہ بات سو فیصد درست ہے؟”، 2۔ “کیا یہ بات اچھی ہے؟” اور 3۔ “کیا یہ بات سننے والے
کے لیے مفید ہے؟” اگر وہ بات تین کی کسوٹی پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بول دیتے
تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا،
تو وہ خاموش ہو جاتے تھے۔ ۔ تاہم اپنی علمی مساعی کی بدولت اُسے گھر بار اور
خاندان سے تعلق نہ تھا۔احباب میں اس کی حیثیت ایک اخلاقی و روحانی بزرگ کی سی تھی۔
فطرتاً سقراط، نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد
تھا۔ اپنی اسی حق پرستانہ فطرت اور مسلسل غور و فکر کے باعث اخیر عمر میں اس نے دیوتائوں
کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں جمہوریہ ایتھنز کی عدالت نے اسے موت
کی سزاسنائی۔سقراط پر ایتھنز کی عدالت نے جو الزامات لگائے ، ان میں سر فہرست تھا
کہ " تم ہمارے نوجوانوں کو بہکا رہے ہو"سقراط کے لڑکپن کی ذہانت اور تخلیقی
صلاحیتوں کے حوالے سے ایک واقعہ سقراط کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب کرائیٹو نے بیان
کیا ہے۔ کرائیٹو کا کہنا ہے کہ میں اور سقراط ایک دن کمھار کے چاک کے پاس سے گزر
رہے تھے۔ کمھار نے نرم نرم ملائم گیلی مٹی کا ایک گولہ چاک پر رکھا، چاک کو تیزی
سے گھمایا اور مٹی کے گولے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کچھ اس طرح سے حرکت دی کہ دیکھتے
ہی دیکھتے ایک خوبصورت مرتبان مٹی کے گولے کی جگہ پر نمودار ہو گیا۔ سقراط نے کہا
ابھی تو چاک پرمٹی کا گولہ تھا یہ خوبصورت مرتبان آخر کہاں سے آ گیا پھر خود ہی
کہنے لگا ہاں یہ مرتبان کمہارکے ذہن میں تھا اور پھر ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر
اس چاک پر آ گیا۔ سقراط نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا
کوئی مجسمہ یا تصویر پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے
کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔ یہ ایک زبردست اور غیر معمولی دریافت تھی۔ سقراط نے
ہنر، فن اور تخلیق کے بارے میں جان لیا تھا۔ سقراط کے قریبی دوست فیڈو، کرائیٹو
اور خاص شاگرد افلاطون کا کہنا ہے کہ سقراط پر بعض اوقات ایک ایسی کیفیت طاری ہو
جاتی تھی،جس کو الفاظ میں پورے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔۔ سقراط کی زندگی کی
سوانح پڑھتے ہوئے میں بذات خود اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ سقراط نے جب علم و آگہی کی
دنیا میں قدم رکھّا وہ اسی لمحہ پتھّر سے تراشیدہ ان بتوں کی پوجا سے تائب ہ وگیا
اور اس نے ان دیکھے خدا کی عبادت کا فلسفہ پیش کر دیا -فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی
حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا
ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ
گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے
مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک
فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ
اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام
العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔
ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ
کے عطا ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں