اتوار، 25 اگست، 2024

دُمدار ستاروں کی دنیا

 ایک دن کا زکر ہے   مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام اپنے ہم نشینوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک سائل نے مولا علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ مولا فلاں اہرام کب بنا تھا مولا نے کہا اس اہرام کے ماتھے پر کس پرندے کی تصویر ہے۔ اس سائل نے پرندے کے بارے میں مولا کو بتایا کہ تو مولا نے کہا کہ اس اہرام کو 12000 سال پہلے بنایا گیا تھا کیونکہ اس پرندے کی شکل کا ستارہ بارہ ہزار سال کے دورانئے پر  آسمان  میں آشکار ہوتا ہے -اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سیارے   ہمارے کہکشانی نظام میں کروڑوں  کی تعداد میں موجود ہیں ان کے مسافتوں  کا کیا دورانیہ ہے سوائے اللہ رب کائنات کے کوئ نہیں جان سکتا -انسان کوشش کرتا ہے تب بہت قلیل علم تک رسائ حاصل کرتا ہے-یہ کروڑوں کے  حساب سے ستاروں  کی دنیا کے درمیان   کون سا سیارہ  کتنے ہزار میل پر گردش کر رہا ہے  کوئ نہیں جانتا میں نے گوگل سرچ کی مدد سے جوکچھ پڑھا ہے آپ کی خدمت میں پیش  ہے-  ایک  دمدار ستارہ  سورج   کے قریب سے گزرنے کے لئے   تقریباً 50 ہزار سال لیتا ہے خود دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق' وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک بار  آئے۔ دمدار ستارے کا اکثر حصہ برف پر مشتمل ہوتا ہے نیز خاک اور پتھر وغیرہ کا ملبہ بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ گیسیں مثلاً میتھین+امونیا+کاربن مونو آکسائیڈ+کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ بھی موجود ہوتی ہیں اور سورج سے یہ گیسیں جمی ہوئی حالت میں ہوتی ہیں۔کومٹ  لاطینی زبان کا لفظ ''کومیٹا'' سے ہے، جس کا مطلب ہے لمبے بالوں والی دم -دم دار ستارے میں خود روشنی نہیں ہوتی  یہ اپنی روشنی سورج سے منعکس کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ دم دار ستارہ 43 سال میں ایک بار سورج کے گرد چکر لگاتا ہے، یعنی اسے دیکھنے کے لیے صِدّیوں کا انتظار کرنا چاہیے


 نِشمورا سورج کے قریب سے 17 ستمبر کو گزرے گا اور اس وقت وہ۔ سورج سے 3 کروڑ کلو 30 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اسی طرح یہ دار ستارہ زمین سے 12 کروڑ کلومیٹر کے علاقے سے گزرنے کے لیے کوشاں ہے۔  ی  آسمان پر سبز رنگ کا دُمدار ستارہ  ۔ آخری بار یہ دُمداد ستارہ آج سے پچاس ہزار سال پہلے زمین سے دِکھا ئ دیا۔   ماہر ستارہ کہتے ہیں نشموراسیارہ زمین سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ کلومیٹر دور سے گزرچکا ہے ۔ دمدار ستارے دراصل ستارے نہیں ہوتے بلکہ نظامِ شمسی میں  سورج کے گرد گھومتے چھوٹے چھوٹے  جمی گیس ،برف، چٹانوں یا گرد کے بنے سیارچے ہوتے ہیں جو سورج کے گرد ایک طویل اور بیضوی مدار میں گھومتے ہیں۔ یہ چمکتے اس لیے ہیں کہ ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ جب یہ اپنے مدار میں سورج اور زمین کے بیچ آتے ہیں تو سورج  کے قریب آنے سے اُسکی روشنی اِنکو گرم کرتی ہے اور ان میں جمی گیسیں باہر کو نکلتی ہیں جو دُم کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی روشنی کو منعکس کرتی ہیں اور یوں ان اجسام کی دم سی نظر آتی ہے ویسے ہی جیسے ہوا میں اڑتے جہاز کا دھواں سورج کی روشنی میں نمایاں دکھتا ہے۔ان دمدار ستاروں کا  مدار سورج کے گرد کئی سو سال تک کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اکثر دمدار ستارے کئی صدیوں یا دہائیوں بعد نظر آتے ہیں۔


 ہمارے نظامِ شمسی میں اب تک ڈھونڈے گئے دُمدار ستاروں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے اوپر ہے۔ مگر انکی کل تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔  ان کی رفتار سورج کی فضا کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے جب یہ سورج کے بالکل قریب ہوتے ہیں تو ان کی رفتار تیز ہوتی ہے اور  سورج سے دور ان کی رفتار کم ہوتی ہے۔ قلب، دم دار سیارے کا مادہ اس کے جسم سے زیادہ ہی (بادل) لطیف ہوتا ہے اس کی وجہ سے دم دار سیارے میں تارے چمکتے نظر آتے ہیں ان کی بہت دیر ہوتی ہے۔ دمدار سیاروں کی  دُم ہزاروں میل لمبی ہوتی ہے۔(قلب کے درمیان روشن کچھ کہتے ہیں) دُمدار ستارے بہت بڑی تعداد میں نظام شمسی میں نشانی سورج کے گرد بیضوی مدار (بیضوی مدار) گھومتے ہیں۔ زیادہ وقت سورج سے دور ہیں اور نظر نہیں آتے۔ جب سورج کے تلاش کرتے ہیں تو دُمدار ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ اس طوفان کے ایک سرے پر یہ سورج پوری طرح سے گزرتے ہیں اور دوسری سورج سے بہت دور نکلتے ہیں کہ ان سے بعض سورج کے گرد موجود تمام سیاروں سے بھی دور نکل جاتے ہیں اور دوبارہ سورج کے  بالکل قریب سے گزرتے ہیں۔اور اس کے لیے دُمدار ستارے مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔


   دمدار ستارے کی  دُم دراصل  اس گیس سے ہی بنتی ہے جن گیسوں میں اس کو وجود لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بھی دوسرے جماداتی عناصر بھی شامل ہوتے جاتے ہیں  جیسے  برف کے گولے- مٹی اور پتھر کی بنی ہوئی بڑی گیندوں کی طرح ہیں  ۔ باہر موجود برفانی موا د سے ایک چھلّے سے آپ کو اورٹ کلڈ کہا جاتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان گیسوں اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جس کو ہم ستارے کی دم کہتے ہیں ۔نظامِ شمسی میں موجود کئی اجسام کی کششِ ثقل انھیں اوورٹ کلاؤڈ سے کھینچ کر یہاں لے آتی  ہے اور جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہےاور ہماری نگاہیں حیران ہوتی ہیں کہ ستارے  کی دم کتنی چمکدار ہےٓاوسط دمدار ستارے سے ایک ہزار گنا بڑا برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا اور اب سورج کی جانب رواں ہے۔کامٹ نیووائز جون 2020 میں زمین کے پاس سے گزرا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق برنارڈینیلی برنسٹائن کامٹ ایک اوسط کامٹ سے ہزار گنا بڑا ہے (اے ایف پی)نظام شمسی کے مضافات سے ایک بہت بڑا سیارچہ سورج کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ دمدار ستارہ جسے برنارڈینیلی برنسٹائن کا نام دیا گیا ہے ایک اوسط دمدار ستارہ سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ 2014 میں ہمارے نظام سمشی سے چار ارب کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھا گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ نیپچون کا ہے۔


 دمدار ستارے کو پہلی مرتبہ دیکھے جانے اور رواں ماہ کے دوران یہ ہماری جانب بڑھتے ہوئے مزید ایک ارب کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہے۔نظام شمسی کے میدان کے اعتبار سے دمدار ستارے کا مدار عمود میں ہے۔ وہ 2031 میں سورج کے قریب ترین مقام (جسے پیری ہلیئن) کہا جاتا ہے پر پہنچ جائے گا۔ لیکن اپنے حجم اور ہمارے نزدیک ترین ستارے سے قربت کے باوجود، شوقیہ ماہرین فلکیات اسے روشن ترین شکل میں بھی صرف بڑے دوربین کی مدد سے ہی دیکھ سکیں گے۔یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے گیری برنسٹائن جنہوں نے دمدار ستارے کو دریافت کیا اور اسے نام دیا، کہتے ہیں: ’ہمیں امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے دکھائی دینے والا شائد سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے۔ یا کم از کم یہ اس دمدار ستارے سے بڑا ہے جس پر اچھی طرح تحقیق ہو چکی ہے۔ یہ سیارہ کافی پہلے دریافت ہوا تھا  یہ ستارہ 30 لاکھ سال سے زیادہ عرصے میں نظام شمسی میں داخل نہیں ہوا۔

ہفتہ، 24 اگست، 2024

11 پولیس اہلکاروں کی شہادت


  کل ایک دل دہلا دینے والی خبر  انٹرنیٹ پر پڑھی -کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا پولیس کی گاڑیوں پر راکٹوں سے حملہ میں 11اہلکاروں کی شہادت  7 زخمی 4 لاپتہ  -زرا سوچئے راکٹ حملے میں شہید ہو جانے والے کسی ماں  کی آ نکھوں کا نور تھے ' ان کو اپنے بوڑھے باپ کے جنازے کو اپنا شانہ دینا تھا -وہ سہاگن کا سہاگ تھے اپنے بچوں  کے سر پر آسمان تھے جو اپنے ہی لہو کی چادر اوڑھ کر قبروں میں جا سوئے 'میرا  پہلے بھی ایک بلاگ اسی موضوع پر موجود ہے''میری دھرتی ماں کے ڈاکو بیٹے   ''پھر میرے وطن کے رکھوالے ایک بڑا المیے سے دو چار ہوئے ،ضروری ہے کہ ان ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنانے کے لئے پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے مشترکہ آپریشن شروع کریں 'رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں پولیس کی 2 گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے میں 11اہلکار شہید ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2گاڑیوں پر حملہ کیا۔دونوں پولیس موبائل بارش کے پانی میں پھنس گئی تھیں۔ ڈاکوؤں نے راکٹ لانچروں سے پولیس پر حملہ کردیا۔ 

حملے کے بعد رحیم یار خان پولیس نے بھاری نفری علاقے میں طلب کرلی ہے۔پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کی نقل و حرکت روکنے کیلیے ماچھکہ میں کیمپ قائم کیا ہوا تھا، جہاں پر 25 کے قریب مسلح ڈاکوؤں نے شدید حملہ کیا۔واقعے کے بعد ضلع بھر کی پولیس کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا ہے جبکہ نفری کی قیادت ضلعی پولیس آفیسر عمران کررہے ہیں۔صورت حال کے پیش نظر جائے وقوعہ پر ایمبولینسز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق دونوں پولیس موبائلوں میں 20 سے زائد اہلکار سوار تھے  ۔ڈاکوؤں نے گاڑیوں پر سوار پولیس اہلکاروں کو گھیرے میں لے لیا اور چاروں جانب سے فائرنگ بھی کی ۔پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس اہلکار ڈیوٹی ادا کرکے واپس آرہے تھے کہ 25 کے قریب مسلح ڈکیتوں نے شدید حملہ کیا۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے رحیم یار خان میں پولیس کی گاڑیوں پر ڈاکوؤں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے 11 پولیس اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔محسن نقوی نے شہید پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا اورزخمی پولیس اہلکاروں کیلئے جلد صحت یابی کی دعا کی۔ انہوں نے کہا کہ شہید پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں،

۔آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے رحیم یار خان حملے سے متعلق اطلاعات لی جا رہی ہیں،پولیس کی بھاری نفری علاقے میں پہنچ گئی ہے۔ ہماری رائے میں رحیم یار خان کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے حملہ میں 11پولیس اہل کاروں کی شہادت بلاشبہ ایک قومی المیہ ہے اور اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہےلیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا ہمارے ملک کے ڈاکو اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں کہ ایک خاص علاقے میں ان کا قلعہ قمع کرنا سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکل یا ناممکن ہوگیا ہے۔کچے کے ڈاکو بے شمار وارداتوں میں علاقے کے معصوم شہریوں کی جان، مال، املاک، مال مویشی اور نقدی لوٹنے کی کاروائیوں میں ملوث ہیں لیکن ان ڈاکوؤں کے خلاف کوئی سخت کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔بلاشبہ پولیس گاڑیوں پر ڈاکوؤں کا اچانک حملہ اتنے بڑے جانی نقصان کا باعث بنا۔ 11پولیس اہلکاوں کی شہادت، 7زخمی جبکہ 4پولیس اہلکاروں کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

ہماری دانست میں جس طرح ملک کے سیکورٹی ادارے اور پاک فوج دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں، کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی بھڑتی ہوئی کاروائیوں کے پیش نظرضروری ہوگیا ہے کہ اس پورے علاقے کو ڈاکوؤں سے پاک کرنے کے لئے پاک فوج،پنجاب پولیس، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ادارے ایک مشترکہ آپریشن شروع کریں تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔پاک فوج اگر خوفناک دہشت گردوں کو نشان عبرت بناسکتی ہے بلاشبہ دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے تلاش کرکے دہشتگردی کے عفریت کو کچلنے میں جس انداز سے پاک فوج نے مختلف آپریشنز کے زریعے بہتر ین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ ایسے میں ان دہشت گرد ڈاکوؤں کوبھی ان کی کمین گاہوں سے باہر نکالنا پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادورں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔

عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کیوں ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع نہیں کیا جارہا تاکہ ان کو عبرت کا نشان بنایاجاسکے۔ ان کے خلاف کاروائی میں تاخیر سے ان ڈاکوؤں کو علاقے میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ڈاکو بے شمار وسائل کے مالک ہیں اور ان کے پاس جدید اسلحہ اور بے پناہ مالی وسائل ہیں۔ لیکن یہ صورتحال کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ چند افراد حکومت اور ریاست کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کررہے ہیں۔جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا کر حکومتی اداروں، خاص طور پر سیکورٹی اداروں کی رٹ کو کھلا چیلنج کیا ہوا ہے اور اب پولیس اہل کاروں پر اتنا بڑا حملہ اس بات کا متقاضی ہے ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک بڑا اورمشترکہ آپریشن شروع کیا جائے تاکہ اس علاقے کے معصوم عوام کوان درندہ صفت ڈاکوؤں کے چنگل سے نجات دلائی جاسکے۔بلاشبہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس نوعیت کی لاقانویت کی اجازت نہیں دے سکتا،لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کو ختم کرکے ان ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بنایا جائے
جی ضرور بنائیے نشان عبرت !لیکن کچے کے علاقے کو جدید دنیا کی تمام سہولتیں بہم پہنچائیے تاکہ ان ڈاکوؤں کی اگلی نسل تعلیم یافتہ پاکستان کی نسل کہلائے 

جمعہ، 23 اگست، 2024

اب اغوا برائے تاوان کا نام "ہنی ٹریپ" ہے

 


دھوکہ دے کر کسی بھی شخص کو بلا کر اغوا برائے تاوان وصول کرنے  کے  نام کے لئے ہنی ٹریپ کی اصطلاح ایجاد کی گئ ہے-میں نے کئ برس پہلے بہت تفصیل سے ایک بلاگ لکھا تھا -اس بلاگ میں حیدری مارکیٹ کے ایک تاجر اور سادات کالونی ڈرگ روڈ کے ایک بنکار کے اغواپرتفصیل سے روشنی ڈالی تھی حیدری مارکیٹ کے تاجر سے  لفٹ مانگنے والی لڑکی نے اسے اغواکر کے گینگ کے سپرد کیا تشدد کیا گاڑی بھی چھینی اور گھر والوں سے تاوان بھی وصول کیا -اور پولیس جب گرفتار کرنے پہنچی تو کرائے کےگھر  سےگینگ فرار ہوچکا تھا-دوسری واردات میں جوان بنکار موت کے گھاٹ اتارا گیا لاش گاڑی میں موجود تھی اور اغوا کرنے والی لڑکیا ں دبئ میں اس کے کریڈٹ کارڈ سے لاکھوں کی خریداری کر رہی تھیں -پولیس کو ان کا کوئ سراغ نہیں ملا -اور اب ہمارے معروف خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ بھی یہی کچھ پیش آیا ہے'آگے بی بی سی کی ایک رپورٹ بھی پڑھئے ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجی اور  زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوا اور تاثر دیا گیا جیسے یہ رانگ نمبر ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگی۔

چندہ ماہ میں اس رومانوی کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب ساجد کو کزن کے ساتھ اغوا کر لیا گیا۔شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا رجحان عام ہو چکا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا، چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر اس نے کہا کہ ’ہم تو اب ایک کنبہ ہیں ہمیں اب ملاقات کرنی چاہیے، لہذا رانوتی ( کچے کا علاقہ) میں آ جاؤ۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اکیلے جانے کے بجائے اپنے کزن کو ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم متعلقہ جگہ پر پہنچے تو وہاں موٹر سائیکل پر سوار ایک بندہ آیا جس نے کہا کہ مجھے مومل نے بھیجا ہے، میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جب وہ پکے سے کچے کے حفاظتی بند پر پہنچے تو وہاں چار لوگ اور آگئے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔‘ساجد علی نے بتایا کہ ’اغوا کے دوران راستے میں پانی کا ایک تالاب آیا، اس کو عبور کروایا گیا اور ایک جگہ ہمیں بٹھا دیا گیا اور دھمکی دی کہ ایک کروڑ روپے تاوان لیں گے ورنہ گردن کاٹ کر پھینک دیں گے۔‘


وہ بتاتے ہیں کہ ’اسی دوران وہاں پولیس پہنچ گئی آدھا گھنٹہ مقابلہ جاری رہا ہے جس کے بعد ڈاکو لڑتے لڑتے وہاں سے فرار ہو گئے۔‘ہنی ٹریپ: خاتون کی آواز میں جھانسہ-ساجد علی -میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا اور چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہاٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ، جو شمالی سندھ میں بطور ایس ایس پی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سندھ میں گھوٹکی ضلع سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بعد میں شکارپور اور کشمور اضلاع تک پہنچ گیا۔بقول ان کے اس کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوؤں نے کی تھی جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے۔ایس ایچ او انسپکٹر عبدالشکور لاکھو کہتے ہیں کہ ’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکوؤں نے کچھ خواتین پنجاب سے منگوائی ہیں، کچھ انھوں نے اپنی عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔

 فرض کریں اگر کوئی سندھی بولنے والا رابطے میں آئے گا تو سندھی میں عورت بات کرے گی، کوئی اردو بولنے والا آ گیا تو اردو میں بات کرے گی، پشتو والا آگیا تو پشتو زبان والی عورت بات کرے گی۔‘پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد اپنی گاڑی، مسافر کوچ یا ہائی ایس میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔‘اس دوران کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا رشتہ دار، دوست ہے یا مغوی۔وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا۔

 محمد علی اب لنگڑا کر چلتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے ان کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں چھوڑ دیا تھا، وہ بھی ایک فون کال پر کزن میانداد کے ہمراہ ڈاکوؤں کے نرغے میں آگئے تھےکاروبار اور کام کاج کا جھانسہ  -،وہ بتاتے ہیں کہ وہ الیکٹریشن ہیں اور انھیں ڈاکوؤں نے کام کاج کا جھانسہ دے کر اپنے چنگل میں پھانسہ تھا۔ ’ڈاکؤوں نے فون کر کے کہا کہ چار کمروں کی الیکٹریکل وائرنگ کا کام ہے۔ آ کر دیکھ لو۔‘محمد علی کہتے ہیں کہ جب وہ نہیں گئے تو بار بار فون کالز آنے لگیں۔’ایک دن میرا کزن، جو موٹر سائیکلوں کا کام جانتا ہے، کو میں نے ساتھ لیا اور سعید پور اڈے پر پہنچ گئے جہاں موٹر سائیکل سوار لوگ آئے اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ انھیں سی پیک روڈ سے کچے میں لے آئے اور ایک جگہ پر انھوں نے محمد علی اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور انھیں درخت کے ساتھ باندھ دیا۔محمد علی اپنے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ڈاکوؤں  ہماری رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا، جب انھیں بتایا کہ ہم غریب لوگ ہیں تو انھوں نے ہماری ایک نہ مانی اور ایک روز ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں پھینک دیا اور فون پر گھر والوں سے کہا کہ ہمیں اٹھا کر لے جائیں۔‘اس واقعے کے بعد ان کے رشتے داروں نے پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کر کے کزن میانداد کو رہا کروایا۔محمد علی کا علاج رحیم یار خان سے کروایا گیا لیکن وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے اور عمر بھر کے لیے ایک ٹانگ سے معذور ہو گۓ

جمعرات، 22 اگست، 2024

آ م بادشاہ اور ساون کا موسم

 



 یہ ان دنوں کی بات ہے فیڈل بی ایریا نیا نیا آباد ہوا  تھا ہرے بھرے درختوں کی  بہتات  تھی اور  گھنیرے  کھیتوں  کی ہریالی سے تمام علاقہ سرسبز   تھا جبکہ ہر گھر کے آگے ایک درخت ضرور ہوتا تھا  اس دور میں جب آم کے پیڑوں پر بور لگتا تھا    اور  ہماری صبح ہونے والی ہوتی تھی  اس وقت آموں کے پیڑ پر کوئل کی سریلی کُوک دل کے اندر میٹھی میٹھی کیفیت طاری کر دیتی تھی تو دوسری جانب رہٹ چلنے کی آواز بتاتی تھی کہ سویرے کی پو پھٹنے کو ہے -آ م پہ بور میری معلوموت کے مطابق  فروری  میں آ چکا ہوتا ہے جو جون تک تیار آم دیتا ہے - تمام  دنیا  میں پھلوں کے بادشاہ آم کی1600 کے قریب اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں مگر صرف25سے 30 اقسام ایسی ہیں جنہیں تجارتی پیمانے پر اگایا جاتا ہے برطانیہ ، یورپ، مڈل ایسٹ، امریکہ، پاکستان سمیت افریقی ممالک میں بھی آم انتہائی مقبول اور پسندیدہ پھل کے طور پر شہرت رکھتا ہے آم انتہائی غذائیت اور ذائقے سے بھر پور پھل ہے پاکستانی آم دنیا کے زیادہ ممالک میں پسند کیا جاتا ہے اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربوہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین ہوتا ہے اور وٹامنز اے بی سی سے یہ بھر پور ہوتے ہیں دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں یہ دنیا کے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے برصغیر آم کا مسکن ہے جہاں یہ تقریبا 4ہزار سال سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یہ دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے پاکستان میں آم2ہزار سال سے زیادہ عرصے سے پیدا ہو رہے ہیں اور یہ ملک اب دنیا کا چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، آم کی 1595اقسام مشہور ہیں جن میں سے صرف 25 سے 30قسمیں تجارتی پیمانے پر اگائی جا رہی  ہیں  -یہ وہ دور تھا جب لوگوں کی زندگیوں میں فطرت پوری طرح دخیل تھی۔ ہم سب اپنے اپنے گھروں سے سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے کہ گھر کے رہنے والے خصوصاً اہل کراچی اونچی اونچی دیواروں اور لوہے کی جالی دار کھڑکیوں میں محبوس نہیں تھے۔ سمندر کو جانے والے راستے محفوظ تھے۔ بہار آتی تھی تو پورے ملک کے لوگ اس کا استقبال بھرپور طریقے سے کرتے تھے۔ کیونکہ یہ  پورے معاشرے کا کلچر تھا 


آم پاکستان کی دوسری بڑی پھلوں کی فصل ہے اس وقت یہ 1.8ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر اگایا جاتا ہے صرف صوبہ پنجاب میں تقریبا 3لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے پر آم کے باغات ہیں جو کل پیداوار کا 70فیصد آم پیدا کر رہے ہیں ،صوبہ سندھ تقریبا 24فیصد اور خیبر پختوانخواہ بھی معمولی کا حصہ ڈالتا ہے پاکستان کی فصل دنیا کے آم کا 8.5 فیصد پیدا کرتی ہے پنجاب سے پہلے کی آب و ہوا نے صوبے کو آم کی ابتدائی اقسام اگانے کا اعزاز بخشا ہے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ چند سال میں معیاری آم کی پیداوار میں کمی آرہی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہی ۔موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسم کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں آم کی فصل متاثر ہوتی ہے ماہرین کے مطابق آم کی فصل اگانے کیلئے پاکستان میں مٹی اور موسمی ماحول معیار کے لحاظ سے معاون ہے آم کی کم پیداوار میں متعدد عوامل کارفرما ہیں بیمار پودے بنانے والے غیر صحت بخش بیجوں کا غیر منظم استعمال، کیڑوں کا حملہ (آم کا میلی بگ، فروٹ فلائی، مینگو ویول، ترازو، مائٹس)، بڈنگ یا گرافٹنگ کے دوران انتظام کے غلط طریقے، آبپاشی کا وقت، کٹائی اور کھادوں کے استعمال کا وقت اس میں خاطر خواہ کردار ادا کر تے ہیں آم کی تشہیر اور  تا تعارف کے لیے محکمہ زراعت کی جانب سے رحیم یار خان میں تین روزہ سالانہ مینگو شو کا اہتمام کیا جاتا ہے


، پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کی جو اقسام پیدا ہو رہی ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، سنیرا اور دیسی شامل ہیں ۔پاکستان کا چونسہ آم دنیا کی بہترین دستیاب اقسام میں سے ایک ہے۔ چونسہ آم کی ایک قسم ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اگائی جاتی ہے لیکن اصل میں پنجاب کے رحیم یار خان اور ملتان سے ہے یہ ایک غیر معمولی طور پر میٹھا آم ہے جس میں شاندار خوشبو اور مزیدار نرم، رسیلا ہے جس میں صرف کم سے کم فائبر ہوتا ہے عام طور پر پیلا، میٹ پیلے رنگ کا ہونا لیکن پتلی چھلکے کے اندر یہ ایک لذت ہے چونسا آم کافی موٹا اور رسیلا ہوتا  اس کا تعلق رحیم یار خان اور ملتان پنجاب سے ہے، سندھڑی سندھ کی ایک معروف قسم ہے اس کی شکل بیضوی لمبا، سائز بڑا، جلد کا رنگ لیموں پکنے پر پیلا، گودا رنگ زرد کیڈیم، بناوٹ ٹھیک اور مضبوط ریشے کے بغیر،درمیانے سائز کا، ذائقہ خوشگوار خوشبودار اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اس کا تعلق میر پور خاص سے ہے، یہ پاکستان کا قومی پھل بھی ہے کیونکہ یہ ورائٹی پاکستان میں سرفہرست ہے، سندھڑی آم پاکستان کی بہت مشہور اور دنیا کے بہترین آموں میں سے ایک ہے


یہ ہندوستانی آم کی اقسام میں بھی بہت مشہور ہے اپنی مخصوص خوبصورت خوشبو کے ساتھ قابل دید، نیلم پورے موسم میں دستیاب ہے لیکن سب سے لذیذ خوشبو صرف مون سون کے ساتھ ہی جون تک آتی ہے وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی جلد پیلی نارنجی ہوتی ہے ‘الفانسویہ بہت پیارا اور دوسروں سے مختلف ہے اس قسم کے آم بیج سے نہیں اگتے یہ مصنوعی تبلیغ کے ذریعے لگایا جاتا ہے یہ وسط موسم کی قسم ہے اور اس کی کاشت جولائی میں ہوتی ہے ‘دیسی آم چونکہ دیسی آموں کی دیسی اقسام چونسہ اور دسہری جیسی تجارتی اقسام کی طرح مقبول نہیں ہیں، اس لیے کاشتکار معاشی طور پر منافع بخش اقسام کی طرف تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ پہلے سے ہی خطرے سے دوچاردیسی اقسام کے لیے اچھا نہیں ہے یہ سب سے سستا آم ہے اور مارکیٹ میں مشکل سے جانا جاتا ہے حالانکہ ان میں سے کچھ تجارتی اقسام کے مقابلے میں اگانا بہت آسان ہیں زیادہ تر اوقات وہ ضائع شدہ بیجوں سے اگتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر آم باغات تک ہی محدود رہتے ہیں کیونکہ وہ مقبول نہیں ہیںصوبہ پنجاب میں آم کی کاشت کرنے والے اہم اضلاع ملتان، بہاولپور، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان ہیں صوبہ سندھ میں یہ بنیادی طور پر میر پور خاص، حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں اگتی ہے اور صوبہ سرحد ڈی آئی خان میں پشاور اور مردان اس کے لیے مشہور ہیںآم پاکستان سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ، ایران، جرمنی، جاپان، چین اور ہانگ کانگ کو برآمد ہونے والا دوسرا سب سے بڑا پھل ہے جو ایک اہم غیر ملکی کرنسی کمانے والی پھل کی فصل کے طور پر اپنا گراں قدر حصہ ڈالتا ہے


، لنگڑا آم کا ریشہ سے کم زرد بھورا رنگ کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے، آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں، یہ قدرتی طور پر بہت میٹھا اور نرم ہوتا ہے، بیج کا سائز چھوٹا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے لنگڑا پکنے کے بعد اس کا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے، جب کہ دیگر آم پیلے سرخی مائل رنگ میں بدل جاتے ہیں،دسیری آم لمبا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے جس کی جلد ہلکی سبز یا پیلی سبز ہو جاتی ہے جب پختہ ہو جاتی ہے پکنے پر سنہری پیلی ہو جاتی ہے دسیری آم میں ریشے کے بغیر، آڑو کے رنگ کادرمیانے سائز میں زیادہ پایاجاتا ہے ذائقہ بہت میٹھا اور خوشبودار ہے دسیری آم میں وٹامن سی اور فائبر زیادہ ہوتا ہے قدرتی طور پر ہاضمے کے لیے فائدہ مند انزائمز کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر قیمتی وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں انور رتول جسے حرف عام میں انور راٹھور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انوار الحق نے بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رٹول کے علاقے میں ایک باغ میں کاشت کی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے انور رتول آم پوری دنیا میں اپنے بھرپور ذائقے کے لیے پہچانا جاتا ہے اپنے شاندار ذائقے کی وجہ سے اس نے حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اس کا ایک غیر معمولی میٹھا ذائقہ ہے
 
 آم کا چوٹی کا موسم جولائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اگست میں ختم ہوتا ہے یہ آم پوری طرح سے غذائیت سے بھرپور ہے جو کافی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اس کا چوٹی کا موسم وسط جولائی سے اگست تک ہوتا ہے سرولی، شمالی ہندوستان اور پاکستان میں ایک مقبول قسم یہ موسم کے دوران ظاہر ہونے والے پہلے آموں میں سے ایک ہے میٹھے سبز آم خوشبودار اور خوشبو سے بھرپور ہوتے ہیں یہ وٹامنز، پوٹاشیم، فینول اور آئرن کا بھرپور ذریعہ ہے اور یہ بہت پرکشش اور ذائقہ دار لگتا ہے ثمر بہشت مقامی انتخاب ہیں ۔توتاپوری آم ایک کھیتی ہے جو جنوبی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اور جزوی طور پر سری لنکا میں کاشت کی جاتی ہے بھارت میں آم کے گودے کے لیے ’الفونسو‘ اور ’کیسر‘ کے ساتھ اگائی جانے والی اہم کاشتوں میں سے ایک ہے درخت درمیانے سائز کا ہوتا ہے جس میں سبز پیلے پھل ہوتے ہیں فجر ی موسم بہار سے ماخوذ ہے اسے ایک عورت نے تخلیق کیا تھا جس کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے، جلد کا رنگ پیلا گودا ریشے دار کے بغیر میٹھے ذائقے اور غیر معمولی ساخت کے لیے بھی جانا جاتا ہے ‘نیلم آم پاکستان کے کئی علاقوں میں اگتا ہے زیادہ مشہور پاکستانی اقسام سندھ کے علاقے سے ہیں
میں نے یہ مضمون انٹر نیت کی مدد سے لکھا ہے
 

بدھ، 21 اگست، 2024

جکارتہ کب ڈوبے گا

 

انڈوچند برس پہلے کی     رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنہ 2050 تک انڈیا کے اہم شہر ممبئی اور کولکتہ موسمیاتی تبدیلی اور سمندر کی بڑھتی سطح کے باعث پانی میں ڈوب جائیں گے- جبکہ کراچی کے بارے میں بھی یہی پیشین گوئ کی جا چکی ہے - تو جناب شہروں کے سمندر برد ہونے کی کہانی بہت پرانی ہے دنیا کے کئ  وہ آباد شہر جو زندگی کی گہما گہمی سے معمور تھے پہلے بھی اپنی تمام رونقیں لے سمندر کے گھاٹ اتر گئے اور انسان ان کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکا 'کیونکہ  اللہ کی حکمتوں کے آ گے انسان خس و خاشاک ایک زرہ ہے  'اب دیکھ لیجئے انڈو نیشا کا موجودہ دارالحکومت جکارتہ سمندر کے کنارے آباد گنجان شہر ہے۔ ماہرین کے مطابق اس شہر کا ایک تہائی حصہ 2050 تک سمندر برد ہونے والا ہے۔ ملکی صدر جوکو ویدودو ایک نیا دارالحکومت تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے  انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ شہر آلودگی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ شہر زلزلوں کے خطروں کی زد میں ہے اور جکارتہ سمندر میں ڈوب رہا ہے۔ اب حکومت دارالحکومت کو بورنیو کے جزیرے پر منتقل کرنا چاہ رہی ہے۔ صدر جوکو ویدودو ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مسائل سے دوچار جکارتہ کی آبادی میں کمی واقع ہو سکے۔ حکومت ایک ایسا شہر قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی بہتر انتظام موجود ہو ، جہاں قدرتی ماحول بھی بہتر ہو اور قدرتی آفات کا خطرہ کم ہو-ملکی صدر نے پارلیمان کی جانب سے نئے دارالحکومت کے قیام کی منظوری سے قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا،''ہمارا مقصد ایک جدید اسمارٹ سٹی بنانا ہے جو عالمی سطح پر مسابقتی ہو اور عالمی تبدیلیوں کے لیے تیار ہو جہاں جدت اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر انڈونیشیا میں ایک ماحول دوست 'سبز‘ معیشت کو فروغ مل سکے۔‘‘

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ شہر آلودگی کا شکار ہو رہا ہے -تاہم ماحولیاتی ماہرین کو خدشہ ہے کہ ملک کے مشرقی صوبے کے اورینو جزیرے پر جو کہ اورنگوٹین چیتے اور دیگر جنگلی حیات ک مسکن ہے، 256000 ہیکٹر کا شہر بسانے سے ماحول پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔ نئے دارالحکومت کی تعمیر پر 34 بلین ڈالر تک کی لاگت آ سکتی ہے۔ ڈووی ساونگ جو کہ  ماحولیاتی گروپ کی رکن ہیں، کا کہنا ہے کہ نئے دارالحکومت کے اسٹریٹیجک ماحولیاتی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کم از کم تین بنیادی مسائل ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''ماحولیاتی تبدیلیاں، پانی کے نظام کو خطرہ، فلورا اور فنا اور   فضائی آلودگی اس پلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اہم مسائل ہیں۔‘‘انڈونیشیا کے دار الحکومت جکارتہ، ۔ یہ طاقتور سیاسی سلطنتوں ہندو بدھ کے مرکز، اسلامی، سلطنتیں اور نوآبادیاتی ڈچ ا۔ جاوا بھ1930s  جدوجہد کا مرکز تھا۔ہے جاوا انڈونیشیا سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی غلبہ  رہا ہے۔۔ آتش فشاں پہاڑوں کی ایک چین جزیرے مشرق اور مغرب کے ساتھ ایک ریڑھ کی ہڈی بنتا ہے۔ یہ تین اہم زبانوں ہے، اگرچہ جاوی غالب ہے اور یہ انڈونیشیا میں 60 ملین افراد، جن میں سے بیشتر جاوا پر رہتے ہیں مادری زبان ہے۔ اس کے باشندوں میں سے زیادہ تر دوئزبانی ہیں، ان کی پہلی یا دوسری زبانوں کے طور پر انڈونیشیا کے ساتھ ہیں۔ جبکہ جاوا کے عوام کی اکثریت مسلمان ہیں، جاوا مذہبی عقائد، نسلی گروہوں اور ثقافتوں کے ایک متنوع مرکب ہے۔

 میں -2019جوکو ویدودو کے منصوبے کے مطابق نوسانتارہ کے نام سے ایک نیا شہر آباد ہونا تھا۔ یہ ایک پرانی جاوانی اصطلاح ہے، جس کا معنی ہے 'جزیرہ نما‘۔ اس پلان کے مطابق سرکاری عمارتیں اور رہائش گاہیں نئے سرے سے تعمیر کی جائیں گی اسےبالکپاپن کی بندرگاہ کے قریب آباد کیا جائے گا اور  اس کی آبادی تقریباً 700,000 ہو گی۔ انڈونیشیا 17,000 سے زیادہ جزائر پر مشتمل ملک ہے، لیکن اس وقت ملک کی 270 ملین سے زیادہ آبادی میں سے 54% جاوا پر جو کہ ملک کا سب سے زیادہ گنجان آباد جزیرہ ہے، آباد ہیں۔ جکارتہ 10 ملین آبادی والا شہر ہے، جو کہ بڑے میٹروپولیٹن کی آبادی سے تین گنا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے تیزی سے ڈوبنے والا شہر قرار دیا گیا ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اس شہر کا ایک تہائی حصہ 2050 تک سمندر میں ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔ اس کی بنیادی زیر زمین پانی کو تیزی سے نکالنا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جاوا سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔ 

اس کے علاوہ اس شہر کے فضا اور پانی میں آلودگی بہت زیادہ ہے۔ یہاں ہر سال سیلاب آتا ہے اور شہر کی گلیوں میں مسلسل پانی کھڑا رہتا ہے، جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اندازاﹰ ہر سال 4.5 بلین کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک تعمیراتی دارالحکومت کے قیام کے لیے انڈونیشیا اب پاکستان، برازیل اور میانمار جیسے دوسرے ممالک کے نقشِ قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس شہر کی تعمیر کے ذمے داری ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان، سابقہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی سافٹ بینک کے بانی ماسایوشی کو دی گئی ہے۔ قومی فنڈز میں سے اس پراجیکٹ کا 19 فیصد ہی ادا کیا جائے گا اور باقی کے فنڈز حکومت اور ملکی کاروباری حلقوں کے تعاون، سرکاری اور نجی کمپنیوں سے اکھٹے کیے جائیں گے۔  تعمیرات عامہ اور ہاؤسنگ کے وزیر باسوکی ہادیملجونو نے ابتدائی طور پر کہا ہے کہ 56,180 ہیکٹر زمین کو صاف کرکے صدارتی محل، قومی پارلیمنٹ، سرکاری دفاتر بنائے جائیں گے اور دارالحکومت کے گرد سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا

منگل، 20 اگست، 2024

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ

 


 جناب محمد بن محمد بن نعمان المعروف   شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کا نام   ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں آپ ۱۱  ؍ذی القعدہ  ۳۳۸  ؁ھ کو بغداد کے قریب عکبری نامی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد معلم تھے اس لئے آپ کو ابن معلم بھی کہا جاتا ہے۔  آپ چوتھی اور پانچویں صدی کے شیعہ اثناعشری نامور فقہاء اور متکلمیں میں شمار ہوتے تھے، اور کئی علوم میں آپ نے قلم فرسائی کی۔ آپ کی کتابوں میں المقنعۃ علم فقہ میں، اوائل المقالات علم کلام میں جبکہ الارشاد تاریخ میں بہت زیادہ مشہور ہیں۔آثار شیخ مفید شیخ مفید کی کتابوں کا مجموعہ ہے اور احمد بن علی نجاشی کے بقول شیخ مفید کے مجموعی مکتوبات 175 کتابوں اور رسالوں پر مشتمل ہےابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد بغداد تشریف لے گئے جہاں مختلف شیعہ اور سنی علماء سے کسب فیض کیا اور بیس برس سے کم عمر میں درجہ اجتہاد و استنباط پر فائز ہوئے، آپ کے اساتذہ میں محدث عالی مقام جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتے، صدقہ دیتے اور مطالعہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے داماد اور جانشین جناب ابو یعلی جعفری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ راتوں میں کم سوتے تھے، نماز پڑھتے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مطالعہ کرتے یا تدریس کرتے تھے۔ 


جب قاضی عبد الجبار کوئی جواب نہ دے سکا تو پوچھا آپ کون ہیں تو جناب شیخ مفید نے فرمایا:  محمد بن محمد بن نعمان ہوں ۔ یہ سننا تھا کہ قاضی عبدالجبار اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا اور کہا ’’انت المفید حقا‘‘ (حقیقت میں آپ عالم اسلام کے لئے مفید ہیں) نشست میں موجود علماء کو بہت ناگوار گذرا تو قاضی نے ان سے کہا کہ میں تو ان کا جواب نہ دے سکا اگر آپ میں سے کوئی ان کا جواب دے سکے تو جواب دے لیکن کسی نے کلام کی جرات نہیں کی ۔اسی طرح ملتا ہے کہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شب خواب میں دیکھا آپ بغداد کی مسجد کرخ میں تشریف فرما ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تشریف لائیں اور آپ سے فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔)


  خواب سے بیدار ہوئے تو حیرت میں پڑ گئے کہ میں کون ہوتا ہوں دو معصوم اماموں کو تعلیم دوں ، دوسری جانب یہ بھی فکر لاحق ہوئی کہ معصوم کو خواب میں دیکھنا شیطانی خواب نہیں ہو سکتا ۔  صبح ہوئی تو شیخ نے جس مسجد کا خواب دیکھا اسی مسجد میں تشریف لے گئے ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک جلیل القدر سیدہ خاتون کنیزوں کے جھرمٹ میں اپنے دو بیٹوں کو لے کر آئیں اور فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔) آپ کو خواب کی تعبیر مل گئی اور وہ دو بیٹے کوئی اور نہ تھے ایک جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے جامع نہج البلاغہ جناب سید رضی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ 

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اس طرح تعلیم دی کہ آگے چل کر دونوں بھائی افق علم پرمہر و ماہ بن کر چمکے۔ کہ ایک مرتبہ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ اور جناب سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ میں کسی علمی نکتہ میں اختلاف ہوا تو دونوں نے طے کیا کہ اس کا فیصلہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے کرائیں گے۔ جب مسئلہ کو کاغذ پر لکھ کر مولا کی ضریح مطہر کے حوالے کیا تو ادھر سے جواب آیا : ’’انت شیخی و معتمدی والحق مع ولدی علم الہدیٰ‘‘  (ائے شیخ مفید! آپ میرے لئے قابل اعتماد ہیں لیکن حق میرے بیٹے علم الہدیٰ (سید مرتضیٰؒ) کے ساتھ ہے۔ )ج

ناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی درس میں جہاں شیعہ علماء و طلاب شرکت کرتے ہیں وہیں اہل سنت علماء کی بھی کثرت تھی۔ آپ  نے طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں اعتدال  کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر اس وقت  خلفاءکے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے


آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی اپنی مثال آپ تھی کہ اگر کوئی کتاب مذہب شیعہ کے خلاف لکھی جاتی تو آپ اس کا جواب ضرور لکھتے شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو مخالفین نے سکون کی سانس لی کہ ان کا جواب لکھنے والا گذر گیا۔ (مرات الجنان فی تاریخ مشاہیرالاعیان ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۹)افسوس ۳ ؍ رمضان المبارک   ۴۱۳   ؁ھ کو بغداد میں رحلت فرمائی، آپ کے شاگرد جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھی ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہو نے کی سعادت  حاصل  کی۔ 

پیر، 19 اگست، 2024

جھیل ڈل کی فلوٹنگ مارکیٹ

    انسان بھی  کیا  مخلوق ہے  - وہ جہاں بھی جاتا ہے اپنے جینے کا سامان وہیں فراہم کر لیتا ہے-جموں کشمیر میں   ڈل جھیل قدرت کا شاہکار تو ہے ہی تاہم اس کے ایک اور پہلو کا بہت کم لوگوں کو شاید علم ہے - جی ہاں! ڈل جھیل کی آغوش میں صبح سویرے ہر روز کشتیوں پر ایک سبزی بازار سجتا ہے جہاں ڈل جھیل میں باغیچوں اور پانی کے اوپر بنائے گئے گارڈنز میں تیار کی جانے والی سبزی فروخت کی جاتی ہے- ڈل جھیل کا یہ فلوٹنگ مارکیٹ یعنی تیرتا بازار کشمیر کے تہذیب و تمدن اور ثقافت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے - فلوٹنگ مارکیٹ ہر روز صبح سویرے روشنی کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی سجتا ہے اور اس کے دو یا ڈھائی گھنٹوں کے بعد یہاں موجود تمام سبزی فروشوں کی تازہ سبزیوں سے بھری کشتیاں خالی ہوجاتی ہیں- یہ ملک کا پہلا اور واحد فلوٹنگ مارکیٹ ہے جو کئ دہائیوں سے یہاں ڈل جھیل میں مسلسل لگتا ہے یہاں سبزیاں کاشت کرنے والے درجنوں سبزی فروش کشتیوں میں بھر کر مختلف سبزیاں لے کر آتے ہیں اور پھر فروخت کرتے ہیں - یہ تاریخی فلوٹنگ مارکیٹ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مارکیٹ ہے جو جھیل کے نیلے پانیوں میں مسلسل دہائیوں سے لگتا آیا ہے۔


فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ-کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک میں زیر تعلیم محمد عباس جس کے گھر والے بھی ڈل کے اندر سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ عرصے پر مہیت ہے - آواز دی وائس کے ساتھ ایک گفتگو میں انہوں نے بتایا " در اصل جب پرانے زمانے میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں ہوا کرتی تھی تو ہمارے آبا و اجداد جو سبزیاں کاشت کرتے تھے بعد میں وہ یہی سبزیاں کشتیوں کے ذریعے وہ ایک جگہ سپلائی کرتے تھے - اس کی تاریخ بہت پرانی ہیں اور بعد میں یہ دھیرے دھیرے ایک منڈی کی شکل اختیار کرگیا " ڈل کے آس پاس آباد کئ دیہات کا روزگار اسی پر منحصر ہے اور وہ دہائیوں سے ڈل میں سبزیاں کاشت کرکے کشتیوں میں لاد کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ سبزیاں سرینگر اور دیگر جگہوں کے لئے سپلائی کی جاتی ہیں- اسی تاریخ اور روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سینکڑوں سبزی کاشتکار ہر روز صبح یہاں اپنی اپنی کشتیوں میں بھر کر سبزیاں لاتے ہیں تاکہ وہ انہیں فروخت کرسکے-


فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت-ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کشتیوں میں مختلف اقسام کی اور تازہ سبزیاں بکتی ہیں جن میں ٹماٹر، بیگن، کدو ، ساگ، شملہ مرچ اور ندرو کے علاوہ دیگر اقسام کی سبزیاں وافر مقدار میں خرید و فروخت ہوتی ہیں - علی محمد نامی ایک سبزی فروش نے آواز دی وائس کو بتایا " فلوٹنگ مارکیٹ میں بکنے والی سبزیوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آرگینک طریقے پر اگائی جاتی ہیں اور اس میں کم سے کم کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے- اس کے علاوہ ہر دن نئی اور تازہ سبزیاں یہاں دستیاب رہتی ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی بہت زیادہ بکتی ہیں کہ ان کا ذائقہ دیگر منڈیوں سے بکنی والی سبزیوں کے مقابلے میں اچھا ہوتا ہے- " فلوٹنگ سبزی مارکیٹ کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں پر فروخت ہونے والا ندرو اور ساگ شہرِ سرینگر کے علاوہ دیگر جگہوں میں بھی لوگ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور اس کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے -

سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز-ڈھل جھیل کا یہ فلوٹنگ صبح کے اوقات میں لگتا ہے اور یہاں ایک سو سے زائد سبزیوں سے لدی کشتیوں کا بازار خوب سجتا ہے - سبزیوں کی خرید و فروخت کے علاوہ یہ مارکیٹ سیاحوں کے لئے بھی دلچسپی کا مرکز بنتا ہے - ڈل جھیل کے دلکش اور خوبصورت ہائوسبوٹس میں مقیم غیر مقامی و غیر ملکی سیاح اکثر اس فلوٹنگ مارکیٹ کا نظارہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور بوٹس میں یہاں کی چہل پہل اور رونق کا مشاہدہ کرکے واپس پلٹتے ہیں - ہرشل نامی بنگلور کے ایک سیاح نے آواز دی وائس کو بتایا کہ جب انہوں نے پانیوں میں اس طرح کا تیرتا مارکیٹ دیکھا تو یہ ان کے لئے کافی انوکھا نظارہ تھا کیونکہ انہوں نے اس طرح کا مارکیٹ پہلی دفعہ دیکھا ہے - ان کے مطابق یہ ڈل جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے - انہوں نے اس مارکیٹ کی تصاویر بطور یاداش اپنے ساتھ رکھی ہیں جسے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو واپسی ہر دکھائے ۔ سرینگر کے مضافات میں واقع کئ دیہات جو ڈل جھیل کے متصل آباد ہیں جن میں سعدہ کدل ،میر بحری، کانڈ محلہ، عشائی باغ وغیرہ شامل ہیں کی اکثر آبادی کا روزگار ڈل جھیل پر ہی منحصر ہے اور یہاں بیشتر لوگ سبزیاں کاشت کرکے بعد میں فلوٹنگ مارکیٹ میں سپلائی کرتے تھے لیکن کئ برس پہلے سرکار نے ڈل مکینوں کی بازآبادکاری کی پالیسی کے تحت انہیں یہاں سے منتقل کرکے شہر سے باہر بسانا شروع کیا جس کی وجہ سے اس مارکیٹ میں قریباً 40 فی صد کمی واقع ہوگئی - جھیل  ڈل کے رہنے والے ایک ماحولیاتی کارکن بتایا کہ کئ برس قبل فلوٹنگ مارکیٹ میں دو سو سے لیکر تین سو افراد جو سبزیوں کی کاشت کرتے تھے اپنی کشتیوں میں یہاں سبزیاں لاتے تھے لیکن اب اس  تعداد میں کافی کمی واقع ہورہی ہے - انہوں نے بتایا ایک تو بیشتر آبادی کو یہاں سے منتقل کیا گیا ہے دوسرا نئ پود اس کام میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے


 جموں و کشمیر کے سرینگر میں واقع جھیلِ ڈل دنیا کے شہرہ آفاق سیاحتی مقامات میں ایک ہے اور یہ اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہیں - ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سیاح یہاں کا نظارہ کرنے کے لئے ضرور  آتے ہیں - ڈل کے - ڈل جھیل کا انتہائی خوبصورت نظارہ یہاں سے گزرنے والے ہر فرد  کو اپنی جانب اس طرح مائل کرتا ہے کہ انسان ڈل جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی اور دل کو چھو لینے والی ہواؤں کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہاں اپنی زندگی کے کچھ پل ضرور گزارتا ہے - مقامی و غیر مقامی سیاحوں کے لئے ڈل جھیل ہمیشہ کشمیر میں توجہ کا مرکز ہوتا ہے -ڈل جھیل کا دوسرا پہلو-کناروں پہ آباد مُغل باغات جن میں شالیمار باغ اور نشاط باغ قابل ذکر ہے ڈل کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں کشمیر میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیے گئے باغات موجود ہیں تاہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع نشاط اور شالیمار باغ اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کے اعتبار سے سب سے جداگانہ ہیں ۔نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔خواں کو ملکی ہو یا غیر ملکی سیاح۔موسم بہار ہو یا یہ خزاں۔ ہر موسم میں آنے والے سیاح باغ کے اندر رنگ برنگے پھولوں، بہتے پانے کے جھرنے اور فواروں کا مزا لینے کے لئےآتے ہیں 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر