منگل، 15 اکتوبر، 2024

جاگیرداری نظام کا خونیں پنجہ اور پاکستان


جاگیردارانہ نظام  اگر منصفانہ نا ہو تو یہ  دنیا کا سب سے بدترین  غلامانہ  نظام ہے جس میں کچھ لوگ مراعات یافتہ ہوتے ہیں باقی ان کے  غلام ہو تے ہیں - اور آقا اور غلام  کا یہ رشتہ  معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام کو اپنے مظبوط  شکنجے میں جکڑے رہتا ہے  - یہ نظام  جدید حکومتوں کے قیام سے پہلے یورپ اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں رائج تھا۔ اس نظام کی بعض خصوصیتیں یہ تھیں کہ بادشاہ کی طرف سے مختلف افراد کو ان کی خدمات کے صلے میں زمینوں کے وسیع رقبے جاگیر کے طور پر عطا کیے جاتے تھے۔ یہ جاگیردار اپنی جاگیر میں رہنے والے مزارعین سے زمینوں پر کام کراتے تھے۔ زمین کا لگان وغیرہ خود جاگیردار وصول کرتے تھے جس میں سے بادشاہ کو حصہ جاتا تھا۔ عام طور پر پیداوار کا ایک تہائ حصہ کسان کا ہوتا تھا، ایک تہائ جاگیردار کا اور آخری ایک تہائ بادشاہ کا۔ جاگیردار کی حیثیت مزارعین اور دیگر مقامی باشندوں کے لیے حکمران سے کم نہیں تھی۔ مزارعین جاگیردار کے ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہتے تھے۔ ان کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔انیسویں صدی میں ،یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد جاگیردارنہ نظام کو زوال آیا اور اس کی جگہ سرمایہ داررانہ نظام نے لے لی۔ اب یہ نظام یورپ سے بالکل ناپید ہو چکا ہے۔ لیکن افریقہ اور ایشیا کے بعض ملکوں میں کلی یا جزوی طور پر اب بھی اس کی علمداری ہے جبکہ پاکستان کو یہی ظالمانہ نظام مکمل طور پر اپنے خونخوار  پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے 


  ہما را حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سیاسی  اور مذہبی  اکابرین بھی جاگیر داری سسٹم کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں جن میں نوابزادہ  خان لیاقت علی خان'مولانا مودودی 'میاں ممتاز دولتانہ'اور دیگر بڑوں   کا کہنا ہے کہ زمین کی   ملکیت قائم و ثابت ہونے کے لیے مقرر ہیں ان ساری شکلوں کے مطابق زمین بھی اسی طرح ایک آدمی کی ملکیت ہو سکتی ہے جس طرح کوئی دوسری چیز، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ایک گز مربع سے لے کر ہزار ہا ایکڑ تک خواہ کتنی ہی زمین ہو، اگر کسی قانونی صورت سے آدمی کی ملک میں آئی ہے تو بہرحال وہ اس کی جائز ملک ہے۔ اس کے لیے خود کاشت کرنے کی قید بھی نہیں ہے جس طرح مکان اور فرنیچر کرائے پر دیا جاسکتا ہے اور تجارت میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین بھی کرائے پر دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی شرکت کے اصول پر زراعت ہوسکتی ہے۔ بلاکرایہ کوئی شخص کسی کو دے، یا بٹائی لیے بغیر کسی کو اپنی زمین میں کاشت کرلینے دے تو یہ صدقہ ہے، مگر کرایہ و لگان(۱) یا بٹائی پر معاملہ طے کرنا ویسا ہی ایک جائز فعل ہے جیسے تجارت میں حصہ داری یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینا۔ رہیں ’’نظام جاگیرداری‘‘ کی وہ خرابیاں جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں تو نہ وہ خالص زمینداری کی پیداوار ہیں اور نہ ان کا علاج یہ ہے کہ سرے سے زمین کی شخصی ملکیت ہی اڑا دی جائے، یا اس پر مصنوعی حد بندیاں عائد کی جائیں                                                                                              


 1949ء میں پاکستان مسلم لیگ نے پانچ رکنی زرعی کمیٹی بنائی جس کے صدر میاں ممتاز دولتانہ تھے اور اراکین میں شامل تھے بیگم شاہنواز، خان عبدالقیوم خاں  قاضی محمد عیسیٰ اور حاجی علی اکبر۔ یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مغربی پاکستان کے نمایاں اور بڑے زمیندار خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کا شجرہ نسب 1857ء سے پہلے کے زمانے تک جاتا ہو۔ وہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ انکی جاگیریں اور زمینداری کلی طور پر انگریز راج کی نوازشات کا نتیجہ ہیں۔ الٰہی بخش ایک ایسا ہی کر دار ہے ۔ "Chiefs and Families of Noble in Punjab"میں اس کا تفصیلی تعارف موجود ہے ۔ 1857ء کے ’’غدر‘‘محاصرے میں وہ  دہلی  میں رہتے ہوئے  انگریزوں کو  انقلابیوں کی مکمل تفصیلات فراہم کر  نے پر مامور تھے -اپنی ان خدمات عالیہ کئ عوض 22830/-روپے سالانہ پنشن موروثی سے نوازا گیا۔ ان کے خاندان کو دہلی اور میرٹھ کے اضلاع میں کئی گائوں اور دیہات کے لگان اور موروثی ملکیت عطا کی گئی ۔ انہیں  آنریری مجسٹریٹ بھی بنایا گیا۔ ان کا ایک تعارف اور بھی تھا کہ  وہ حاجی اور حافظ قرآن بھی  تھے   ۔ لیاقت علی خاں جاگیردار طبقے کے نمائندے  اور محافظ بھی مانے جاتے تھے -حالانکہ انکا اپنا طرز زندگی بہت سادہ تھا -میاں ممتاز دولتانہ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ اپنے لوگوں کے لئے اسکول کیوں نہیں بناتے ہیں تو دولتانہ مرحوم نے جواب دیا تھا کہ اگر میں ان کے لئے اسکول بنا دوں تو ہماری زمینوں پر کام کون کرے گا  تو جناب یہ ہے ہمارا اور آپ کا پیارا پاکستان '


    ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔افسوس ہمارے سیاستدانوں نے اس کو 76سالوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے مقروض بنا دیا ہے اور عوام ہر 5سال کے بعد ان کو دوبارہ ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرکے پھر پچھتاتے ہیں ۔وہی سیاستدان آپس میں گٹھ جوڑکرکے دوبارہ نئے نئے طریقوں سے لوٹنے لگ جاتے ہیں ۔ہندوستان  میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کرپشن کی سطح ہم سے بہت کم ہے ۔اس کے برعکس وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے عوام پڑھے لکھے ہوچکے ہیں وہ اب ان سیاستدانوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں ۔سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے ہندایک دن بعد آزاد ہونے کے باوجود ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔جبکہ   پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ جاگیرداری کے خلاف کوئی قانون تو بہت بڑی با ت ہے زرعی ٹیکس لگانے کی بھی  جسارت  نہیں کر سکتی ہے


    ہندوستان  کی معیشت کو سنبھا لا دینے  میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن  کے ساتھیوں  نے بنیادی کردار صرف جاگیرداری کو ختم کرکے انجام دیا تھا جس کے باعث عوام میں تعلیم کا شعور پیدا ہوا،غربت بھی ہم سے کم سطح پر  ہے لیکن   افسوس ہمارے ملک سے جاگیر داری کو ختم کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے  کا گھناؤنا کردار آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے 70فیصد یعنی 2تہائی عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔اکثریت 76سال گزرنے کے بعد بھی گائوں ،دیہاتوں میں رہتی ہے اور یہی جاگیردار اُن سے اپنے مرضی سے ووٹ ڈلواکر اپنی بالادستی کو ثابت کرکے اس قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور جس نے بھی ان جاگیرداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی تو پورے ملک کے ہر صوبے سے انہوں نے مل کر اس کوشش کو ناکام بناکر نظام کو نہیں بدلنے دیا ۔یہی عوام کے تباہی کے ذمہ دار ہیں اور ان کو جاہل رکھ کر ان پر حکومت کررہے ہیں ۔

پاکستان پائیندہ باد


پیر، 14 اکتوبر، 2024

گریٹ رومن ایمپائر 'غلام کالونی پارٹ-2

    بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے

-اب دوسری قسط یہاں سے پڑھیئے۔جب تھوڑی دیر گزر گئی اور کچھ بھی نہ ہوا تو اینڈروکلس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شیر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر لیٹا ہوا بے چارگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اینڈروکلس کو حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حوصلہ بھی ہوا اور وہ ہمت کرکے شیر کی طرف کھسکنے لگا۔ نزدیک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ شیر نے اپنا ایک پنجہ آگے کو کیا ہوا ہے اور اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبھا ہوا ہے۔ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا اور یقینا شکار تک کرنے سے قاصر تھا۔ اینڈروکلس کا دل ہمدردی سے بھر آیا اور اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہاتھ بڑھا کر شیر کے پاؤں میں سے اس کانٹے کو باہر نکال کر شیر کو اس اذیت سے نجات دلادی جو وہ نہ جانے کب سے جھیل رہا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا ملنے پر شیر اینڈروکلس کو ممنون نظروں سے دیکھنے لگا-    

اس طرح اینڈروکلس اور شیر کی دوستی ہوگئی اور وہ دونوں آرام و سکون سے مل جل کر غار میں رہنے لگے۔ اسی طرح تین برس گزرگئے۔ بالآخر ایک دن اینڈروکلس نے فیصلہ کیا کہ اتنا طویل عرصہ گزرچکا ہے اب تک یقینا اس کا آقا اسے بھول گیا ہوگا۔ اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر پہنچ کر ابھی وہ بازار میں گھوم پھر ہی رہا تھا کہ ناجانے کیسے بازار میں گشت کرتے سپاہیوں کے ایک دستے کو اس پر شک گزرا۔ جب سپاہیوں نے اس سے اس کی شناخت طلب کی تو اینڈروکلس گھبرا گیا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو سپاہیوں کو یقین ہوگیا کہ وہ کوئی مجرم ہے۔ سپاہیوں نے تعاقب کرکے اس کو پکڑلیا۔ پکڑے جانے پر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی پشت پر داغی جانے والی مہر غلامی نے سارا راز فاش کردیا اور پتا چل گیا کہ وہ ایک مفرور غلام ہے۔ سپاہیوں نے اسے حوالۂ زنداں کیا جہاں اسے  موت کی سزا سنا دی گئی۔

اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کرکے اسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ ایک جانب تو اینڈروکلس قید خانے  میں پڑا اپنی زندگی کے دن گن رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ کے شکاری جنگل میں جال لگا کر ایک نیا شیر پکڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ آخر کار ان کی مراد بر آئی اور ان کے جال میں ایک تندرست و توانا شیر پھنس گیا۔ شیر کو شہر لایا گیا اور تین دن تک اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ تین دن بعد بادشاہ کے حکم سے سزائے موت کے مجرم  کی سزا پر عمل درآمدکرنے کے اعلان کی شہر بھر میں منادی کروادی گئی۔

مقررہ دن ساری خلقت اسٹیڈیم میں اس انسانیت سوز نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ سپاہی قید خانے سے اینڈروکلس کو کھینچتے ہوئے اسٹیڈیم کے بیچ بنے میدان نما حصے میں لے آئے اور پھر ایک جانب رکھے شیر کے پنجرے کو کھول دیا۔ بھوک سے بے تاب درندہ ایک غضبناک دھاڑ کے ساتھ اچھل کر پنجرے سے باہر آیا اور لاغر و ناتواں اینڈروکلس کی طرف لپکا۔ لیکن پھر سب لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر جیسے ہی اینڈروکلس کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اسے سونگھنے لگا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور بادشاہ بھی انتہائی حیرت سے اینڈروکلس کے قدموں میں بیٹھے شیر کو اس کے پاؤں چاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ وہی شیر تھا جس کے پیر سے اینڈروکلس نے کانٹا نکالا تھا۔ ایک انسان کے احسان کو یاد رکھنے کی یہ   انوکھی سچی کہانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا   -بادشاہ اور اینڈروکلس کا آقا بھی  اس منظر سے بہت متاثر ہوئے اور اینڈروکلس کو رہائی کے ساتھ غلامی سے بھی ہمیشہ کے لئے آزاد کر دیا -غلام کے اس کردار کو دنیا میں بہت لوگوں نے اپنی کہانیوں کا کردار بنایا ہے

 میں نے  یہ تحریر  ایکسپریس نیوز سے عاریتاً لے کر اپنے بلاگ پر لکھی ہے  -بازنطینی سلطنت میں 1022ء میں اس ظالمانہ رسم کا خاتمہ ہو گیا    

اتوار، 13 اکتوبر، 2024

گریٹ رومن ایمپائر'غلام کالونی -پارٹ-1

  عظیم  رومن   ایمپائر  عبرت ناک زوال سے کیونکر دوچار ہوئ-زوال یافتہ جمہوریہ رومن ایمپائر کا اصل چہرہ  دیکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ رومن دربار میں سیاست سفاکانہ تھی۔ کلاڈئیس اور میسالینا کو معلوم تھا کہ اگر  کلاڈئیس شہنشاہ نہ رہے تو انکی اور ملکہ کی موت یقینی ہے۔ اسی لیے وہ اقتدار سے چمٹے رہے،  ۔‘کلاڈئیس اور میسالینا اپنی پوزیشن کے فوری خطرات سے بہت باخبر تھے، کیونکہ انھوں نے اپنے پیشروؤں کو شاہی محل میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا۔‘کارگل مارٹن نے بتایا کہ ’کیلیگولا کو اس وحشیانہ انداز میں مارا گیا کہ یہ افواہیں تھیں کہ لوگوں نے اسکے گوشت کے ٹکڑے کھائے تھے، اور اس کے ساتھ، انھوں نے اس کی بیوی اور جوان بیٹی کو بھی مار ڈالا تھا کیونکہ انھیں مستقبل میں ممکنہ خطرات کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔س حقیقت کے باوجود کہ میسالینا کا تعلق اس وقت کے سب سے معزز اور امیر خاندانوں میں سے ایک سے تھا، اس بات کا دور تک امکان نہیں تھا کہ وہ ملکہ بن جائیں گی۔کلاڈیئس بیمار، لنگڑے، ہکلانے والے، ناخوشگوار، عجیب و غریب اور روکھے انسان تھے۔


ایک طویل عرصے تک انھوں نے خود کو تاریخ کی کتابیں لکھنے کے لیے وقف کر دیا اور اقتدار سے باہر رہے یہاں تک کہ ان کے بھتیجے، شہنشاہ کیلیگولا نے انھیں قونصل اور سینیٹر مقرر کیا۔24 جنوری 41 کو کیلیگولا کے قتل کے بعد غیر متوقع طور پر اقتدار ہاتھ میں آیا تو ایک سپاہی نے کلاڈیئس کو محل میں کانپتے ہوئے پایا۔ اگلے دن انھیں پریٹورین گارڈ (شاہی خاندان کے دستے) نے شہنشاہ بنا دیا- یعنی رومنایمپائر اب شاہانہ سطوت سے نکل کر اپنی بقا ءکے لئے سازشوں کی بیساکھیوں پر لڑکڑا رہی تھی اور اس کی بیساکھیاں بے رحم  'جنسی بے راہ رو 'اقتدار کی بھوکی ملکہ  مہارانی والیریا میسالیناکے بازوّ ں میں تھیں ۔جو اپنے بادشاہ مجہول شوہر بادشاہ کو سہارا دئے کھڑی تھیں -ان دنوں کے بارےمیں بتایا جاتا ہے کہ اس سنگدِل سیاست کی غلام گرشوں میں  مشکوک اموات  ہونا عام بات تھی جس کے اوپر کوئ انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا اور اعلی درجے کی سازشوں کی اس دنیا میں   ملکہ  کی بدنام زمانہ شہرت نمایاں  نظر آتی تھی جب بھی نیکی اور دیانت کی جگہ ذاتی مفادات اور خواہشات آجائیں تو اس سے قومی کردار کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا بھی مخالف تھا کہ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ رہے اور دوسرے باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملیں۔ اس کی مثال وہ ریپبلکن دور میں خاندانی امراء اور بہادر طبقے سے دیتا تھا۔Marius جو Plebian یا عوام کا نمائندہ تھا اور بطور رومی جنرل اس نے کئی کارنامے سرانجام دیے تھے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی عظمت کی نشانی خاندانی شجرے نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جو اس کے سینے پر ہیں۔


روم کی عظیم سلطنت  زوال کی جانب  جاتے ہوئے  ایک مورخ لکھتا ہے کہ ان  دنوں میں ایمپائر میں  ’’اینڈروکلس‘‘ (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتاتو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔اس ماحول میں اینڈروکلس کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آچکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آکر وہاں سے فرار ہوجانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاؤں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا توتمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر شومئی قسمت غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک   سزائیں دی جاتیں جودوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل  میں نہیں لائیں 

 



یہ سب باتیں جاننے کے باوجود اینڈروکلس نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ اینڈروکلس نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہوگئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر اینڈروکلس وہاں سے فرار ہوگیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جاچھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔اس نے پناہ حاصل کرنے اورچھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی کمین گاہ تھی۔ ابھی اینڈروکلس ک غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ اینڈروکلس نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک قوی الجثہ شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر اینڈروکلس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے اینڈروکلس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مصیبت ٹل نہیںجاتی۔ بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے۔


جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

عور ت کی تعلیم اور محبت کے سلوک کا خواہاں مصنف-سید سجاد حیدر یلدرم

 اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا سید سجاد حیدر یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان  میںسید سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا-سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ اور ابتدائی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ یہاں ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1893 میں سر سید احمد خان کے اسکول مدرستہ العلوم علی گڑھ کی نویں جماعت میں داخلہ لیا یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ بی اے کرنے کے بعد انھیں ناگپور کے حکمران اعظم شاہ کا اتالیق مقرر کر دیا گیا کچھ عرصہ بعد انھیں حکومت وقت نے مزید تعلیم کے لیے دوبارہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا


یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انھوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔   تعلیمی مدارج  طے کرتے ہوءے بالآخر انہوں نے علی گڑھ  کی مایہ ناز درس گاہ  پر قدم رکھ دیا - ء با امر مسلمہ ہے کہ یلدرم کو اردو افسانے میں اولیت کا شرف حاصل ہے وہ رومانی دبستان کے سرخیل ہیں اور ان کی بنائی ہوئی راہ پر چل کر معروف و نامور ادیبوں نے اردو افسانے میں اپنے شاہکار پیش کیے۔


اردو افسانوی ادب میں ان ادیبوں کے بیش بہا فن پاروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ فن اور اسلوب کے لحاظ سے ان کے افسانے رومانی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اردو افسانے کی ترقی و فروغ میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ابتداً اردوافسانے کی دلچسپی انہی (یلدرم کے مقلد افسانہ نگاروں ) کی مرہون احسان ہے۔ رومانوی افسانہ نگاروں نے ایک تو افسانے کو مقبو ل عام بنانے میں بڑی خدمت انجام دیں اور دوسرے انہوں نے تخیل کی فسوں کاریو ں سے جذبات محبت کو اتنے رنگین انداز میں افسانے کا موضوع بنایا کہ نئی نسل دل و جان سے افسانے میں دلچسپی لینے لگی۔ اس طرح جہاں افسانہ مقبول ہوا وہاں نئے افسانہ نگار میدان میں اترے ۔دبستان یلدرم کے افسانہ نگاروں نے اردو میں مختصر افسانے کے امکانات کو وسعت اور وقعت دی۔ منظر نگاری ، مکالمہ نویسی اور وحدت تاثر افسانے کی فنی خصوصیات ہیں اور یلدرم نے اردو افسانہ کے ان عناصر پر بہت توجہ دی اور یلدرم کے دبستان سے متعلق لکھنے والے رومانوی افسانہ نگاروں نے ان ابتدائی نقوش کی روشنی میں بڑے خوبصورت اور جاذب نظر افسانے لکھے بقول ایک نقاد:یلدرم کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے افسانے کے ابتدائی خدوخا ل راست کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔


 ان کے افسانے سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی پڑھے جائیں تو تاثیر کے اعتبار سے و ہ قاری کی توجہ جذب کرنے میں قاصر نہیں رہتے۔افسانوں کا بنیادی موضوع:۔یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فار غ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے ۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدتاور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس سب کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا واسطہ بھی ہو۔ محض خیالی اور خوب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اور اپنے مزاج کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ، یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔عورت:۔یلدرم نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ اور اس کا یہ پہلو کہ عورت ، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے ¿ جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔


 یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں ،لطافت اور زندگی کے صحت مند تصور کی علامت ہے۔یلدرم کے ا س نقطہ نگاہ سے تین باتیں پیدا ہوتی ہی۔ مرد اورعورت کے باہمی تعلق میں سچی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کہ عورت اورمرد کی سچی محبت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔جب ہم یلدرم کے افسانوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں یہ تینوں چیزیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے پہلے افسانے ”خارستان و گلستان “میں فطرت کے جذبوں اور مرد اورعورت کے درمیان تعلق کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ یلدرم کہتے ہیں  عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپٹ کر اسے تازگی ، اسے زینت بخش دیتی ہے۔ یلدرمؔ کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ انہوں نے تراجم کے ذریعے اردو ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ مختلف ملازمتوں کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ آخرکار لکھنؤ میں اقامت اختیار کی۔ یہیں 1943ء میں وفات پائی۔

بدھ، 9 اکتوبر، 2024

جنتر منتر-ستاروں سے آ گے جہاں اور بھی ہیں پارٹ 2

 


’ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی اینٹی یونیورس: ہماری کائنات کے ساتھ وجود میں آنے والی کائنات جہاں وقت الٹا چلتا ہےریکارڈ فاصلے پر واقع ستارے کی دریافت، جو سورج سے بھی ’50 گنا زیادہ بڑا ہے‘نئی خلائی دوربین جیمز ویب کیا کائنات کی اولین کہکشاؤں سے پردہ اٹھا سکے گی؟سٹی پیلس میں مہاراجہ سوائی مان سنگھ دوم میوزیم کی ماہر آثار قدیمہ اور کنسلٹنٹ ڈائریکٹر ریما ہوجا کا کہنا ہے کہ ’یہ نندی ودا رتنا شری ہی تھیں جنھوں نے جنتر منتر کو سائنسی برادری میں اجاگر کیا۔ انھوں نے جنتر منتر جے پور کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹ کے طور پر تسلیم کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘جنتر منتر نہ صرف اپنی تعمیرات کے لیے بلکہ اپنے کلاسیکی انداز کے لیے بھی شہرت حاصل کر رہا ہے۔


جے پور میں مقیم ایک کنزرویشن آرکیٹیکٹ کویتا جین کہنا ہے کہ ’بظاہر جنتر منتر شاید کسی قدیمی مقامی فن تعمیر کی طرح نظر نہ آئے لیکن جب آپ اسے قریب سے دیکھتے ہیں، تو اونچے اونچے سن ڈائلز کو محراب کی شکل میں خالی جگہ بنا کر مضبوط بنایا گیا ہے۔ ان آلات پر سب سے بلند سجی محراب، تعمیر میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر اور پتھر سبھی مقامی تعمیراتی اقدار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔‘آج دنیا بھر میں بہت سے شعبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ، سائنسدان اور سیاح سمجھتے ہیں کہ جے پور کا جنتر منتر ایک تاریخی یادگار سے کہیں زیادہ ہے۔قلعوں اور محلات کے قدیم شہر کے مرکز میں واقع اس کے دیوہیکل ڈھانچے کائنات کا عکس اور ایک دیرپا میراث ہیں - ماہر فلکیات ابن یونس نے اپنی الزیج الحا کمی اسی رصد گاہ میں تیار کی تھی۔الجیلی (971ء تا1029ء ) نے شرف الدولہ کی قائم کردہ رصد گاہ میں ایک ہزار عیسوی میں ایک کتاب اصطرلاب پر تحریر کی۔ اسی رصد گاہ میں الصغانی اور رستم الکوہی آلات فلکیات بنانے میں کافی مشہور ہوئے۔الحاکم اور العزیز نے مقتم کی رصد گاہ کو آلات رصد سے آراستہ کیا اس میں ابوالحسن علی نے977ء تا 1007ء تک تجربات کئے۔ ابو الحسن کو شیار ابن کنان الجیلی نے بھی ایک رصد گاہ قائم کی جس میں اس نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج الجامع والسامع‘‘ تصنیف کی۔988ء میں شرف الدولہ نے شاہی باغ میں ایک رصد گاہ تعمیر کروائی تھی جس میں ابوسہل ریحان بن رستم الکوہی اور ابوالوفا نے عرصہ دراز تک حرکات کواکب سے متعلق مشاہدات کیے۔


البیرونی نے ایک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کروائی تھی اور یہاں وہ مشاہدات اور تجربات میں مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ 410ھ تک ہی غزنی میں رہا‘ اس لئے اس کی تعمیر اس سنہ سے پہلے ہی ہوئی ہو گی۔  البیرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رصد گاہ غزنی میں واقع تھی۔1259ء میں یورپ کی پہلی رصد گاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مراغہ میں 1259ء میں بے بہا آلات رصدیہ سے آراستہ ایک رصد گاہ تعمیر کروائی جس میں ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جو چار لاکھ سے زائد نادر کتابیں سے آراستہ تھی۔ اس رصد گاہ سے فائدہ اٹھا کر ہی خواجہ ناصر الدین طوسی نے ایک ’’زیج ایلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگرد قطب الدین محمد شیرازی نے بھی اس رصد گاہ میں مشاہدات اور تجربات کئے۔823ء میں سمر قند میں تیموری خاندان کے سلطان الغ  یبگ نے ایک عظیم الشان رصد گاہ تعمیر کرائی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ اس نے کئی سال تک رصد گاہ مذکورہ میں تجربات اور مشاہدات میں حصہ لیا۔


بعدازاںعلم فلکیات نے ترقی کی تو دنیا بھر میں میں ہزاروں رصد گاہوں کا قیام عمل میں آیا جن کے ذریعے قدرت اور کائنات کے رازوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انسان نے فلکیات میں جو ترقی کی ہے ان میں رصد گاہوں کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ آنے والے وقت میں رصد گاہوں کے ذریعہ بہت سے نئے انکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے رصد گاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا۔ انہوں نے اس بارے میں تقریر میں کہا تھا: ’’ہماری رصدگاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلوؤں کی طرف کھنچنے کا وسیلہ ہیں۔ میں ان رصد گاہوں کو اس نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں بلکہ ان کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو انسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان رصد گاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو ایک حد تک حل بھی کیا ہے۔ تمام رصد گاہوں میں تحقیقی کام آج تک ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ 


علم الافلاک کی بنیاد انسانی زندگی کے آغاز پر منحصر ہے۔ انسانی عقل کے ارتقاء نے اجرام فلکی اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا تجسس پیدا کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے انسان نے رصد گاہیں ایجاد کیں۔ دور حاضر میں علم الافلاک کو فروغ دینے میں رصد گاہوں کا اہم مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا ارتقاء رصد گاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کے الگ الگ خطوں میں تعمیر کردہ رصد گاہوں میں آج بھی مشاہد ے اور تجربے کئے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں رصد گاہ بنانے کا کام راجا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی تعمیر کردہ رصد گاہ کو جنتر منتر کہتے ہیں۔ جے سنگھ اپنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے رصد گاہ کی عمارت میں چند الواح تیار کی تھیں جن کا استعمال اہل ہند آج بھی جنتریاں تیار کرنے میں کرتے ہیں۔ اس رصد گاہ میں ایک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ دار نصف دائرے کی شکل کی ہے یہ ان اجرام فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت الراس کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف النہار میں سے ہو کر گزرتا ہے۔



منگل، 8 اکتوبر، 2024

جنتر 'منتر-ستاروں سے آ گے جہاں اور بھی ہیں-part-1

 میں رصد گاہوں کے اوپر  کچھ علم حاصل کرنا چاہ رہی تھی کہ  اچانک  جنتر 'منتر نام کی یہ تحریر نظر آئ اور میں اسی تحریر پر ٹہر گئ کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے مزاج کی مطابقت کا مضمون یہی ہے -یہ مضمون  اس بیٹی نیہا شرما  کا  تحریر کیا ہوا ہے جس نے سردی گرمی کی پرواہ نا کرتے ہوئے   راجستھان یونیورسٹی سے جیوتش شاستر (ویدک علم نجوم) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہےسنسکرت میں جنتر کا مطلب ہے آلات اور منتر کا مطلب کیلکولیٹر ہےجنتر نام سنسکرت کے لفظ ینتر سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "آلہ، مشین" اور منتر سے بھی ایک سنسکرت لفظ "مشورہ، حساب لگانا")۔  اس لیے جنتر منتر کا لفظی مطلب ہے 'حساب  کا آلہ .ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی 


نیہا شرما  لکھتی  ہیں کہ یہ موسم بہار کی ابتدا کے ایک ہفتے بعد ہی  کی ایک گرم دوپہر تھی اور آسمان سے بادل غائب تھے۔ راجستھان کے صحرائی دارالحکومت جے پور میں سیر و تفریح کی غرض سے نکلنے کے لیے یہ شاید ایک نامناسب وقت ہو لیکن سورج کی وجہ سے بننے والے سائے کی مدد سے وقت کی پیمائش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین وقت تھا۔میں شہر کے مرکزی ’جوہری بازار‘ کی مرجان رنگ کی دیواروں اور مغلیہ محرابوں کے سائے سے گزرتی ہوئی ’جنتر منتر‘ کی طرف بڑھی جسے ستاروں تک پہنچنے کا پراسرار راستہ کہا جاتا ہے۔پہلی نظر میں عجیب و غریب مثلث دیواروں اور سیڑھیوں سے بھرا ہوا یہ کھلا ہوا کمپلیکس ایک اجنبی سی جگہ نظر آتا ہے۔ یہ نہ تو سٹی پیلس کی طرح آراستہ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور نہ ہی قریب واقع گووند دیو جی مندر اور ہوا محل کی طرح پر پیچ ہے۔یہ جگہ ینتر کہلانے والے 20 سائنسی آلات کا 300 سال پرانا مجموعہ ہے جن کی مدد سے ستاروں اور سیاروں کے محلِ وقوع کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور وقت کی درست پیمائش کی جا سکتی ہے۔


یہ وہ دیو ہیکل آلات ہیں جو چھوٹی صورتوں میں میرے سکول کی جیومیٹری کٹ میں رکھے تھے لیکن برسوں بعد ایک پیشہ ور آرکیٹکٹ کے طور پر میں ان کے استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں۔یہ فلکیات کے نظام کو سمجھنے کے لیے شاندار تعمیراتی حل ہیں، مزید یہ کہ ہندو جوتشیوں کے لیے پیدائش کے چارٹ تیار کرنے اور مبارک تاریخوں کی پیشگوئی کرنے کے لیے اہم آلات ہیں۔سنہ 1727 میں جب اس خطے کے بادشاہ سوائی جے سنگھ نے سوچا کہ جے پور کو اپنے دارالحکومت اور ملک کے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائے جانے والے شہر کے طور پر بسایا جائے تو وہ اسے واستو شاستر کے اصولوں کی بنیاد پر ڈیزائن کرنا چاہتے تھے۔ واستو شاستر میں فن تعمیر اور جگہ کے انتخاب کے لیے فطرت، علمِ فلکیات اور علم نجوم کا استعمال کیا جاتا ہےانھوں نے محسوس کیا کہ جے پور کو ستاروں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے، علم نجوم کے طریقوں میں مدد کرنے اور فصلوں کے لیے اہم موسمی واقعات کی پیشگوئی کرنے کے لیے اُنھیں ایسے آلات کی ضرورت ہو گی جو درست اور قابل رسائی ہوں۔’میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘ 


،سمراٹ ینتر سورج کی پوزیشن بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو 27 میٹر تک اونچا ہے-تاہم اسلامی اور یورپی سائنسدانوں کے علم پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے وسطی ایشیا اور یورپ میں تحقیقی ٹیمیں بھیجنے کے بعد سوائی جے سنگھ نے پیتل کے آلات کی ریڈنگ میں تضاد پایا جو اس وقت بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے تھے۔درستگی کو بڑھانے کے لیے انھوں نے آلات کا حجم بڑھایا، انھیں مزید مستحکم بنانے کے لیے متحرک پرزوں کو کم کیا اور اُنھیں گھساؤ سے بچانے کے لیے اُنھیں ماربل اور مقامی پتھر سے ترشوایا تاکہ یہ موسم کی سختیاں برداشت کر سکیں۔پھر انھوں نے ان ایجادات کو ہندوستانی شہروں جے پور، دہلی، اجین، وارانسی (بنارس) اور متھرا میں پانچ بیرونی رصد گاہیں بنانے کے لیے استعمال کیا۔اب صرف چار جنتر منتر بچے ہیں (متھرا والے کو منہدم کر دیا گیا تھا) لیکن جے پور میں سنہ 1734 میں مکمل ہونے والا جنتر منتر سب سے بڑا اور جامع ہے۔آج یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والی جگہوں میں سے ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کی سب سے بہترین محفوظ رصد گاہ تھی بلکہ یونیسکو کے مطابق یہ فن تعمیر، علمِ فلکیات، اور علمِ کائنات میں ایجادات کی نمائندگی کرتا ہے، اور ساتھ ساتھ یہ مغربی، وسط مشرقی، ایشیائی اور افریقی ثقافتوں کی روایات اور ان سے سیکھے گئے علوم کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔


،  کمپلیکس میں ہر ایک ینتر یا آلے کا ایک ریاضیاتی مقصد ہے۔ان میں سے کچھ سن ڈائل ہیں جو سائے کی مدد سے مقامی وقت بتانے اور سورج کی پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ دوسرے آلات بروج اور سیاروں کی حرکات اور پیش گوئیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ان سب میں سب سے نمایاں ایک بہت بڑا مساوی سن ڈائل ہے جسے سمراٹ ینتر کہا جاتا ہے۔سنجے پرکاش ینتر سورج کی ہندوستانی ویدک بروج میں موجودگی کا پتا لگاتا ہے تاکہ زائچہ بنایا جا سکے-ایک 27 میٹر اونچی تکونی دیوار ہے جس میں دو پتلے، نیم دائرے کی شکل کے ریمپ ہیں جو اس کے اطراف سے پروں کی طرح نکلتے ہیں۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر میرے گائیڈ نے ریمپ میں سے ایک پر سائے کی نشاندہی کی کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 1 ملی میٹر حرکت کرتا ہے اور مقامی وقت کی دو سیکنڈ درست حد تک نشاندہی کرتا ہے۔جے پرکاش نامی ایک اور ینتر انڈین ویدک بروج سے سورج کے راستے کی پیمائش کرتا ہے جس سے زائچہ نکالا جا سکتا ہے۔ زمین میں نصب اس کا پیالے کی شکل کا ڈھانچہ آسمان کے ایک الٹے نقشے کی طرح ہے اور تاروں سے لٹکی ایک چھوٹی سی دھات کی پلیٹ کا سایہ کسی منتخب ستارے یا سیارے کی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘ 


پیر، 7 اکتوبر، 2024

نیند میں چلنے کی بیماری اور اس کے اثرات

 ابھی     حال ہی میں انٹر نیٹ پر ایک خبر پر  نظر پڑی کہ گھر میں سوتے ہوئے   تقریباً بارہ برس کی بچی رات کے وقت غائب ہو گئ تلاش کرتے ہوئے جب ڈرون کی مدد لی گئ تو  ڈرون کو  جنگل کی زمین پر ایک ہیولہ نظر آیا -جب اس ہیولے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ کھوئ ہوئ بچی جنگل کی زمین پر سوئ ہوئ تھی- یعنی وہ بچی سوتے میں چلنے کی بیماری کا شکار تھی -میڈیکل  تحقیق  سے معلوم ہوا کہنیند میں چلنے کی بیماری کا تعلق کروموسومز کے نقص سے ہوتا ہے-نیند میں چلنے والوں کی چار نسلوں کے کروموسومز یا لونیے کے   میں کی جانے والی طبی   ریسرچ کے نتائج  نے بتایا  کہ  ان مریضوں میں  کروموسوم 20 کا نقص پایا جاتا ہے۔طبی سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے ایسے جینیاتی ضوابط کا پتہ لگایا ہے، جو انسانوں کے نیند میں چلنے کی بیماری کا موجب ہوتے ہیں۔جرنل آف نیورولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جسم کے اندر کسی ایک ناقص ڈی این اے کی موروثی طور پر موجودگی نیند میں چلنے کی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ 


یہ جینز 10 فیصد بچوں جبکہ 50 بالغ افراد میں سے غالباً ایک کو مثاثر کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر نیند میں چلنے کی بیماری بے ضرر ہوتی ہے اور یہ بڑھ سکتی ہے۔کروموسوم 20 کا نقص نیند میں چلنے کی بیماری کا سبب بنتا ہے-بچوں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں ایسے دَور آتے ہیں، جب وہ نیند میں عالم وجد یا مدہوشی میں چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ محققین نے کہا ہے کہ نیند میں چلنے کی بیماری اگر سن بلوغت تک برقرار رہے تو یہ معمول کی زندگی کے لئے کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔نیند میں چلنے والوں کی خطرناک سرگرمیاںنیند میں چلنے والے اکثر گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر کا دروازہ کھول لیتے ہیں اور گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیونگ کی کوشش کر تے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے سنگین کیسز بھی سامنے آئے ہیں، جن میں نیند میں چلنے والے کسی کا قتل کر دیتے ہیں۔ تاہم ایسے واقعات کافی کم رونما ہوتے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ وجد یا مد ہوشی کے عالم میں چلنے کی بیماری کی وجہ عموماً بہت زیادہ تھکاوٹ اور دباؤ بنتی ہے۔


 نیند میں چلنے کا عمل عموماً رات کے پہلے پہر دیکھنے میں آتا ہے۔ بستر پر لیٹتے ہی گہری نیند سونے والے ایسے مریض جنہیں خواب نہیں آتے، وہ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد ہی اُٹھ کر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح جب یہ افراد بیدار ہوتے ہیں تو انہیں رات کے واقعات بالکل یاد نہیں رہتے۔امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی آف میڈیسن سے منسلک ڈاکٹر کرسٹینا گورنیٹ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی اس تحقیق کے لئے نیند میں چلنے کے عادی افراد کی ایک بڑی فیملی کی مدد لی اور اس پر ریسرچ کی۔اس خاندان کی سب سے چھوٹی  12 سالہ بچی، سب سے زیادہ اس بیماری کا شکار ہے۔ یہ اکثر و بیشتر نیند سے اُٹھ کر چلنا شروع کر دیتی ہے اورچلتے چلتے گھر سے باہر چلی جاتی ہے۔ اس گھرانے میں چار نسلوں سے یہ بیماری چلی آ رہی ہے۔ اس 22 رکنی فیملی کے نو ممبر اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے ایک  اسکے چچا ہیں، جو رات کو اُٹھ کر آٹھ جوڑے موزے ڈھونڈ کر پہن لیتے ہیں جبکہ ان کے دیگر رشتہ دار رات کو نیند سے اُٹھ کر چلنے کے دوران اکثر کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر بھی جاتے ہیں اور انہیں اکثر زخم آتے ہیں۔


رات کی نیند میں خلل کی وجہ سے دن بھر تھکن طاری رہتی ہے: محققین نے اس پوری فیملی کے ممبران کے لعاب کے سیمپل لیے اور ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔ اس سے پتہ چلا کہ اس پورے خاندان میں یہ موروثی بیماری کروموسوم 20 کے نقص کے سبب پائی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ تحقیق سے محققین نے یہ بھی پتہ چلا لیا کہ اس خاندان کے چند افراد میں اپنی نئی نسل تک اس بیماری کو پہنچانے کے 50 فیصد امکانات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح خاندان کے جس فرد میں بھی یہ نقص ڈی این اے سے منتقل ہوگا وہ نیند میں چلنے کی بیماری میں مبتلا ہوگا۔محققین ابھی اس بارے میں مزید تحقیق کر رہے ہیں تاہم اب تک کی ریسرچ کے بعد ان کا خیال ہے کہ غالباً Adenosine Deminase وہ جین ہے جو اس بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ ڈاکٹر کرسٹینا گورنیٹ نے تاہم کہا ہے کہ اس امر کے امکانات کافی زیادہ ہیں کہ اس بیماری کا سبب متعدد جینز بھی ہو سکتے ہیں تاہم اب تک ایک کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔


 نیند میں چلنے والا عام طور پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتا ہے اور جب اس سے بات کی جائے تو وہ جواب نہیں دے سکتا۔بیدار ہونے پر الجھن: اگر کسی ایپی سوڈ کے دوران بیدار ہو جائے تو، وہ شخص الجھن میں پڑ سکتا ہے اور پریشان ہو سکتا ہے۔سلیپ واکنگ کی تشخیص نیند میں چلنے کی تشخیص میں عام طور پر ایک مکمل طبی تاریخ شامل ہوتی ہے اور اس میں کئی تشخیصی ٹیسٹ شامل ہو سکتے ہیں:نیند میں چلنے کی تشخیص کے لیے ایک تفصیلی طبی تاریخ بہت ضروری ہے۔ اس میں خاندانی تاریخ، نیند کے نمونوں، اور کسی بھی بنیادی طبی حالات کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔نیند مطال نیند کے دوران دماغی سرگرمی، آنکھوں کی حرکت، دل کی دھڑکن، اور سانس لینے کی نگرانی کے لیے نیند کا یا پولی سونوگرافی کی سفارش کی جا سکتی ہے۔ اس سے نیند کی کسی بھی بنیادی خرابی کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو نیند میں چلنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔



نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر