بڑی مشہور کہاوت ہے
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی-لیکن یہی بے کل کا جانور ہمارے لئے کتنا فائدہ رساں ہے آئیے دیکھتے ہیں-سال 2014جون کے مہینے میں پاکستان کے سفر میں کراچی شہر میں ایک بلکل انوکھی بات دیکھنے میں جو ملی وہ یہ تھی کہ اونٹ جو پہلے ساحلِ سمندر پر ہی دیکھنے کو ملتے تھے وہ میں نے آئ آئ چندریگر روڈ پر نمائش چورنگی پر دیکھے جہاں اونٹنی کا تازہ دودھ لینے کے لئے خریداربرتن ہاتھوں میں لئے لائن لگائے ہوئے اپنی باری پر دودھ لے رہے تھے --اور لبِ سڑ ک بڑے بڑے بینر لکھے ہوئے لگے ہوئے تھے، یہاں اونٹی کا تازہ دودھ دستیاب ہے-شامیانے کے اندر کئ اونٹنیا ں موجود تھیں اور دودھ'' دوھ'' کر فراہم کیا جارہا تھا ،اس کے علاوہ شہر میں کچھ اور مقامات پر اونٹنی کے دودھ کے ترغیبی اشتہارات بھی دیکھے ،
درا صل ہم شہری لوگ شہر کی ہما ہمی میں اپنے اسلاف کی بہت سی باتوں کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں اس لئے نئ چیز کو قبول کرنے میں ہمارا زہن کچھ وقت لے لیتا ہے ،مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اب صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک کا ہے جہاں اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے-جہاں اونٹ صحرائ زندگی بسر کرنے والوں کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقّبہ ہے وہیں اونٹنی کا دودھ بھی نعمت ِ بیش بہا سے کم نہیں قیمتی فوائدکاحامل اونٹنی کا دود ھ جو بہترین غذا بھی ہے٬ دوا بھی ہے اورساتھ ہی شفا بھی ہے اور سب سے بڑھ کر سنّتِ نبئ کریم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ہے ،امام جعفرِ صادق علیہ السّلام نے طبِّ صا دق مین کئ جگہ شفاء کے لئے اونٹنی کا دودھ تجویز کیا ہے
اللہ کریم نے ہم انسانوں کی فلاح کے لئے کیا کچھ عطا کیا ہے ،زرا دکھئے بکری کے دودھ کی خاصیت الگ بھینس کے دودھ کی خاصیت الگ گائے کے دودھ کے لئے مولا علی علیہ السّلام فرماتے ہیں گائے کے گوشت میں بیماری ہے اور اس کے دودھ میں شفاء ہے اور خالقِ رحیم نے ننّھے مولودون کا رزق ماں کے سینے پر دودھ کا دستر خوان سجا کر دے دیا ،اگر کسی سبب سے بچّہ ماں کے دودھ سے محروم ہے تو اس کا نعم البدل بکری کا دودھ رکھّا ہے بکری کا دودھ نا ملنے کی صورت میں گائے کا دودھ استعمال کرنے کی تاکید ہے ،چھوٹے بچّوں کے لئے بھینس کے دودھ کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ دودھ بچّوں کے لئے بیماریوں کا سبب بنتا ہے-اس میں کوئی شک نہیں کہ طبی اعتبار سے اونٹنی کا دودھ بےشمار فوائد کا حامل ہے-قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے اونٹ کی ساخت پر غور کرنے کو اور اس سے نصیحت حاصل کرنے کی تاکید ہے ہمارے پیارے نبی حضورِ پاک حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بہت شوق سے اونٹنی کا دودھ استعمال کرتےتھے -اونٹ ایک ایسا جانور ہے جو کہ صحرا کے سخت ترین موسم میں بھی کئی دن بغیر کھائے پئے گزارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے کوہان جو ٹھوس چربی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اپنی اس چربی سے دودھ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھتے ہیں –ا
ور یہ حیرت انگیز بات ہے شدید خشک سالی کے دوران جب پانی
کی کمی واقع ہوجاتی ہے تب اس کے دودھ میں ایسی حیرت انگیز کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں
جو وہاں بسنے والے افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے کام آتی ہیں۔اونٹ صحرا
کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی
عمل تبخیر کے ذریعے کم سے کم اس کے جسم سے خارج ہوتا ہے جب اونٹ کو پانی کی کمی کا
سامنا ہو تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی خاصی مقدار خارج ہوتی ہے اس کے
ساتھ ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار دودھ میں 10 ملی ایکولنٹ
فی لیٹرسے بڑھ کر 23 ملی ایکولنٹ فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے ۔یاد رہے کہ یہ نمک
انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر صحرا جہاں پر گرمی کی وجہ
سے پسینے کا اخراج زیادہ ہو، پسینے کے ساتھ ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے
خارج ہوتا ہے نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم میں کئی بیماریوں کا موجب بن سکتی ہے تو اس
صورتحال میں اونٹنی کا دودھ استعمال کر کے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا
سکتا ہے ۔
اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی کی خاصی
مقدار پائی جاتی ہے جبکہ یہ وٹامن گرمی اور خشک سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں
اور زیادہ بڑھ جاتا ہے- وٹامن سی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں استعمال ہوتا ہے شدید
گرمی کے موسم میں وٹامن سی دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتا ہے۔ اونٹنی کے
دودھ میں وٹامن سی 23 ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے ۔اونٹنی کے دودھ میں وٹامن، نمکیات،
پروٹین اور چکنائی کی ایک خاصی مقدار موجود ہوتی ہے-عام طور پر چھوٹے بچوں میں
دودھ سے ایک خاص قسم کی الرجی اور اسہال کی سی شکایت پائی جاتی ہے- لیکن اونٹنی کے
دودھ کے استعمال سے یہ الرجی بچوں میں نا ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر
کے بچوں میں اونٹنی کے دودھ کا استعمال اس شکایت کے قابو پانے میں مفید ثابت ہوتا
ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اونٹنی
کا دودھ قدرت کی جانب سے عطا کردہ کسی انمول تحفے سے کم نہیں کیونکہ اس میں انسولین
کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے انسولین
ایک ہارمون ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون
دوائیوں کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔ ذیا بیطس کے ان مریضوں میں اونٹنی کے دودھ کا
استعمال ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے ۔
زمانہ قدیم سے ہندوستان میں وید ک طریقہ علاج کے
طور پر اونٹنی کا دودھ یرقان ، اطحالِ تلی ، ٹی بی، دمہ اور بواسیر کے امراض کے
علاج میں ادویاتی طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے
نیوٹرسیوٹیکل اجزاء میں سب سے اہم لیکٹو فیران ہیں جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی
حالت کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہے ۔یرقان اور جگر کے کینسر کی حالت میں جگر کی
فعالی حالت بہت کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشو ونما اور
اس کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اونٹنی کے دودھ میں کولیسٹرول
کی بھی ایک مناسب مقدار پائی جاتی ہے جو کہ دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے
غذائی متبادل ہے، اونٹنی کے دودھ میں ٹی بی کا جرثومہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ
گائے اور بھینس کے دودھ میں یہ پایا جاتا ہے اگر اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے
طور پر استعمال سے اس مہلک اور متعدی مرض س بچا جا سکتا ہے ۔
اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوائی کے طور
پر بھی استعمال بھی کیا جاتا ہے، اونٹنی کا دودھ اگر تازہ اور گرم حالت میں
استعمال کیا جائے تو یہ اسہال کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے۔اونٹنی کا دودھ انسانی جسم
میں موجود متعدد بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے اور انسان کو متعدی اور
مہلک امراض سے بچانے میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اونٹنی کا دودھ اگر ایک بیمار آدمی
کو پلایا جائے تو اس سے وہ نہ صرف شفا یاب ہو گا بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی
بڑھوتری میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ماہرین کے مطابق اونٹ کا مدافعتی نظام دوسرے
جانوروں کی نسبت زیادہ مضبوط واقع ہوا ہے اسی لیےاونٹنی کے دودھ کے استعمال سے
انسان کے مدافعتی نظام پر بھی نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس میں بیماری
کے مقابلے کی قوت آتی ہے۔ کینسر کے مریضوں کے لئے یہ قوت نہایت اہم کردار ادا کرتی
ہے اور علاج میں معاون بھی ثابت ہوتی ہے۔
ایڈز کے مریضوں کے لئے نعمت:
عالمی ادارے خوراک کی رپورٹ کے مطابق
روس، قزاقستان اور بھارت میں ڈاکٹرز اونٹنی کے دودھ کا استعمال بڑھانے پر زور دے
رہے ہیں، جبکہ افریقہ میں ایڈز کے مریضوں کے لئے اسے نعمت قرار دیا جا رہا ہے۔اونٹنی
کے دودھ سے تیار کی جانے والی مصنوعات:اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر
، قلفی، گلاب جامن اور دوسرے بہترین آئیٹم لذید ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی
بھرپور ہوتے ہیں۔ اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر خاصی لذید ہوتی ہے اور اس کی
مانگ مشرق وسطی اور یورپی ممالک میں کافی زیادہ ہے ہمارے ملک میں بھی بیکری سازی کی
صنعت میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعمل البدل قرار دیا جاتا
ہے-کراچی میں ان دنوں جس طرف بھی جائیے ایک نہ ایک دکان ایسی ضرور مل جائے گی جہاں
آپ کو بڑے بڑے حروف میں ’اونٹنی کا دودھ‘ لکھا مل جائے گا۔
فریسکو چوک برنس روڈ، گرومندر، تین ہٹی،
گلشن اقبال، لکی اسٹار صدر۔۔۔نمائش چورنگی غرض کہ شہر کے بیچ و بیچ آپ کو ایک نہیں
متعدد دکانوں پر اونٹنی کا دودھ بکتا مل جائے گا۔
اونٹنی کے دودھ کی ایسی ہی ایک دکان
کے مالک عمر فاروق کا کہنا ہے ’سال 2013ء سے اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ میں تیزی
آرہی ہے۔ پہلے شہر میں خال خال جگہوں پر ہی ایک یا دو دکانیں تھیں مگر اب شہر کے
تقریباً ہر حصے میں اونٹنی کا دودھ بک رہا ہے۔‘فریسکو چوک پر واقع ’مرحبا کیمل
ملک‘ شاپ پر ٹھنڈے دودھ کی بوتل کا مزہ لینے والے جبار نے وی او اے کو بتایا:
’اونٹنی کا دودھ ہیلتھ سپلیمنٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ کھانے میں موجود تمام
غذائیت ہے اس میں۔‘اسی دکان کے مالک نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا کہ ’اونٹنی کا دودھ
ماں کے دودھ کا اصل نعم البدل ہے۔‘انہوں نے پوچھنے پر بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔
لیکن انہوں نے اونٹنی کے دودھ سے دور ہونے والی جن بیماریوں کے نام لئے ان کی
فہرست بہت طویل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اونٹنی کا دودھ ’غذا ۔۔دوا ۔۔ اور شفاء ہے‘۔ان
کے بقول، یہ کینسر، ہیپا ٹائٹس، ڈائبٹیس، کولیسٹرول، پتھری، ٹی بی، لقوہ، فالج،
دمہ، ڈینگی، جلدی امراض، گردوں کا سکڑنا، دل کی شریانوں میں چکناہٹ اور ہڈیوں کا
بھربھرا پن سمیت تقریباً دو درجن بیماریوں کا قدرتی علاج ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں