آج عفت مر گئی میں اسے مذاقا بڑھیا کہا کرتا تھا لیکن جب کنٹربری کانٹی کونسل کے دفتر میں تدفین کا اجازت نامہ حاصل کرنے گیا تو ایک فارم پر کرنا تھا اس میں مرحوم کی تاریخِ پیدائش بھی درج کرنا تھی۔جب میں نے اس کا پاسپورٹ نکال کر پڑھا تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔اس کی عمر تو صرف 41 برس تھی۔لیکن میرے لئے وہ ہمیشہ " میری بڑھیا کی بڑھیا ہی رہی۔کنٹربری اسپتال میں ہم نے اسے گرم پانی میں آبِ زمزم ملا کر غسل دیا پھر کفنایا اور جب اسے قبلہ رو کرکے لکڑی کے بنے ہوئے ہلکے بادامی رنگ کے تابوت میں رکھا تو تنویر احمد خان نے بے ساختہ کہا، ارے۔!یہ تو ایسے لگتی ہے جیسے ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔
بات بھی سچ تھی جب میں اسے بیاہ کر لایا تھا تو وہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے فائنل ائیر سے نکلی تھی جب میں نے اسے دفنایا تو واقعی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی ابھی فرسٹ ائیر میں داخلہ لینے جا رہی ہو۔درمیان کے اٹھارہ سال اس نے میرے ساتھ یوں گزارے جس طرح تھرڈ کلاسکے دو مسافر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں۔سامان بک ہو چکا ہو ۔ٹرین کا انتظار ہو۔اس کی گاڑی وقت سے پہلے آگئی۔وہ اس میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔میری ٹرین لیٹ ہے، جب آئے گی میں بھی اس میں سوار ہوجاں گا لیکن سامان کا کیا ہوگا۔
جو کبھی آگے جاتا ہے اور کبھی پیچھے اور کوئی اسے وصول کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے سامان میں آخر رکھا کیا ہے۔؟کچھ کاغذ، ڈھیر ساری کتابیں، کچھ کپڑے،بہت سے برتن اور گھریلو آرائش کی چیزیں جنہیں عفت نے بڑی محنت سے سیلز میں گھوم گھوم کر جمع کیا تھا اور ایک ثاقب۔!لیکن ثاقب کا شمار نہ سامان میں ہوتا ہے نہ احباب میں۔یہ بارہ سال کا بچہ میرے لئے ایک دم بوڑھا ہو گیا۔کنٹربری کے قبرستان میں جب مٹی کے گرتے ہوئے ریلوں نے عفت کے تابوت کا آخری کونہ بھی ہماری نظر سے اوجھل کردیا، تو ہم دونوں جو بڑی بہادری سے کھڑے ہوئے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے، بیک وقت گھاس پر بیٹھ گئے۔
ہمارے گھٹنے ہمارے اندر کے بوجھ سے دب کر اچانک دہرے ہوگئے۔چند لمحوں کے لئے ثاقب نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، اسے زور سے دبایا پھر خاموشی سے چھوڑ دیا۔ہم دونوں نے اب تک ایک دوسرے کے سامنے کبھی آنسو نہیں بہائے، نہ آئیندہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔صد حیف۔!کہ اب میرے پاس وہ بچہ نہیں جسے گلے لگا کر میں دھاڑیں مار مار کر روں۔میرے پاس صرف ایک بارہ سال کا بوڑھا انسان ہے جو باپ کی طرح میری دیکھ بھال پر معمور ہوگیا ہے۔یہ گر اس نے اپنی امی سے سیکھا ہے۔
ہماری شادی خانہ آبادی کے پانچ برس بعد جب ماں جی فوت ہوگئیں تو عفت نے بھی یہی چالاکی برتی تھی۔ماں جی کے مرتے ہی فورا عفت نے ان کا کردار اپنا لیا تھا عین اسی طرح جیسے عفت کے مرتے ہی ثاقب میرا مائی باپ بن بیٹھا ہے۔پتہ نہیں یہ ماں اور بیٹا کیسے لوگ ہیں۔؟
یہ خود تو صبر وشکر کا بادبان تان کر ہنسی خوشی زندگی اور موت کے سمندر میں کود جاتے ہیں اور مجھے بییارومددگار اکیلا ساحل پر چھوڑ جاتے ہیں جیسے میں انسان نہیں پتھر کی چٹان ہوں۔خیر، اللہ انہیں دونوں جہاں میں خوش رکھے میرا کیا ہے۔؟میں نہ اِس جہاں کے قابل نہ اس جہاں کے۔کوئی تنہائی سی تنہائی ہے ۔میرا خیال ہے کہ میری اس عجیب تنہائی کا احساس عفت کو بھی ضرور تھا۔بات تو اس نے کبھی نہیں کی لیکن عملی طور پر اس نے اِس بینام خلا کو پر کرنے کی بیحد کوشش کی۔یہ کوشش پورے اٹھارہ سال جاری رہی لیکن میرے لئے اس کا ڈرامائی کلائمیکس اس کی وفات سے عین پندرہ روز پہلے وقوع پذیر ہوا۔
۔۔
قدرت اللہ شہاب ایک پائے کے بیورو کریٹ تھے لیکن ان کےمزاج میں درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ تھی
جواب دیںحذف کریں