نیوکلئیر پلانٹ مقام پر پہنچنے والی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔تالاب کے جس حصے پر ہم کھڑے ہیں اس سے ایک کلومیٹر سے بھی کم دوری پر واقع کو میں گیناڈی کے عقب میں دیکھ سکتی ہوں۔یونٹ نمبر چار کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک بڑے حفاظتی سٹیل ’نیو سیف کنفائنمٹ‘ کا ڈھانچہ سورج کی روشنی سے دمک رہا ہے۔سنہ 2016 میں اس کو سانحے کے مرکز پر نصب کیا گیا تھا۔ اس نے نیچے روبوٹ کرینز 33 سال پرانے تابکاری کے ملبہ کو گرا رہی ہیں۔انخلا کے وقت لوگ جو کھیت اور باغ چھوڑ گئے تھے وہ زمین جنگلی حیات کے لیے حیران کُن طور پر زرخیز آماجگاہ بن گئی ہے۔ لمبے عرصے تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق متروکہ دیہات میں جنگلی حیات کی تعداد اس زون کے باقی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھورے ریچھ، جنگلی سور اور سیاہ گوش یہاں گھومتے دیکھائی دیتے ہیں۔تحقیق کے مطابق تابکاری سے شدید متاثرہ علاقوں میں پائے جانے والے پرندوں کے ڈی این اے میں نقصان کے شواہد ملے ہیں۔
یوکرین میں یہ وہ مقام ہے جہاں سنہ 1986 میں جوہری تباہی آئی تھی۔اس واقعے کے بعد پلانٹ کے ارد گرد ایک ہزار مربع میل پر پھیلے وسیع علاقے کو الگ تھلگ کر دیا گیا تھا اور اب یہ ایک ممنوعہ علاقہ ہے جہاں کوئی نہیں رہتا -یوکرین کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس متروک علاقے میں موجود جوہری تابکاری کی وجہ سے لوگ آئندہ 24 ہزار سال تک اس علاقے میں آباد نہیں ہو سکیں گے۔تجربہ جو عالمی سانحے میں بدل گیا26 اپریل 1986 کو رات ایک بج کر 23 منٹ پر انجینیئرز نے چرنوبل جوہری پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر چار کے چند حصوں کو پاور کی سپلائی منقطع کر دی۔تجربے کا یہ اہم مرحلہ ان ممکنہ حالات کو سمجھنے کی کاوش کا حصہ تھا جو ری ایکٹرز کو بجلی کی مکمل عدم دستیابی یا بلیک آؤٹ کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔لیکن انجینیئرز کو یہ علم نہیں تھا کہ ری ایکٹر پہلے سے ہی غیر مستحکم تھا۔پاور منقطع ہونے سے ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی پہنچانے والی ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہو گئی۔ کم پانی کی وجہ سے زیادہ بھاپ بننے لگی اور نتیجتاً ری ایکٹر کے اندر دباؤ بڑھنے لگا۔جب آپریٹرز کو اس صورتحال کا علم ہوا اور انھوں نے ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعائيں نکل پڑیں تھیں جو یورپ کے بعض علاقوں کی فضا میں پھیل گئی تھیں اور جس کی وجہ سے تھائرائڈ کینسر میں اضافہ دیکھا گیا۔، اس جوہری پلانٹ سے ریڈیو ایکٹو یعنی تابکار شعاعيں نکل پڑیں تھیں بھاپ کے دباؤ سے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔دھماکے کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10 دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئے۔مہلک دھویں کے اخراج کے وقت امدادی کارکنوں کی پہلی کھیپ وہاں پہنچی ۔ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔کیف چڑیا گھر میں کام کرنے والی ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’15 سال تک ان پر تحقیق کرنے کے بعد ہمارے پاس ان کے رویے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ہیں۔ چرنوبل کے بھیڑیے یوکرین کے سب سے زیادہ قدرتی بھیڑیے ہیں۔‘
چرنوبل کے بھیڑیے، ہرن اور یہاں تک کے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر بھیڑیوں کے کھانے کی عادات ظاہر کرتی ہیں۔ انھیں لوگوں کے پرانے باغات کے درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے۔ہر گاؤں پر جنگلی حیات قابض نہیں ہیں، 30 کلومیٹر زون کے اندر کچھ لوگ بھی رہتے ہیںیوکرائن کی عورتیں چرنوبل کے حادثے کے بعد ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمعیں جلائے ہوئےبیلا روس کی سرحد کے قریب یوکرائن کے شہر چرنوبل کے ایٹمی ریکٹر کا دھماکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا جوہری حادثہ ہے۔لیکن اس وقت گویا اس واقعے پر آہنی پردہ ڈال کراس کی اصل حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن آ ج بیس برس بعد بھی تابکاری اثرات کے شکار معصوم بچوں کی سسکتی ہوئی آوازوں اورسرطان جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہزاروںافراد کی دم توڑتی ہوئی سانسوں نے ماہرین کی اس رپورٹ کاعملی ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ جس کے تحت اس حادثے کے جان لیوا اور ماحولیاتی اثرات کئی نسلوں اور کئی صدیوں تک موجود رہیں گے۔کہا جا رہا ہے کہ آج بیس برس گزرنے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کے بعد اس کے تابکاری اثرات کو روکنے کے لئے اب تک جتنے اقداما ت بھی کئے گئے ہیں وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس مقام سے کہ جہاں تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔
اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہے
لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔
چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev کے لوگوں کو 5 روز تک تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔
سامعین بعض شخصیات نے چرنوبل کے واقعے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سیاسی رنگ دیتے ہوئے ایک ایسے نظام کو ہدف تنقید بنایا ہے کہ جو ان کے نزدیک جب تک موجود رہے گا لوگوں کو مصیبتوں اور اذیتوں میں مبتلا کرتا رہے گا اور اُن کو اُن کے حقوق سے محروم کرتا رہے گا۔بیلا روس میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹس کے ایک سرکردہ سیاستدان Anatolij Lebedko کا کہنا ہے: ایٹمی تابکاری کی وجہ سے ابھی بھی بہت سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں لیکن ایک قانونی چرنوبل بھی ہے جس کی ذمہ دار بیلا روس کی حکومت ہے ۔ یہ حکومت بھی لوگوں کو جان سے مارتی ہے اور ان کے حقوق کو پامال کرتی ہےسنہ 2014 میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔۔ اسی لیے آج کے چرنوبل احتجاج کا عنوان ہم نے رکھا ہے