قلی قطب شاہ امور سلطنت سے فراغت کے
بعد محل سراء میں آئے تو شاہزادے کی بابت سوا ل کیا -ملکہ عالیہ ولی عہد کہان گئے
ہیں-ملکہ عالیہ نے
جواب دیا ولی عہد دریا کے پار گئے ہیں قطب
شاہ نے سوال کیا اتنی جل تھل بارش اور دریا کی طغیانی میں وہ کس طرح گئے ہیں تو ان
کو جواب ملا کہ دریا میں تیر کر گئے ہیں قلی قطب شاہ کو شاہزادے کا یوں دریا پار
کر کے جانا مطلق پسند نہیں آیا اور انہون نے اسی وقت اپنے نائبین کو بلا کر دریا
کے اوپر ایک پل بنانےکے احکامات جاری کئے قلی قطب شا ہ نے کہا جب میرا لخت جگر اپنی
محبوبہ سے ملنے اس طرح دریا پار کر کے جا سکتا ہے تو اور بھی کسی کا جوان بیٹا
جاسکتا ہے ،
دریا پر پل بنا دیا گیا اور پھر قلی
قطب شاہ اپنے لخت جگر کا رشتہ لے کر اس ہندو لڑکی بھاگ بھری کی دہلیز پر جا پہنچے
،لڑکی والے بھی بھلے نیک لوگ تھے کچھ مقدّر کا زور تھا رشتہ منطور ہو گیا لیکن قلی
قطب شاہ نے شادی کی شر ط لڑ کی کے مسلمان ہوجانے سے منسلک کردی جسے لڑکی سمیت تمام
گھر والو ں نے تسلیم کیا لڑکی مسلمان ہو ئ اور اس کا نام حیدر محل رکھا گیا اور اس
وہ بھاگ بھری ہندو لڑکی واقعی ایک بھاگ بھری شاہزادی بن کر قطب شاہی شا ہی شاہزادے
کے عقد میں آئ
کہانی بہت پرانی نہیں ہئے جب جنوبی ہندوستان کے قلب مین بہنے والی موسیٰ
ندّی میں طغیانی کی شوریدہ سر لہریں اس کے کناروں پر اپنا سر پٹختی ہوئ چلی جارہی
تھیں اور ندّی کے کنارے ایک قطب شاہی شاہزادہ کھڑا ہوا سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی
محبوبہ بھاگ بھری سے ملنے کس طرح اس منہ زور دریا کو پار کرےکہ دریا کے دوسری جانب
اس کی دلکشا ء محبوبہ حسب وعدہ اپنے محبوب کے آنے کے انتظارمیں بیٹھی گھڑیاں گن رہی
تھی ،اور پھر بالآخر قطب شاہی شاہزادے نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے آپ کو د
ریا کی لہروں کے سپرد کر دیا اور اپنی محبوبہ سے ملاقات کو پہنچا
محمد قلی قطب شاہ سلطنت قطب شاہی کے پانچویں سلطان تھے۔ ان کا دار السلطنت گولکنڈہ تھا۔ انہوں نے حیدرآباد شہر کی تعمیر کرکے اسے اپنا دار السلطنت بنایا۔ شہر حیدرآباد کو ایرانی شہر اصفہان سے متاثر ہوکر بنوایا یا۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے فرزند تھے۔ انہوں نے شہر حیدر آباد دکن کی تعمیر کی۔ ان کی (پہلی) راجدھانی گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔ شہر حیدرآباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی آرکٹکٹوں سے کی گئی۔
شہر حیدرآباد کو حضرت امام علی علیہ
السلام کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اکثر لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ شہر حیدرآباد دلیروں
کا شہر ہے۔محمد قلی قطب شاہ نے 1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان میں چار مینار کی تعمیرکروائی۔
اور پھرقلی قطب شاہ نے ایک اور فیصلہ
کیا کہ وہ مولا علی کے نام نام پر ا یک نیا شہر بھی بسائین گےچنانچہ جنوبی
ہندوستان کی سرزمین کو منتخب کر کے وہاں پر ایک شہ پارہ شہر بسانے کا فیصلہ کیا (یہ
شہر ماضی کی طرح آج بھی پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے قلی قطب شاہ
نے شہر کا سنگ بنیاد اپنے وقت کےمعزّز ین ،،رؤسا ء اور وعالی مرتبت افراد کے ساتھ
رکھا ،، سنگ بنیاد رکھنے کے بعد قلی قطب شاہ نے دعاء کے لئے اپنے ہاتھ اسی جگہ زیر
آسمان بلند کئے اور دعاء کی کہ پروردگار تو میرے بسائے ہوئے اس شہر کو عالموں ،طبیبوں
سے ادیبوں سے
شاعرون اور ہنر مندوں سے اور نیک
لوگون سےمعمور کر دے-
قلی قطب شاہ کی دعاء کے وقت قبو لیت کی
گھڑی تھی اور ان کے دل کی سچّی آ رزو تھی کہ دعاء قبول ہو گئ اور اس بات کا پورا
ہندوستان گواہ ہئے کہ حیدرآبا د دکن میں پورئے ہندوستان سے عالم ،طبیب شعراء
اساتذہ ،طالب علم اور چنندہ چنندہ ہنر مند آ بسے اور یہ شہر ان کے وجود سے جگمگا
اٹھا اس شہر بے مثال نے اپنے حاکموں کی نیک تمنّاؤں کے طفیل اپنی آغوش میں سب کو
سمیٹ لیاحیدرآباد دکن منصف حاکموں کی راجدھانی تھا جو آ ج بھی زندہ ہئے ،اس عظیمالشّان
شہر کے قریئے گلیاں دالان عمارتیں سبہی کچھ شہیدان کربلا ،ایمہ طاہرین کی پاکیزہ
تر حیات سے منسوب کی گئیں ،بیشتر یادگاریں آج بھی تابندہ ہیں
،موسٰی ندّی کے چوڑے پاٹ پر بنوایا ہوا پل آج
بھی قائم ہئے اس کے بہت بعد میں بنوایا ہوا کثیر لاگت کے باوجود پہلی طغیانی بھی
نہیں سہار پایا اور غرق آب ہو گیا-سلطان محمد قلی قطب شاہ، ابراہیم قلی قطب شاہ کے
فرزند تھے۔ انہوں نے شہر حیدر آباد، دکن کی تعمیر کی۔ ان کی (پہلی) راجدھانی
گولکنڈہ سے شہر حیدرآباد کو منتقل کیا۔ شہر حیدر آباد کی تعمیری ڈیزائن ایرانی
آرکٹکٹوں سے کی گئی محمد
قلی قطب شاہ نے 1591 ء میں شہر حیدرآباد کے درمیان چار مینار کی تعمیر کروائی۔حیدر
آباد دکن میں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بنائی ہوئی تاریخی یادگار۔ اس کا سنگ بنیاد
999ھ میں رکھا گیا۔ جس جگہ چار مینار واقع ہے وہاں کبھی موضع چچلم واقع تھا۔ جس میں
بعض روایتوں کے مطابق سلطان قلی قطب شاہ کی محبوبہ بھاگ متی رہا کرتی تھی۔ شادی کے
بعد بھاگ بھری کا نام بھی حیدر محل رکھّا گیا تھا -یہ نیک خصلت بادشاہ اپنی رعیت
کا بے حد خیال رکھتے تھے
ادب-سلطان قلی
قطب شاہ عربی، فارسی اردو اور تیلگو زبانوں میں ماہر تھے۔ ان کی شاعری فارسی اور
اردو زبانوں میں ہے۔ اردو شاعری کا دیوان “کلیات قلی قطب شاہ مشہور ہے۔ اور ان کو
پہلا صاحب دیوان شاعر(اردو) مانا جاتا ہے- سلطان محمد قلی قطب شاه اردو کے سب سے
پہلے صاحب دیوان شاعر تھے –
قلی قطب
شاہوں کے کارہائے نمایا ن میں ان کی وہ تعمیرات ہیں جو انہوں نے اپنے عوام کی فلاح
و بہبود کے لئے بنوائیں ،ان تعمیرات میں مساجد امام بارگاہین ،مدرسے ،اورمدرسوں سے
ہی متّصل شفاء خانے اور طالبعلموں کے لئے طعام و قیام کے ہوسٹل شامل ہیں ،ان کی
رگو ں میں عوام کی بہبود کا لہو دوڑتا تھا انکی سلطنت میں کو ئ بھوکا نہیں سوتا
تھا یہ نادارون اور غریبو ن کے اتنے وظائف مقرّر کرتے تھے کہ ان کو کاسی کے سامنے
دست سوال دراز نا کرنا پڑے یہ طالبعلموں کو اتنے وظائف دیتے تھے کہ وہ آسانی سے
حصول علم پر توجّہ دے سکیں
انہوں نے
بےروزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کا انوکھا طریقہ نکالا تھا کہ جیسے کسی پڑھے
لکھے نوجوان کی بے روزگاری کی اطّلاع ملتی اسے اپنے زاتی ملازم کا درجہ دیکر اپنے
پاس رکھ لیتے اور اس کے برسر روزگار ہونے تک اس کو اپنے آپ سے جدا نہین کرتے تھے
اس دوران اگر اس کی شادی ہونی ہوتی تھی تو اس کی شادی اپنے اخراجات سے کرتے تھے
اور اس کے ہونے والےبچّوں کی وریات بھی پوری کرتے تھے اور اس طرح اپنے معاشرے کو
وہ اخلاقی انتشار سے بھی محفوظ رکھتے تھے ،محرّم کے دنوں میں خاص طور پر بخشش کے
خاموش سلسلے بڑھا دیتے تھے
ان بہتریں
کاموں کے صلے میں اللہ تعالٰی نے ان کی دنیا تو روشن کی ہی کی ان کے مرنے کےبعد ان
کی آرام گاہوں کو بھی پرسکون گوشہ عطا کیا آ ج باغ ابراہیم کے ایک پرسکون گوشے میں
یہ باشاہ اپنے عوام کی دعائیں لینے کے بعد خود کل کے باشاہ کے پاس چلے تو گئے ہیں
لیکن عوام جب بھی ان کی بات کرتے ہیں تو دل سے دعا دینے کے ساتھ کرتے ہیں ( خدا
رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را)مجھے جب کبھی ان کے مزارات کا تصوّر آتا ہئے تو
نوڈیرومیں زو الفقار علی بھٹّو ،ا سکندر مرزا ،ایّوب خان ،اور جبڑا چوک کا تصّو ر
بھی خود بخود ہی آ جاتا ہئے
میر ی حیدر
آباد دکن پر لکھی جانے والی تحریر تمام ہو گئ ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں