منگل، 20 اگست، 2024

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ

 


 جناب محمد بن محمد بن نعمان المعروف   شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کا نام   ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں آپ ۱۱  ؍ذی القعدہ  ۳۳۸  ؁ھ کو بغداد کے قریب عکبری نامی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد معلم تھے اس لئے آپ کو ابن معلم بھی کہا جاتا ہے۔  آپ چوتھی اور پانچویں صدی کے شیعہ اثناعشری نامور فقہاء اور متکلمیں میں شمار ہوتے تھے، اور کئی علوم میں آپ نے قلم فرسائی کی۔ آپ کی کتابوں میں المقنعۃ علم فقہ میں، اوائل المقالات علم کلام میں جبکہ الارشاد تاریخ میں بہت زیادہ مشہور ہیں۔آثار شیخ مفید شیخ مفید کی کتابوں کا مجموعہ ہے اور احمد بن علی نجاشی کے بقول شیخ مفید کے مجموعی مکتوبات 175 کتابوں اور رسالوں پر مشتمل ہےابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد بغداد تشریف لے گئے جہاں مختلف شیعہ اور سنی علماء سے کسب فیض کیا اور بیس برس سے کم عمر میں درجہ اجتہاد و استنباط پر فائز ہوئے، آپ کے اساتذہ میں محدث عالی مقام جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتے، صدقہ دیتے اور مطالعہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے داماد اور جانشین جناب ابو یعلی جعفری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ راتوں میں کم سوتے تھے، نماز پڑھتے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مطالعہ کرتے یا تدریس کرتے تھے۔ 


جب قاضی عبد الجبار کوئی جواب نہ دے سکا تو پوچھا آپ کون ہیں تو جناب شیخ مفید نے فرمایا:  محمد بن محمد بن نعمان ہوں ۔ یہ سننا تھا کہ قاضی عبدالجبار اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا اور کہا ’’انت المفید حقا‘‘ (حقیقت میں آپ عالم اسلام کے لئے مفید ہیں) نشست میں موجود علماء کو بہت ناگوار گذرا تو قاضی نے ان سے کہا کہ میں تو ان کا جواب نہ دے سکا اگر آپ میں سے کوئی ان کا جواب دے سکے تو جواب دے لیکن کسی نے کلام کی جرات نہیں کی ۔اسی طرح ملتا ہے کہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شب خواب میں دیکھا آپ بغداد کی مسجد کرخ میں تشریف فرما ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تشریف لائیں اور آپ سے فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔)


  خواب سے بیدار ہوئے تو حیرت میں پڑ گئے کہ میں کون ہوتا ہوں دو معصوم اماموں کو تعلیم دوں ، دوسری جانب یہ بھی فکر لاحق ہوئی کہ معصوم کو خواب میں دیکھنا شیطانی خواب نہیں ہو سکتا ۔  صبح ہوئی تو شیخ نے جس مسجد کا خواب دیکھا اسی مسجد میں تشریف لے گئے ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک جلیل القدر سیدہ خاتون کنیزوں کے جھرمٹ میں اپنے دو بیٹوں کو لے کر آئیں اور فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔) آپ کو خواب کی تعبیر مل گئی اور وہ دو بیٹے کوئی اور نہ تھے ایک جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے جامع نہج البلاغہ جناب سید رضی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ 

شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اس طرح تعلیم دی کہ آگے چل کر دونوں بھائی افق علم پرمہر و ماہ بن کر چمکے۔ کہ ایک مرتبہ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ اور جناب سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ میں کسی علمی نکتہ میں اختلاف ہوا تو دونوں نے طے کیا کہ اس کا فیصلہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے کرائیں گے۔ جب مسئلہ کو کاغذ پر لکھ کر مولا کی ضریح مطہر کے حوالے کیا تو ادھر سے جواب آیا : ’’انت شیخی و معتمدی والحق مع ولدی علم الہدیٰ‘‘  (ائے شیخ مفید! آپ میرے لئے قابل اعتماد ہیں لیکن حق میرے بیٹے علم الہدیٰ (سید مرتضیٰؒ) کے ساتھ ہے۔ )ج

ناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی درس میں جہاں شیعہ علماء و طلاب شرکت کرتے ہیں وہیں اہل سنت علماء کی بھی کثرت تھی۔ آپ  نے طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں اعتدال  کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر اس وقت  خلفاءکے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے


آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی اپنی مثال آپ تھی کہ اگر کوئی کتاب مذہب شیعہ کے خلاف لکھی جاتی تو آپ اس کا جواب ضرور لکھتے شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو مخالفین نے سکون کی سانس لی کہ ان کا جواب لکھنے والا گذر گیا۔ (مرات الجنان فی تاریخ مشاہیرالاعیان ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۹)افسوس ۳ ؍ رمضان المبارک   ۴۱۳   ؁ھ کو بغداد میں رحلت فرمائی، آپ کے شاگرد جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھی ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہو نے کی سعادت  حاصل  کی۔ 

1 تبصرہ:

  1. آپ رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ قابل رشک جنازہ تھا جس میں ہر فقہ کے ہزاروں لوگ شامل تھے















    شیخ مفید کے فکری نظام میں مسئلہ امامت کے نمایاں نقطہ ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جو ایک مستشرق نے سمجھا ہے اور امامت کو اس نے شیخ مفید کے نظام فکری کے محور کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔




    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر