جمعہ، 4 اپریل، 2025

شہاب نامہ سے اقتباس۔حصہ دوم

 

جون کی تاریخ اور اتوار کا دن تھا۔چاروں طرف چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی عفت صبح سے ثاقب کے ساتھ ایک کیاری میں دھنیا، پودینہ، ٹماٹر اور سلاد کے بیج بوا رہی تھی۔پھر اس نے گلاب کے چند پودوں کو اپنے ہاتھ سے پانی دیا۔اس کے بعد ہم تینوں لان میں بیٹھ گئے۔عفت نے بڑے وثوق سے کہا۔:یہ کیسا سہانا سماں ہے۔!غالبا بہشت بھی کچھ ایسی ہی چیز ہوگی۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔عفت کھلکھلا کر ہنس پڑی۔یہ اس کا آخری بھرپور قہقہہ تھا جو میں نے سنا۔وہ بولی۔!تم مجھے کچھ نہیں بتاتے، ممتاز مفتی جو لکھتے ہیں، اس سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔آخر مجھے بھی تو کچھ بتا۔ میں نے کہا۔!تم ممتاز مفتی کو جانتی ہو۔؟بہت بڑا افسانہ نگار ہے، جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے، اس نے میرے سر پر سبز عمامہ باندھ کر اور اس پر مشک، کافور کا برادہ چھڑک کر مجھے ایک عجیب و غریب پتلا سا بنا رکھا ہے۔وہ دیدہ و دانستہ عقیدے سے بھاگتا اور عقیدے کا روگ پالتا ہے۔


اس کی کسی بات پر دھیان نہ دو۔وہ مسکرا کر بولی۔:یہ ممتاز مفتی بھی عجیب آدمی ہیں۔میرے ساتھ بڑی محبت کرتے ہیں۔ثاقب کے ساتھ گھنٹوں بچوں کی طرح کھیلتے ہیں لیکن وہ جب میرے ساتھ تمہاری باتیں کرکے جاتے ہیں تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں تمہاری بیوی نہیں بیوہ ہوں یہی تو اس کی افسانہ نگاری کا کمال ہے۔!میں نے کہا ۔وہ تنک کر بولی۔:مفتی جی کو گولی مارو۔!آ۔!آج ہم دونوں عیش کریں۔!اس ملک میں ایسی دھوپ روز روز تھوڑی نکلتی ہے۔یہ کہہ کر وہ اٹھی جلدی جلدی مٹر قیمہ پکایا۔کچھ چاول ابالے اور سلاد بنائی۔ہمیں کھانا کِھلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔جامنی رنگ کی شلوار قمیض پہنی، ڈھیر سارا میک اپ کیا اور جب خوب بن ٹھن کر نکلی تو ثاقب نے بے ساختہ کہا۔واہ واہ امی۔!آج تو بڑے ٹھاٹھ ہیں، اب تو ابو کی خیر نہیں۔زیادہ بک بک نہ کیا کرو۔!اس نے ثاقب کو ڈانٹا۔تم اپنی سائیکل نکالو اور خالد کے گھر چلے جاو۔شام کو طارق کی سالگرہ ہے۔

ہم بھی پانچ بجے تک پہنچ جائیں گے۔ثاقب نے گھڑی دیکھ کر شرارت سے کہا ،امی۔!ابھی تو صرف دو بجے ہیں۔!پانچ بجے تک آپ اکیلی کیا کریں گی۔؟ہم مزے کریں گے۔!عفت نے کہا، اب تم جاو۔!ثاقب اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر خالد کے ہاں چلا گیا ،میں نے عفت سے کہا، آج تو تم زبردست موڈ میں ہو، بولو کیا ارادہ ہے۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہنے لگی، اب میں تمہارے کسی کام کی نہیں رہی ،چلو پارک چلیں۔ہم دونوں ٹیکسی کرکے اس کے ایک پسندیدہ پارک میں چلے گئے۔چاروں طرف جوان اور بوڑھے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے سبز گھاس پر لیٹے ہوئے تھے بہت سے فوارے چل رہے تھے ،گلاب کے پھول کِھلے ہوئے تھے۔چیری کے درخت گلابی اور سرخ پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔آس پاس ٹھنڈے دودھ اور رنگارنگ مشروبات کی بوتلیں بِک رہی تھیں ،ہم دونوں لکڑی کے ایک بنچ پر ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئے۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بولی۔!بہشت کا نظارہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔؟پتہ نہیں۔!میں نے کہا۔تم مجھے کچھ نہیں بتاتے۔اس نے شکایت کی۔ممتاز مفتی تمہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔مفتی جی افسانہ نگار ہیں ، میں نے کہا۔ان کو گولی مارو ،اپنی بات کرو۔میری بات صرف اتنی ہے کہ میں تیرے کسی کام نہ آسکی۔

وہ بولی۔!یہ فضول بکواس چھوڑو ،میں نے کہا۔!کوئی کام کی بات کرو۔واقعی کروں۔؟اس نے ایسے انداز میں کہا جیسے کوئی بچہ ٹافی خریدنے کے لئے خوشامد کرکے پیسے مانگنے والا ہ، برا تو نہیں منا گے۔؟بات کاٹو گے تو نہیں۔؟ٹالو گے تو نہیں۔؟بالکل نہیں۔میں نے اسے یقین دلایاوہ لکڑی کے بنچ پر مجھے تکیہ بنا کر لیٹ گئی اور بولی۔سنو۔!جب میں مر جاں تو مجھے کنٹربری کے قبرستان میں دفنا دینااس کے منہ سے موت کا یہ پیغام سن کر مجھے بڑا شدید دھچکا لگا لیکن میں نے اس کی بات نہ کاٹنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔اس لئے بلکل خاموش رہا۔وہ بولتی گئی۔:یہ شہر مجھے پسند ہے۔یہاں کے اسپتال نے مجھے بڑا آرام دیا ہے۔یوں بھی اس شہر پر مجھے حضرت مریم کا سایہ محسوس ہوتا ہے، یہاں پر تمہیں بھی کچھ محسوس ہوتا ہے یا نہیں۔اس نے منہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔میری آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب امڈ رہا تھا۔اس نے اپنے جامنی رنگ کے ڈوپٹے کے پلو سے میرے آنسو پونچھے اور بے حد غیر جذباتی انداز میں اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا،


 اس ملک میں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے، اس لئے میرے جنازے پر کسی کو نہ بلانا۔یہاں پر تم ہو، ثاقب ہے،خالد ہے ،زہرہ ہے، آپا عابدہ ہیں ،خالد کے گھر چند مسلمان ڈاکٹر دوست ہیں۔بس اتنا کافی ہے۔!اب میں سنبھل کر بیٹھ گیا، بزنس آخر بزنس ہے۔میں نے کہا، جرمنی سے تنویر احمد خاں اور پیرس سے نسیم انور بیگ شائد آجائیں۔ان کے متعلق کیا حکم ہے۔؟؟؟وہ آجائیں تو ضرور آجائیں، اس نے اجازت دے دی۔وہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں، لیکن پاکستان سے کوئی نہ آئے۔!وہ کیوں۔؟میں نے پوچھا ۔وہ بولی، ایک دو عزیز جو استطاعت رکھتے ہیں ضرور آجائیں گے لیکن دوسرے بہت سے عزیز جن میں آنے کی تڑپ تو ہے لیکن آنہیں سکتے، خواہ مخواہ ندامت سی محسوس کریں گے۔ٹھیک ہے ناں۔؟میڈم۔!آپ کا اشارہ سر آنکھوں پر۔!میں نے جھوٹی ہنسی سے کہا ۔اور کوئی ہدایت۔؟میری قبر کے کتبے پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ضرور لکھوانا۔ضرور۔! میں نے کہا۔کوئی حکم۔۔۔؟؟؟ہاں۔!ایک عرض اور ہے۔!اس نے کہا۔اپنے ہاتھوں کے ناخن بھی خود کاٹنا سیکھ لو۔دیکھو اس چھوٹی سی عمر میں ثاقب کیسی خوبی سے اپنے ناخن کاٹ لیتا ہے۔!تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا۔۔۔یہ کہہ کر وہ اٹھی اپنا پرس کھولا، ایک چھوٹی سی قینچی نکالی اور بولی لا، آج میں پھر تمہارے ناخن تراش دوں۔اس نے میرے ناخن کاٹے۔اس آخری خدمت گزاری کے بعد وہ میرے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی ۔مجھے اچھا تو بڑا لگا، کیونکہ اس سے پہلے ہم برسرِعام اس طرح کبھی نہ بیٹھے تھے لیکن اس کی باتوں میں الوداعیت کا جو پیغام چھلک رہا تھا اس نے مجھے بے تاب کردیا۔


1 تبصرہ:

  1. قدرت اللہ شہاب انتہائ سلیس اور پُر اثر تحریر تخلیق کرتے رہے ہیں آج بھی ان کی ہر تحریر تازگی کا احساس دلاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر