پیر، 19 اگست، 2024

جھیل ڈل کی فلوٹنگ مارکیٹ

    انسان بھی  کیا  مخلوق ہے  - وہ جہاں بھی جاتا ہے اپنے جینے کا سامان وہیں فراہم کر لیتا ہے-جموں کشمیر میں   ڈل جھیل قدرت کا شاہکار تو ہے ہی تاہم اس کے ایک اور پہلو کا بہت کم لوگوں کو شاید علم ہے - جی ہاں! ڈل جھیل کی آغوش میں صبح سویرے ہر روز کشتیوں پر ایک سبزی بازار سجتا ہے جہاں ڈل جھیل میں باغیچوں اور پانی کے اوپر بنائے گئے گارڈنز میں تیار کی جانے والی سبزی فروخت کی جاتی ہے- ڈل جھیل کا یہ فلوٹنگ مارکیٹ یعنی تیرتا بازار کشمیر کے تہذیب و تمدن اور ثقافت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے - فلوٹنگ مارکیٹ ہر روز صبح سویرے روشنی کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی سجتا ہے اور اس کے دو یا ڈھائی گھنٹوں کے بعد یہاں موجود تمام سبزی فروشوں کی تازہ سبزیوں سے بھری کشتیاں خالی ہوجاتی ہیں- یہ ملک کا پہلا اور واحد فلوٹنگ مارکیٹ ہے جو کئ دہائیوں سے یہاں ڈل جھیل میں مسلسل لگتا ہے یہاں سبزیاں کاشت کرنے والے درجنوں سبزی فروش کشتیوں میں بھر کر مختلف سبزیاں لے کر آتے ہیں اور پھر فروخت کرتے ہیں - یہ تاریخی فلوٹنگ مارکیٹ اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مارکیٹ ہے جو جھیل کے نیلے پانیوں میں مسلسل دہائیوں سے لگتا آیا ہے۔


فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ-کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک میں زیر تعلیم محمد عباس جس کے گھر والے بھی ڈل کے اندر سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ فلوٹنگ مارکیٹ کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ عرصے پر مہیت ہے - آواز دی وائس کے ساتھ ایک گفتگو میں انہوں نے بتایا " در اصل جب پرانے زمانے میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہیں ہوا کرتی تھی تو ہمارے آبا و اجداد جو سبزیاں کاشت کرتے تھے بعد میں وہ یہی سبزیاں کشتیوں کے ذریعے وہ ایک جگہ سپلائی کرتے تھے - اس کی تاریخ بہت پرانی ہیں اور بعد میں یہ دھیرے دھیرے ایک منڈی کی شکل اختیار کرگیا " ڈل کے آس پاس آباد کئ دیہات کا روزگار اسی پر منحصر ہے اور وہ دہائیوں سے ڈل میں سبزیاں کاشت کرکے کشتیوں میں لاد کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ سبزیاں سرینگر اور دیگر جگہوں کے لئے سپلائی کی جاتی ہیں- اسی تاریخ اور روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سینکڑوں سبزی کاشتکار ہر روز صبح یہاں اپنی اپنی کشتیوں میں بھر کر سبزیاں لاتے ہیں تاکہ وہ انہیں فروخت کرسکے-


فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت-ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کشتیوں میں مختلف اقسام کی اور تازہ سبزیاں بکتی ہیں جن میں ٹماٹر، بیگن، کدو ، ساگ، شملہ مرچ اور ندرو کے علاوہ دیگر اقسام کی سبزیاں وافر مقدار میں خرید و فروخت ہوتی ہیں - علی محمد نامی ایک سبزی فروش نے آواز دی وائس کو بتایا " فلوٹنگ مارکیٹ میں بکنے والی سبزیوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آرگینک طریقے پر اگائی جاتی ہیں اور اس میں کم سے کم کھادوں کا استعمال کیا جاتا ہے- اس کے علاوہ ہر دن نئی اور تازہ سبزیاں یہاں دستیاب رہتی ہیں اور یہ اس وجہ سے بھی بہت زیادہ بکتی ہیں کہ ان کا ذائقہ دیگر منڈیوں سے بکنی والی سبزیوں کے مقابلے میں اچھا ہوتا ہے- " فلوٹنگ سبزی مارکیٹ کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں پر فروخت ہونے والا ندرو اور ساگ شہرِ سرینگر کے علاوہ دیگر جگہوں میں بھی لوگ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور اس کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے -

سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز-ڈھل جھیل کا یہ فلوٹنگ صبح کے اوقات میں لگتا ہے اور یہاں ایک سو سے زائد سبزیوں سے لدی کشتیوں کا بازار خوب سجتا ہے - سبزیوں کی خرید و فروخت کے علاوہ یہ مارکیٹ سیاحوں کے لئے بھی دلچسپی کا مرکز بنتا ہے - ڈل جھیل کے دلکش اور خوبصورت ہائوسبوٹس میں مقیم غیر مقامی و غیر ملکی سیاح اکثر اس فلوٹنگ مارکیٹ کا نظارہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور بوٹس میں یہاں کی چہل پہل اور رونق کا مشاہدہ کرکے واپس پلٹتے ہیں - ہرشل نامی بنگلور کے ایک سیاح نے آواز دی وائس کو بتایا کہ جب انہوں نے پانیوں میں اس طرح کا تیرتا مارکیٹ دیکھا تو یہ ان کے لئے کافی انوکھا نظارہ تھا کیونکہ انہوں نے اس طرح کا مارکیٹ پہلی دفعہ دیکھا ہے - ان کے مطابق یہ ڈل جھیل کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے - انہوں نے اس مارکیٹ کی تصاویر بطور یاداش اپنے ساتھ رکھی ہیں جسے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو واپسی ہر دکھائے ۔ سرینگر کے مضافات میں واقع کئ دیہات جو ڈل جھیل کے متصل آباد ہیں جن میں سعدہ کدل ،میر بحری، کانڈ محلہ، عشائی باغ وغیرہ شامل ہیں کی اکثر آبادی کا روزگار ڈل جھیل پر ہی منحصر ہے اور یہاں بیشتر لوگ سبزیاں کاشت کرکے بعد میں فلوٹنگ مارکیٹ میں سپلائی کرتے تھے لیکن کئ برس پہلے سرکار نے ڈل مکینوں کی بازآبادکاری کی پالیسی کے تحت انہیں یہاں سے منتقل کرکے شہر سے باہر بسانا شروع کیا جس کی وجہ سے اس مارکیٹ میں قریباً 40 فی صد کمی واقع ہوگئی - جھیل  ڈل کے رہنے والے ایک ماحولیاتی کارکن بتایا کہ کئ برس قبل فلوٹنگ مارکیٹ میں دو سو سے لیکر تین سو افراد جو سبزیوں کی کاشت کرتے تھے اپنی کشتیوں میں یہاں سبزیاں لاتے تھے لیکن اب اس  تعداد میں کافی کمی واقع ہورہی ہے - انہوں نے بتایا ایک تو بیشتر آبادی کو یہاں سے منتقل کیا گیا ہے دوسرا نئ پود اس کام میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی ہیں جس کی وجہ سے بھی ڈل جھیل میں لگنے والے فلوٹنگ مارکیٹ میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے


 جموں و کشمیر کے سرینگر میں واقع جھیلِ ڈل دنیا کے شہرہ آفاق سیاحتی مقامات میں ایک ہے اور یہ اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے دنیا بھر میں معروف ہیں - ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سیاح یہاں کا نظارہ کرنے کے لئے ضرور  آتے ہیں - ڈل کے - ڈل جھیل کا انتہائی خوبصورت نظارہ یہاں سے گزرنے والے ہر فرد  کو اپنی جانب اس طرح مائل کرتا ہے کہ انسان ڈل جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس کی ٹھنڈی اور دل کو چھو لینے والی ہواؤں کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہاں اپنی زندگی کے کچھ پل ضرور گزارتا ہے - مقامی و غیر مقامی سیاحوں کے لئے ڈل جھیل ہمیشہ کشمیر میں توجہ کا مرکز ہوتا ہے -ڈل جھیل کا دوسرا پہلو-کناروں پہ آباد مُغل باغات جن میں شالیمار باغ اور نشاط باغ قابل ذکر ہے ڈل کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں کشمیر میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیے گئے باغات موجود ہیں تاہم جھیل ڈل کے کنارے پر واقع نشاط اور شالیمار باغ اپنی خوبصورتی اور طرز تعمیر کے اعتبار سے سب سے جداگانہ ہیں ۔نشاط باغ جھیل ڈل کے مشرق میں زبرون پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ یہ باغ چنار اور صنوبر کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس باغ کی خوبصورتی اور قدیم طرز تعمیر کے لحاظ سے مغل باغات میں سے نشاط سیاحوں کی پہلی پسند رہتا ہے ۔خواں کو ملکی ہو یا غیر ملکی سیاح۔موسم بہار ہو یا یہ خزاں۔ ہر موسم میں آنے والے سیاح باغ کے اندر رنگ برنگے پھولوں، بہتے پانے کے جھرنے اور فواروں کا مزا لینے کے لئےآتے ہیں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر