جمعہ، 4 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔حصہ دوم

 

جون کی تاریخ اور اتوار کا دن تھا۔چاروں طرف چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی عفت صبح سے ثاقب کے ساتھ ایک کیاری میں دھنیا، پودینہ، ٹماٹر اور سلاد کے بیج بوا رہی تھی۔پھر اس نے گلاب کے چند پودوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دیا۔اس کے بعد ہم تینوں لان میں بیٹھ گئے۔عفت نے بڑے وثوق سے کہا۔:یہ کیسا سہانا سماں ہے۔!غالبا بہشت بھی کچھ ایسی ہی چیز ہوگی۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔عفت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔یہ اس کا آخری بھرپور قہقہہ تھا جو میں نے سنا۔وہ بولی۔!تم مجھے کچھ نہیں بتاتے، ممتاز مفتی جو لکھتے ہیں، اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔آخر مجھے بھی تو کچھ بتا۔ میں نے کہا۔!تم ممتاز مفتی کو جانتی ہو۔؟بہت بڑا افسانہ نگار ہے، جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے، اس نے میرے سر پر سبز عمامہ باندھ کر اور اس پر مشک، کافور کا برادہ چھڑک کر مجھے ایک عجیب و غریب پتلا سا بنا رکھا ہے۔وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے۔


اس کی کسی بات پر دھیان نہ دو۔وہ مسکرا کر بولی۔:یہ ممتاز مفتی بھی عجیب آدمی ہیں۔میرے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں۔ثاقب کے ساتھ گھنٹوں بچوں کی طرح کھیلتے ہیں لیکن وہ جب میرے ساتھ تمہاری باتیں کرکے جاتے ہیں تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں بیوہ ہوں یہی تو اس کی افسانہ نگاری کا کمال ہے۔!میں نے کہا ۔وہ تنک کر بولی۔:مفتی جی کو گولی مارو۔!آ۔!آج ہم دونوں عیش کریں۔!اس ملک میں ایسی دھوپ روز روز تھوڑی نکلتی ہے۔یہ کہہ کر وہ اٹھی جلدی جلدی مٹر قیمہ پکایا۔کچھ چاول ابالے اور سلاد بنائی۔ہمیں کھانا کِھلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی، ڈھیر سارا میک اپ کیا اور جب خوب بن ٹھن کر نکلی تو ثاقب نے بے ساختہ کہا۔واہ واہ امی۔!آج تو بڑے ٹھاٹھ ہیں، اب تو ابو کی خیر نہیں۔زیادہ بک بک نہ کیا کرو۔!اس نے ثاقب کو ڈانٹا۔تم اپنی سائیکل نکالو اور خالد کے گھر چلے جاو۔شام کو طارق کی سالگرہ ہے۔

ہم بھی پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔ثاقب نے گھڑی دیکھ کر شرارت سے کہا ،امی۔!ابھی تو صرف دو بجے ہیں۔!پانچ بجے تک آپ اکیلی کیا کریں گی۔؟ہم مزے کریں گے۔!عفت نے کہا، اب تم جاو۔!ثاقب اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر خالد کے ہاں چلا گیا ،میں نے عفت سے کہا، آج تو تم زبردست موڈ میں ہو، بولو کیا ارادہ ہے۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہنے لگی، اب میں تمہارے کسی کام کی نہیں رہی ،چلو پارک چلیں۔ہم دونوں ٹیکسی کرکے اس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی۔!بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔تم مجھے کچھ نہیں بتاتے۔اس نے شکایت کی۔ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا۔ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو۔میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی۔

وہ بولی۔!یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا۔!کوئی کام کی بات کرو۔واقعی کروں۔؟اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہ، برا تو نہیں منا گے۔؟بات کاٹو گے تو نہیں۔؟ٹالو گے تو نہیں۔؟بالکل نہیں۔میں نے اسے یقین دلایاوہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی۔سنو۔!جب میں مر جاں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینااس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔وہ بولتی گئی۔:یہ شہر مجھے پسند ہے۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے، یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں۔اس نے منہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔میری آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب امڈ رہا تھا۔اس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا،


 اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے، اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بلانا۔یہاں پر تم ہو، ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے، آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں۔بس اتنا کافی ہے۔!اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا، بزنس آخر بزنس ہے۔میں نے کہا، جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے۔؟؟؟وہ آجائیں تو ضرور آجائیں، اس نے اجازت دے دی۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں، لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا ۔وہ بولی، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے، خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے۔ٹھیک ہے ناں۔؟میڈم۔!آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر۔!میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔اور کوئی ہدایت۔؟میری قبر کے کتبے پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا۔ضرور۔! میں نے کہا۔کوئی حکم۔۔۔؟؟؟ہاں۔!ایک عرض اور ہے۔!اس نے کہا۔اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے۔!تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا۔۔۔یہ کہہ کر وہ اٹھی اپنا پرس کھولا، ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لا، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں۔اس نے میرے ناخن کاٹے۔اس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا، کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اس نے مجھے بے تاب کردیا۔


جمعرات، 3 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس-حصہ اول

 


آج عفت مر گئی میں اسے مذاقا بڑھیا کہا کرتا تھا لیکن جب کنٹربری کانٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پر کرنا تھا اس میں مرحوم کی تاریخِ پیدائش بھی درج کرنا تھی۔جب میں نے اس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔اس کی عمر تو صرف 41 برس تھی۔لیکن میرے لئے وہ ہمیشہ " میری بڑھیا کی بڑھیا ہی رہی۔کنٹربری اسپتال میں ہم نے اسے گرم پانی میں آبِ زمزم ملا کر غسل دیا پھر کفنایا اور جب اسے قبلہ رو کرکے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں رکھا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا، ارے۔!یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔


بات بھی سچ تھی جب میں اسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ائیر سے نکلی تھی جب میں نے اسے دفنایا تو واقعی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔درمیان کے اٹھارہ سال اس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاسکے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں۔سامان بک ہو چکا ہو ۔ٹرین کا انتظار ہو۔اس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی۔وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔میری ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی میں بھی اس میں سوار ہوجاں گا لیکن سامان کا کیا ہوگا۔

جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے۔؟کچھ کاغذ، ڈھیر ساری کتابیں، کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب۔!لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں۔یہ بارہ سال کا بچہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا، تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے، بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔


ہمارے گھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، اسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے، نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔صد حیف۔!کہ اب میرے پاس وہ بچہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روں۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے۔
ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی۔ماں جی کے مرتے ہی فورا عفت نے ان کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔پتہ نہیں یہ ماں اور بیٹا کیسے لوگ ہیں۔؟


یہ خود تو صبر وشکر کا بادبان تان کر ہنسی خوشی زندگی اور موت کے سمندر میں کود جاتے ہیں اور مجھے بییارومددگار اکیلا ساحل پر چھوڑ جاتے ہیں جیسے میں انسان نہیں پتھر کی چٹان ہوں۔خیر، اللہ انہیں دونوں جہاں میں خوش رکھے میرا کیا ہے۔؟میں نہ اِس جہاں کے قابل نہ اس جہاں کے۔کوئی تنہائی سی تنہائی ہے ۔میرا خیال ہے کہ میری اس عجیب تنہائی کا احساس عفت کو بھی ضرور تھا۔بات تو اس نے کبھی نہیں کی لیکن عملی طور پر اس نے اِس بینام خلا کو پر کرنے کی بیحد کوشش کی۔یہ کوشش پورے اٹھارہ سال جاری رہی لیکن میرے لئے اس کا ڈرامائی کلائمیکس اس کی وفات سے عین پندرہ روز پہلے وقوع پذیر ہوا۔

۔۔

چترال میں گرم پانی کے چشمے قدرتی شفا باعث ہیں



وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾

. ہم نے اس پر بلند و مضبوط پہاڑ رکھ دئیے اور ہم نے تمہیں (شیریں چشموں کے ذریعے) میٹھا پانی پلایا-لیکن یہاں ہم گرم پانی کے چشموں کی بات کریں گے کراچی  کے کے شہری جانتے ہیں کہ کراچی کے انتہائ شمال میں بھی لاتعداد  گرم پانی کے ایسے چشمے زمین کی اتھلی گہرائ پر موجود ہیں جن کے پانی سے نہانے سے لاتعداد بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں -در اصل یہ بھی اللہ کریم و کارساز کی حکمت ہے کہ جہاں طبی علاج فیل ہوتے ہیں وہاں سے خدا کی حکمت کا آغاز ہوتا ہے -سلفر یعنی گندھک کی آمیزش کے پانی قدرتی شفا بخش ہوتے ہیں   چترال کے گرم پانی  کے چشمے کسی قدرتی عجوبے سے کم نہیں اور اس تک پہنچنے کے لیے دریائے لٹکوہ کے ساتھ سفر کرنا اپنے آپ میں ایک خوشی ہے۔ 


 یہ قریب ترین شہر سے 5 گھنٹے کا آف روڈ اور 45 منٹ کا ٹریک ہے جہاں سے ابتدائی ندی شروع ہوئی تھی۔ یہ چشمہ دو پہاڑوں کے سنگم پر واقع تھا جو کئی سالوں سے پانی کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ علاج کے لیے اس چشمے کے پانی میں شفا ہے۔' اس چشمے سے جڑی کہانیوں کے مطابق اس کا پانی درد اور یرقان سمیت دیگر بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اقبال حسین چشمے کے پاس ایک چھوٹے سے تالاب میں نہا رہے ہیں۔ اس نے، جن کا گھر چشمہ کے قریب تھا، آزاد اردو کو بتایا کہ اسے یرقان ہے، لیکن اس چشمے میں آکر یہاں نہانے اور نہانے سے ان کی بیماری ٹھیک ہوگئی۔ چشمے کے قریب ایک بڑی مسجد کو بھی یہاں سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، لوگ اسے وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح نہانے کے لیے چشمے کے قریب باتھ روم ہیں جہاں لوگ علاج کے لیے آتے ہیں جب کہ ایک گھر میں لوگ آرام کر سکتے ہیں تاکہ ان کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر آ سکے۔ چشمے کے ساتھ ایک دیوار بنائی گئی تھی



خواتین کے لیے  بھی  ایک مخصوص ہے جہاں وہ کپڑے دھو سکتی ہیں ۔ علاقے سے واقفیت رکھنے والے محبوب عالم نے بتایا کہ موسم بہار کی تاریخ کے بارے میں شاید ہی کوئی     جانتا ہو لیکن یہ چشمہ اسی جگہ واقع ہے۔' چشمے کا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اسے انڈوں میں ڈالیں گے تو وہ پک جائیں گے ۔' محبوب عالم کے مطابق گرم چشمہ چترال کے چند مشہور تفریحی مقامات میں سے ہے جہاں ملک بھر سے سیاح موجود ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس چشمے کا انتظام کون کر رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ لوگ اس کا خیال رکھتے ہیں، اس نے کہا کہ وہ یہاں غسل خانہ بنا رہے ہیں، وہ ہمیں استعمال کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ موسم بہار میں پانی گرم کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے اردو نے اپنے مضمون کے لیے چشموں کی تحقیق پر کچھ سائنسی اور مقالات کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ چشمے زمین میں جتنے گہرے ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں۔


پریوں کا چشمہ بلوچستان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی جانب سے گرم پانی کے چشمے سے یہ مفروضہ جوڑا گیا ہے کہ اس مضمون میں پانی کا علاج موجود ہے تاہم سائنسی تحقیق سے یہ بات ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ مضمون کے مطابق جب چشمے کا پانی زمین میں اتھلی گہرائی سے نکلتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہوتا ہے، جب کہ گرم چشموں میں، جہاں آتش فشاں کی سرگرمیوں کے زیادہ آثار ہوتے ہیں، وہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی ویب سائٹ کے مطابق گرم چٹانوں کے اندر سے بھی گرم چشمے نکلتے ہیں جب کہ اب سائنسدان سمندر کے نیچے تقریباً تین کلومیٹر گہرائی میں موجود گرم چشموں سے دور ہیں جن کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ اسی تنظیم کے مطابق گرم چشموں سے نکلنے والے پانی میں نمکیات اور سلفر کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ سمندری حیات کے لیے فائدہ مند ہے۔پشاور(این آئی)اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے خیبرپختونخوا کے گلیات اور چترال بشکر کے گرم چشموں کو عالمی بایوسفیئر ریزرو کا درجہ دے دیا ہے۔


 زندگی، رہائش، محفوظ اور دیگر ماحول کا مؤثر تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ مقامات نہ صرف قدرتی حسن اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے اہم ہیں بلکہ مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے قدرتی نشانات کے تحفظ، ترقی پسندی اور سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے بھی اہم ہیں۔ ایک تاریخی پیش رفت میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا عالمی تحفظ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کا ثبوت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگلی حیات اور قدرتی وسائل کا مزید تحفظ کرےاگرچہ چترال سے گرم چشمہ تک سڑک کا فاصلہ صرف چھپن کلومیٹر ہے لیکن پہاڑی علاقے اور خستہ حال سڑک کی وجہ سے گرم چشمہ تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں۔  اقوام متحدہ نے چترال میں گولیتھ اور گرم چشمہ کو عالمی بایوسفیئر ریزرو قرار دیا ہے۔ - مقامی لوگوں کے مطابق چشمے سے بہنے والا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر آپ اس میں انڈا ڈالیں گے تو وہ پک جائے گا۔ اس جگہ کا نام مولا چھوٹوک تھا (بلوچی میں چھوٹوک کا مطلب آبشار ہے)

منگل، 1 اپریل، 2025

اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی- 1 part


- اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی -پاکستان اسٹیل ملز   ایک عظیم الشان منصوبہ جسے پاکستان کے مگر مچھ کھا گئے -پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا   -قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کےبعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔



پاکستان  کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کرکے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کماسکے۔یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کررہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے۔ مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا


 اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے— پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا

 

اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی -پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفراسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئ 

پیر، 31 مارچ، 2025

گزشتہ 2 برس میں 2 لاکھ مزدور طبقہ بیروزگار ہوا ہے

 


پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چوہدری سلامت علی کے مطابق اب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مختلف یونٹس کے بند ہونے سے ڈیڑھ سے 2 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں-پھر ایک اور انڈسٹریل یونٹ بند ہونے سے 900 محنت کش بے روزگار ہو گئے۔  گزشتہ 2 برس کے دوران   لاتعداد  انڈسٹریز بند ہو چکی ہیں  ۔اس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ 40 فیصد پیداوار میں کمی کا یہ مطلب نہیں کہ آدھی انڈسٹری بند ہوچکی ہے بلکہ مختلف انڈسٹریوں کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں جس میں مختلف عوامل شامل ہیں۔خبر کیا ہے؟ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے میڈیا پر خبریں اس وقت سامنے آئیں جب اس شعبے کے ایک بڑے ادارے نے اپنے دوسرے انڈسٹریل یونٹ کو بند کردیا    100 سےزائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟


پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش کا بہت چرچا ہورہا ہے اور لوگ اس حوالے سے تشویش کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ 100 سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بند ہونے سے ہزاروں، لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے۔اس حوالے سے ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس شعبے کی مشکلات  کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف انڈسٹریل گروپس کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ سارا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوگیا ہے-انہوں نے بتایا کہ اگر کسی انڈسٹری کا ایک یونٹ بند ہو تو اس سے یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ تمام کی تمام انڈسٹری بند ہوچکی ہے۔۔اگر گزشتہ مالی کے اعداد و شمار کودیکھا جائے تو اس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات 0.93 فیصد اضافہ ہوا جو 16.55 ارب ڈالررہیں جبکہ اس سے پچھلے برس یعنی مالی سال 23-2022 میں یہی برآمدات 16.50 ارب ڈالر تھیں۔

 تاہم گزشتہ 2 برسوں سے قبل یہی برآمدات کورونا کے بعد 22-2021 میں زبردست اضافے کے سبب 19.3 ارب ڈالر تک بھی گئیں تھیں۔ یعنی مالی سال 22-2021 کے مقابلے میں گزشتہ 2 سالوں کی برآمدات میں کمی تو آئی ہے لیکن گزشتہ برس اس میں دوبارہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔کیا ستارہ ٹیکسٹائل بند ہوگئی ہے؟ستارہ ٹیکسٹائل مل کا شمار پاکستان کے چند بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ گرو1956 میں ٹیکسٹائل پروسیسنگ کے ساتھ شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے ایک معروف صنعت بن گیا اور اب ایک گروپ آف انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ستارہ ٹیکسٹائلز مقامی مارکیٹ کو سپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹوں کو کی جانے والی برآمدات میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ستارہ گروپ آف انڈسٹری بند نہیں ہوئی،بلکہ  ان کے 2 یونٹس بند ہوئے ہیں۔

ستارہ ٹیسکٹائل کے 2 یونٹ بند ہونے کے بعد میڈیا میں کچھ خبروں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے ستارہ ٹیکسٹائل مل مکمل طور پر بند ہوچکی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ستارہ گروپ میں شامل دیگر تمام یونٹس کام کررہے۔روزگار کی فراہمی میں ٹیکسٹائل کا حصہ ٹیکسٹائل پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ سیکٹر تقریباً 1 کروڑ 18 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے جس میں سے ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 40 فیصد تک ہے۔ یعنی 40 لاکھ سے زائد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ترقی کرنا شروع کردی تھی اور یہ آج بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعبہ ایک طویل عرصے سے پاکستانی معیشت کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ڈالتا چلا آرہا ہے۔


قیامِ پاکستان کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بنیادی ڈھانچہ بہت محدود تھا۔ اس وقت پاکستان میں کپڑا بنانے کے چند ہی کارخانے تھے، جو زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر کام کررہے تھے۔ تاہم جلد ہی اس صنعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں اور اولین 2 دہائیوں میں اس انڈسٹری نے بہت تیزی سے ترقی کی۔1950 اور 1960 کی دہائی میں کئی بڑی ٹیکسٹائل ملز کا قیام عمل میں آیا اور یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور مختلف مراعات فراہم کیں، جس سے اس شعبے نے مضبوطی اختیار کی۔ تاہم موجودہ دور میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں توانائی کے بحران، سیاسی عدم استحکام، شرح سود میں اضافہ اور عالمی منڈی میں سخت مقابلہ شامل ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پربحران کے کچھ ادوار1990 کی دہائی میں بجلی اور گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب  ہوئے

اتوار، 30 مارچ، 2025

30 سال میں بنایا گیا مندر اسکول بن گیا

 

اس مندر کی تعمیرکا سنگ بنیاد راولپنڈی ہی کے ایک رہائشی لالہ کلیان داس نے 1850 کی دہائی میں رکھا تھا اور اس کی تعمیر پر 30 برس لگ گئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد یہ مندر کئی برس  تک  بے کار رہا پھر اسے سنہ 1956 میں اسے محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا اور سنہ 1958 میں یہاں بیگم فاروقی نامی ایک خاتون نے بصارت کے محروم بچوں کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔  اب کئی دہائیوں سے یہاں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم دی جا رہی ہے -اسکول  کے پرنسپل نور حسین اعوان خود بھی پیدائشی طور بصارت سے محروم ہیں  تاہم وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر صحیح رہنمائی، والدین اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی میسر ہو تو نابینا افراد بھی معاشرےمیں عام افراد کی طرح تخلیقی و تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔اب اسکول کا نام  گورنمنٹ قندیل سکینڈری سکول ہےخیال رہے کہ 15 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔نور حسین اعوان نے بتایا کہ عوام میں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے 


 لوگوں کو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے کہ بصارت سے محروم بچے بھی اعلیٰ تعلیم کا حاصل کر سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ 20، 22 سال کی عمر کے افراد کے والدین ہمارے پاس آئے ہیں کہ انھیں لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے۔‘نور حسین اعوان بتاتے ہیں کہ انھوں نے بھی ابتدائی تعلیمی دور میں سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن والدین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول ’اولڈ مین اینڈ دی سی‘ کے اس جملے سے بے حد متاثر ہیں کہ 'انسان کو تباہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔' اور ان کے بقول اسی جملے نے انھیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا۔ لیکن  ان کی والدہ  نے ہمت  نہیں ہاری  وہ انھیں روزانہ تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر کر کے سکول لے کر جاتیں اور چھٹی کے وقت تک سکول کے دروازے کے باہر بیٹھی ان کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔نور حسین اعوان کہتے ہیں کہ ’میری والدہ نے تقریبا ایک سال ایسا ہی کیا،

اگروہ یہ ایک سال تک یہ مشقت نہ کرتیں تو آج میں جس مقام پر ہوں یہاں تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔‘وہ کہتے ہیں کہ نابینا بچوں کو اکثر والدین بوجھ سمجھتے ہیں اور ان میں اس بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے حوالے سے کمیونٹی سپورٹ خاص طور پر اہم ہے۔خصوصی ضروریات والے بچوں کے والدین اکثر قابل ذکر لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال کے پیچیدہ نظام کی نگرانی کرتے ہیں، اپنے بچوں کے حقوق کی وکالت کرتے ہیں، اور دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کا انتظام کرتے ہیں ان  کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین اپنے چیلنجنگ تجربات کے ذریعے ذاتی ترقی اور غیر مشروط محبت اور قبولیت کی گہری سمجھ کی اطلاع دیتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سندھ معذوری ایکٹ جیسے قانون سازی اور پالیسی اقدامات کے ذریعے معذور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ تاہم، عمل درآمد متضاد ہے، اور بہت سے خاندان اپنے حقوق سے ناواقف ہیں۔سندھ میں کئی این جی اوز اہم خدمات فراہم کرتی ہیں جن میں ابتدائی پروگرام، پیشہ ورانہ تربیت، اور وکالت شامل ہیں۔


 پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ اینڈ لیونگ (PILL) اور کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام (KDSP) جیسی تنظیمیں خاندانوں کے لیے خصوصی مدد اور وسائل پیش کرتی ہیں۔بین الاقوامی تنظیمیں اور عطیہ دہندگان صلاحیت کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال کی پیشہ ورانہ تربیت، اور جامع تعلیمی پروگراموں کے ذریعے سندھ میں خصوصی ضروریات کے بچوں کی مدد میں تعاون کرتے ہیں، جس کا مقصد طلب اور خدمات کی دستیابی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔اندرون سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک ماں عائشہ، محدود وسائل کے باوجود دماغی فالج کے شکار اپنے دس سالہ بیٹے کی زبردست وکیل ہے۔ اس نے دوسرے والدین کے ساتھ ایک مقامی سپورٹ گروپ بنایا ہے اور خصوصی طبی دیکھ بھال کے لیے باقاعدگی سے کراچی کا سفر کرتی ہے-


عائشہ کی کہانی رسمی خدمات کی عدم موجودگی میں والدین کی وکالت اور کمیونٹی سپورٹ کے اہم کردار کو اجاگر کرتی ہے۔اس کے برعکس  کراچی میں ایک باپ بلال کو آٹزم میں مبتلا اپنی بیٹی کے لیے مزید جامع وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ وہ مختلف این جی اوز کی خدمات سے استفادہ کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو خصوصی تعلیمی پروگرام کے ساتھ ایک نجی اسکول میں داخل کرایا ہے۔ بلال کا تجربہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خدمات تک رسائی میں تفاوت کو واضح کرتا ہے۔میڈیا مہموں، کمیونٹی ورکشاپس، اور اسکول کے پروگراموں کے ذریعے اسپیشل بچوں کے بارے میں عوامی بیداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور معلمین کے لیے جاری تربیت معذور بچوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تشخیص اور مداخلت کے لیے معیاری پروٹوکول کا نفاذ اسپیشل بچوں کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنا سکتا ہے۔


ہفتہ، 29 مارچ، 2025

میانمار کا تباہ کن زلزلہ مارچ 2025

 میانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے-تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں خوفناک زلزلے سے متعدد عمارتیں تباہ ہوگئیں ، میانمار میں پل اور ڈیم بھی تباہ ہوگیا ، شدت 7.7ریکارڈ،  بنگلا دیش، بھارت، لاؤس اور چین میں بھی زلزلہ ۔ میانمار میں حکام کے مطابق زلزلے سے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے ، زلزلے سےمیٹرواور ریل سروس معطل کردی گئی، تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں زیر تعمیر کثیر المنزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں وہاں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ، بینکاک میں مجموعی طور پر8ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں ۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار میں جمعے کے روز7.7اور6.4کی شدت کے یکے بعد دیگرے2زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔


 امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت7.7محسوس کی گئی، جس کا مرکز میانمار میں 10کلومیٹر زیرِ زمین تھا۔میانمار میں آنے والا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اس نے تقریباً 900کلومیٹر دور بنکاک میں بھی بلند و بالا عمارت کو ڈھیر کر دیا۔ زلزلے کے جھٹکوں سے متاثرہ عمارتوں کے منہدم ہونے کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے جو سوشل میڈیا پر وائرل پر وائرل ہو رہے ہیں۔امریکی ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک صدی سے زائد عرصے میں میانمار میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا ا زلزلے کے نتیجے میں 1000 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں، ایسے میں ایلون مسک نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایسی صورتحال میں اسپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے بھی مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ایلون مسک نے اسٹارلنک کٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں رابطے بحال کرنے میں مدد مل سکے۔


مسک کا اپنی سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہنا تھا کہ ”میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہونے والے نقصان پر دکھی ہوں، اسپیس ایکس کی ٹیم اسٹارلنک کٹس فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ مواصلاتی ضروریات اور امدادی کارروائیوں میں تعاون کیا جا سکے۔واضح رہے کہ اسٹارلنک ایک سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس ہے جو دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے، جہاں انٹرنیٹ کی رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میانمار میں آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی جس کے اثرا بنکاک تک دیکھے گئے۔


عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق زلزلے کا مرکز میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈلے کے قریب تھا اور جس کی گہرائی زمین میں 10 کلومیٹر تک تھی۔زلزلے میں متعدد رہائشی عمارتیں گر گئیں اور سیکڑوں افراد ملبے تلے دب گئے جب کہ  متاثرہ شہروں  کا انفرا اسٹریکچر بری طرح تباہ ہوگیا۔میانمار کی فوجی حکومت نے چھ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے عالمی برادری اور تنظیموں سے مدد کی درخواست کی ہے-زلزلے میں ایک مسجد کا کچھ حصہ بھی منہدم ہوگیا جس کے نتیجے میں 3 نمازی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ امدادی کاموں کے دوران لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تعداد ایک ہزار سے دس ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے۔بنکاک میں بھی فلک بوس عمارتیں لرز اُٹھیں۔ لگژری ہوٹلز کی چھت پر بنے سوئمنگ پول کا پانی آبشار کی طرح زمین پر گرنے لگا۔


میانمار کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے بیچ میں 1200 کلومیٹر سے بھی زیادہ کی ایک دراڑ موجود ہے جسے 'ساگائنگ فالٹ' کہا جاتا ہے۔بنکاک میں زلزلے کے باعث صرف ایک عمارت کیوں زمین بوس ہوئی؟زلزلے کے بعد بنکاک سے جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ زمین کی حرکت کے سبب سوئمنگ پولز میں سے پانی باہر چھلک رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں صرف ایک ہی عمارت منہدم ہوئی جو کہ آڈیٹر جنرل کا زیرِ تعمیر دفتر تھا۔امپیریل کالج لندن سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ سنہ 2009 سے پہلے بنکاک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت زلزلوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا-خیال رہے زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں پر عام عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، لیکن میانمار کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں زلزلے کم ہی آتے ہیں۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر