بدھ، 7 ستمبر، 2022

اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی(پا رٹ 2)

 

جن بچوں کو دودھ کا ذائقہ پسند نہیں ان کے لئے چاکلیٹ اور اسٹابیری فلیور میں بھی موجود ہے۔ اونٹنی کا دودھ پسندکرنے والے ایک گاہک علی حیدر کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ ہفتے میں ایک دو بار یہ دودھ ضرور پیتے ہیں۔اونٹنی کے دودھ کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کا حال یہ ہے کہ آپ کو مختلف چیزوں کی خریداری کامفت مشورہ دینے والی ایک بڑی ویب سائٹ ’او ایل ایکس ڈاٹ کام‘ پر بھی اس کے اشتہارات مل جائیں گے۔ انہیں اشتہارات میں سے ایک اشتہار میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وہ خالص دودھ فروخت کرتے ہیں جبکہ مارکیٹ میں گائے، بھینس اور بکری کے دودھ کی ملاوٹ والا اونٹنی کا دودھ بھی ملتا ہے۔

سعودی عرب، صومالیہ، کینیا، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھی چرچے

کراچی سے بڑے پیمانے پر دبئی اور دیگر خلیجی ممالک اور پھر وہاں سے پاکستان فوڈ اسٹف درآمد اور برآمد کرنے والی فرم ثمرہ فوڈ اسٹف کے مالک طارق اسلم اور منیجر محسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’اس وقت سب سے زیادہ اونٹنی کا دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب اور صومالیہ سرفہرست ہیں، جبکہ کینیا، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھی اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔‘طارق اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف اونٹنی کا دودھ ہی مشہور نہیں ہو رہا، بلکہ اس دودھ سے بنی اشیا جیسے چاکلیٹس اور دیگر فلیورڈ پروڈکس کی ڈیمانڈ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو مقامی تاجروں کوغیر ممالک سے بھی آرڈرز ملنے لگے ہیں۔البتہ کچھ حد درجہ نفاست پسند افراد کھلے عام اور بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے اور پلاسٹک کی عام بوتلوں اور تھیلوں میں دودھ کی فروخت کو’ان ہائی جینک‘ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کو اس کی قیمت پر اعتراض ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 200روپے لیٹر اونٹنی کا دودھ پینے سے بہتر ہے مچھلی یا اسی قسم کی کوئی اور خوراک کھالی جائے۔ ان کے بقول ’ویسے بھی یہ ایسے دام ہیں جو ایک عام اور غریب آدمی کی برداشت سے باہر ہیں۔ غریب آدمی تو 75روپے کلو کا بھینس کا دودھ لیتے ہوئے بھی ہچکچاتا ہے۔‘

دس کروڑ ڈالر کا بزنسا-اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اونٹ کے دودھ سے بنی مصنوعات کی کمرشل ویلو میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اونٹنی کا دودھ اب آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنتاجارہا ہے۔ ادارے کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پچھلے سال تک اونٹ کے دودھ کی مصنوعات کا حجم 10بلین ڈالر تھا۔

کینیا میں ’کیمل ملک شیک‘ بھی پاپولر-لندن سے شائع ہونے والے اخبار ’گارجین‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ کینیا میں اونٹنی کے دودھ کا شیک بہت زیادہ پسند کیا جانے لگا ہے، جبکہ کینیا کی کافی انڈسٹری بھی رفتہ رفتہ اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات پر انحصار بڑھا رہی ہے۔اونٹنی کے دودھ پر یورپی ماہرین کی تحقیقات -ہالینڈ میں ماہرین تحقیقات کررہے ہیں کہ تاریخی طور پر فائدہ مند سمجھا جانے والا اونٹنی کا دودھ کیا واقعی کئی بیماریوں سے لڑنے کی تاثیر رکھتا ہے-مصر میں جزیرہ نما سنائی کے بدو زمانہ قدیم سے یقین رکھتے ہیں کہ اونٹنی کا دودھ تقریباً تمام اندرونی بیماریوں کا علاج ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس دودھ میں جسم میں موجود بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق روس اور قزاقستان میں اکثر ڈاکٹر اونٹنی کا دودھ کئی مریضوں کے علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔بھارت میں اونٹنی کا دودھ یرقان، ٹی بی، دمہ ، خون کی کمی اور بواسیر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اور ان علاقوں میں جہاں اونٹنی کا دودھ خوراک کا باقاعدہ طور پر حصہ ہے وہاں لوگوں میں ذیابیطس کی شرح بہت کم پائی گئی ہے۔ہالینڈ میں 26 سالہ فرینک سمتھس وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر اونٹوں کی کمرشل فارمنگ کا کام شروع کیا۔ ان کے والد مرسل اعصابی امراض کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے شعبہ صحت کے اپنے ساتھیوں کو اس تحقیق کے لیے تعینات کیا کہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کے بیٹے کی تیار کردہ مصنوعات کتنی فائدہ مند ہیں۔صرف تین ہی سال کے عرصے میں ان کے کام نے مختلف حلقوں میں اتنی دلچسپی پیدا کردی کہ شعبہ صحت کی جانب سے ان کے لیے باقاعدہ فنڈنگ شروع کردی گئی۔ڈاکٹر سمتھس کا کہنا ہے کہ اس دودھ میں اتنے فائدے ہیں کہ یہ یورپ کی صحت افزا خوراک کا حصہ بن سکتا ہے۔ ’اور ہم یہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘۔

انہوں نے اپنی تحقیق کے بارے میں بتایا کہ ہسپتال میں ذیا بیطس کے مریضوں کو گروپوں میں تقسیم کرکے گائے یا اونٹنی کا دودھ باقاعدہ طور پر پلایا گیا اور پھر ان کے شوگر لیول کی جانچ کی گئی جس سے اونٹنی کے دودھ کی افادیت ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں وسیع تر تحقیقات کی جارہی ہیں۔یورپ میں اونٹوں کی درآمد بھی منع ہے-انہوں نے اپنی کمرشل فارمنگ کا آغاز تین اونٹوں سے کیا تھا اور اب ان کے پاس 40 اونٹ موجود ہیں۔ اگرچہ اس کام کے شروع کرنے میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا رہا۔ان کا کہنا ہے کہ یورپ میں اونٹوں کی فارمنگ شروع کرنا ایک مشکل کام تھا کیونکہ عرب ممالک کے برعکس یورپی یونین اونٹوں کو گائے، بکری وغیرہ کی طرح کا پیداواری جانور نہیں تسلیم کرتی۔ اس لیے انہیں حکومت سے خصوصی اجازت حاصل کرنی پڑی۔ یورپ میں اونٹوں کی درآمد بھی منع ہے۔ اور پھر اونٹوں کا دودھ دوہنے کا بھی مسئلہ تھا۔

فرینک سمتھس کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا دودھ نکالنے والی دنیا کی پہلی مشین ایجاد کی ہے۔

انہیں شروع میں اپنی مصنوعات کے خریدار ڈھونڈنے میں بھی مسائل درپیش تھے۔ ابتدا میں انہوں نے اپنی مصنوعات مساجد کے باہر تقسیم کرنا شروع کیں جہاں مراکشی اور صومالیائی مسلمان اپنے ممالک میں اس خوراک کے عادی تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی مصنوعات کی مانگ بڑھتی گئ-اونٹنی کا دودھ افریقی ملک کینیا کے مر کزی علاقوں میں ہمیشہ سے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی افادیت کی شہرت کینیا کے دارالحکومت نیروبی تک پہنچ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں فروخت ہونے والی اونٹ کے دودھ سے تیار کردہ اشیائے خورد و نوش کی تجارت سے سالانہ 10 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ کینیا سے تعلق رکھنے والی حلیمہ حسین کے بقول، ’اونٹ گائے سے کہیں بہتر ہے۔ یہ قحط سالی کے دور میں بھی بچ جاتا ہے جبکہ گائیں دم توڑ دیتی ہیں۔ اس طرح میں اونٹ سے ہمیشہ منافع کما سکتی ہوں۔ میں اپنی چند گائیوں کو فروخت کر دوں گی اور مزید اونٹ خرید لوں گی‘۔ حلیمہ کے خاندان کے پاس اس وقت 120 گائیں موجود ہیں۔

اونٹ کے دودھ کا پنیر نہایت مفید اور ذائقہ دار ہوتا ہے

شمال مشرقی افریقہ کے بہت سے علاقوں کی طرح کینیا کے مرکزی علاقے میں بھی گزشتہ برسوں کے دوران غیر متوقع قحط سالی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس قحط سالی کے نتیجے میں گائے کے دودھ میں کمی اور اونٹ کی قدر و قیمت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مشرقی کینیا کے صوبے ایسیولو میں حلیمہ حسین اور دیگر 63 خواتین نے مقامی سطح پر باہمی اشتراک سے اونٹ کے دودھ کا کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے حال ہی میں روزانہ تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار لٹر تک اونٹ کا دودھ نیروبی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کی مارکیٹوں کو فراہم کیا۔

دُبئی میں اونٹنی کے دودھ کی تشہیر-- اونٹنی کے دودھ کی حفاظت اور پیکنگ کے لیے دُبئی میں ایک ملک پلانٹ لگایا گیا ہے

دریں اثناء اونٹنی کے دودھ کی بڑھتی ہوئی مانگ کا اندازہ لگاتے ہوئے یورپی ملک ہالینڈ کی ایک تنظیم  نے، جو نیروبی میں خواتین کو اونٹنی کا دودھ فروخت کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، تجویز پیش کی ہے کہ ایسیولو میں ایک ایسی Milk Bar کھولی جائے، جہاں مہمانوں کو اونٹنی کے دودھ سے تیار کردہ اشیائے خورد و نوش سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔

ایک جرمن باشندے ہولگر مارباخ نے ’وائٹل کیمل مِلک‘ کے نام سے ایک فرم کھولی ہے، جو دہی، آئس کریم اور اونٹ کے دودھ سے بنی دیگر اشیاء تیار کرتی ہے۔ مارباخ کی کمپنی اس وقت کینیا کی سپر مارکیٹوں کے علاوہ لاطینی امریکہ، جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات کو اپنی مصنوعات فروخت کر رہی ہے۔ اس جرمن تاجر کے بقول، ’ترقی یافتہ معاشروں میں اونٹنی کے دودھ کی مانگ بہت زیادہ ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں سیاسی اور انتظامی مسائل کا سامنا نہ ہو تو یہ اونٹ کے دودھ سے تیار کردہ مصنوعات کو بہت بڑی بڑی منڈیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت FAO کے مطابق اونٹ کے دودھ میں وٹامن سی کی مقدار تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ فولاد، Unsaturated Fetty Acids اور وٹامن بی سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔   غذائی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اونٹنی کے دودھ کے غیر معمولی فوائد ہیں۔ بہت سے تاجروں کا ماننا ہے کہ اونٹنی کا دودھ سونے جیسی قدر و قیمت کا حامل ہے، جسے یورپی ممالک کو برآمد کرنے سے بے حساب منافع ہو سکتا ہے۔

اونٹنی کا دودھ کشتکیائی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد میں ہمیشہ سے مقبول تھا۔ یہ گروہ قدیم زمانے میں دریائے نیل کے نزدیک واقع مقام کش میں آباد تھا اور کشتکی زبان بولا کرتا تھا۔ ان افراد کا تعلق افریقی اور ایشیائی زبانیں بولنے والے عظیم خاندانوں سے تھا۔ یہ زبانیں خصوصاً ایتھوپیا اور صومالیہ میں بولی جاتی ہیں۔

میں نے اس مضمون کی تیّاری میں   اپنی معلومات  کے علاوہ  بی بی سی  سے اور مزید انٹر نیٹ سائٹس سے مدد لی ہے 

 کہتے ہیں اونٹ خواب میں دیکھو تو بڑا صدقہ دو

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر