برّصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی بے شمار اولیائے کرام کے قدموں نے اس خطّہءزمین کو اپنے مبارک قدموں سے فیضیاب کیا -ان اولیائے دین میں ایک بڑا نام حضرت بری امام سرکار کا بھی ہے-بری امام رحمۃ اللہ علیہ(عیسوی اور (1026) ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں ایک معزز سادات کاظمیہ کے خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی ۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی ۔ سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے-حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام ؒ سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلی اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جد و جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے ۔ سید عبدالطیف بری امام کاظمی تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی ۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف ٗ کربلا ٗ سامرہ ٗ مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا ۔جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری دیتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ ٗ و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔
کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی ۔ بری امام کاظمی ؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے- شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ آپ کا عرس ہر سال مئی کے مہینے میں منایا جاتاہے-بر صغیر میں اسلام کی تبلیغ اور پھیلانے میں اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے ہندوستان کے اونچ نیچ اور چھوت چھات کے معاشرے میں ان صوفیاء نے ہر مذہب ٗ ملت اور قوم کے افراد کو نہ صرف اپنے قریب کیا بلکہ انسانیت کا درس دے کر ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ کیا یہی وجہ تھی کہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے ان ہی بزرگان پاک طینت نے مخلوط معاشرے اور کثیر المذاہب خطے میں امن ٗ بھائی چارے اور رواداری قائم کی ٗ آج ہم ان بزرگوں کے سبق اور درس سے دور ہو چکے ہیں اسی لیے مذہبی ٗ قومی اور نسلی تعصب نے معاشرے کو بے سکون اور بے امان کر دیاہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان میں سینکڑوں صوفیائے عظام اور بزرگان دین کی خانقاہیںموجود ہیں جہاں دلوں کو گداز اور محبت سے لبریز کیا جاتا ہے ۔
یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ عبادت الہی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ کے والد بزرگوار سید محمود شاہ ؒ کے پاس آیا ۔ آپ کے والد زمیندار کے ہمراہ آپ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپ خاموش رہے ۔ آپ کے والد نے انہیں مزید ڈانٹا جب آپ کے والد نے اچھی طرح سرزنش کرنے کے بعد خاموشی اختیارکی تو آپ نے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ٗ جونہی آپ کے والد محترم نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شادات کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپ کے قدموں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا ۔شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔
حضرت بری امام سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار ہے ۔ حضرت بری امام سرکار کو قطب الاقطاب اور ولی اللہ کا مقام حاصل ہوا ۔ یہ مقام تصوف میں بڑی کاوشوں ٗ محنتوں ٗ جانشفانیوں ٗ محبت ٗ لگن اور عشق حقیقی سے حاصل ہوتا ہے ۔ آپ ؒ نے فقہ اور حدیث کی تعلیم نجف اشرف سے حاصل کی اور اس کے بعد آپ مقدس مقامات کی زیارت کیلئے مکہ معظمہ ٗ مدینہ منورہ ٗ کربلائے معلی اوردوسرے اسلامی ممالک میں تشریف لے گئے اور وہاں موجود جید علماء اور اولیائے سے مزید دینی علوم اور روحانی فیوض حاصل کئے ۔ بری امام یہ سفر بارہ سال پر محیط ہے ۔ آپ مستقلاً وہاں ولی کامل حضرت حیات المیر ؒ سے بیعت تھے ۔ انہیں بری امام کا لقب ان کے مرشد حضرت حیات المیر ؒ ہی نے عطاء کیا تھا -
اسلام آباد ٗ نام ہی ایسا ہے کہ کسی اللہ والے کی منظوری کی دلالت کرتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد جیسے پاکستان کے خوبصورت ترین اور دنیا کے بے مثال دارالخلافوں میں شامل شہر کی بنیاد گیارہویں صدی عیسوی میں حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار نے رکھی تھی ٗ آج بھی مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آپ کا دربار مرجع خلائق ہے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ پیٹ کی بھوک اور روح کی پیاس بجھاتے ہیں ٗ بری امام سرکار نے اس جگہ اس وقت ڈیر جمایا جب پنجاب سے کشمیر جانے والی سڑک کے نزدیک اس جنگل میں چور اور لٹیرے رہا کرتے تھے جو کشمیر جانے والے قافلوں کو لوٹ کر یہاں چھپ جاتے مگر مارگلہ کی پہاڑی کے اور ایک غار ( لوہی دندی ) میں آپ نے چلہ مکمل کیا اور تصوف و سلوک کے رمز آشنا ہوئے تو مرشد کے حکم سے اس جگہ قیام کرنے کا فیصلہ کیا جب یہ جگہ "چور پور "کہلاتی تھی مگر شاہ عبدالطیف بری امام سرکار کی نظر فیض بار نے نہ صرف چوروں کو سیدھا راستہ دکھایا بلکہ آپ کے فیض و برکات کا نور پھیلنے لگا تو یہ علاقہ "نور پور "بن گیا ۔ اور یہ بھی حضرت بری سرکار کی زندہ کرامت ہے کہ نور پور پھیل کر "اسلام آباد "بن گیا ٗ