بدھ، 9 اکتوبر، 2024

جنتر منتر-ستاروں سے آ گے جہاں اور بھی ہیں پارٹ 2

 


’ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی اینٹی یونیورس: ہماری کائنات کے ساتھ وجود میں آنے والی کائنات جہاں وقت الٹا چلتا ہےریکارڈ فاصلے پر واقع ستارے کی دریافت، جو سورج سے بھی ’50 گنا زیادہ بڑا ہے‘نئی خلائی دوربین جیمز ویب کیا کائنات کی اولین کہکشاؤں سے پردہ اٹھا سکے گی؟سٹی پیلس میں مہاراجہ سوائی مان سنگھ دوم میوزیم کی ماہر آثار قدیمہ اور کنسلٹنٹ ڈائریکٹر ریما ہوجا کا کہنا ہے کہ ’یہ نندی ودا رتنا شری ہی تھیں جنھوں نے جنتر منتر کو سائنسی برادری میں اجاگر کیا۔ انھوں نے جنتر منتر جے پور کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹ کے طور پر تسلیم کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘جنتر منتر نہ صرف اپنی تعمیرات کے لیے بلکہ اپنے کلاسیکی انداز کے لیے بھی شہرت حاصل کر رہا ہے۔


جے پور میں مقیم ایک کنزرویشن آرکیٹیکٹ کویتا جین کہنا ہے کہ ’بظاہر جنتر منتر شاید کسی قدیمی مقامی فن تعمیر کی طرح نظر نہ آئے لیکن جب آپ اسے قریب سے دیکھتے ہیں، تو اونچے اونچے سن ڈائلز کو محراب کی شکل میں خالی جگہ بنا کر مضبوط بنایا گیا ہے۔ ان آلات پر سب سے بلند سجی محراب، تعمیر میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر اور پتھر سبھی مقامی تعمیراتی اقدار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔‘آج دنیا بھر میں بہت سے شعبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ، سائنسدان اور سیاح سمجھتے ہیں کہ جے پور کا جنتر منتر ایک تاریخی یادگار سے کہیں زیادہ ہے۔قلعوں اور محلات کے قدیم شہر کے مرکز میں واقع اس کے دیوہیکل ڈھانچے کائنات کا عکس اور ایک دیرپا میراث ہیں - ماہر فلکیات ابن یونس نے اپنی الزیج الحا کمی اسی رصد گاہ میں تیار کی تھی۔الجیلی (971ء تا1029ء ) نے شرف الدولہ کی قائم کردہ رصد گاہ میں ایک ہزار عیسوی میں ایک کتاب اصطرلاب پر تحریر کی۔ اسی رصد گاہ میں الصغانی اور رستم الکوہی آلات فلکیات بنانے میں کافی مشہور ہوئے۔الحاکم اور العزیز نے مقتم کی رصد گاہ کو آلات رصد سے آراستہ کیا اس میں ابوالحسن علی نے977ء تا 1007ء تک تجربات کئے۔ ابو الحسن کو شیار ابن کنان الجیلی نے بھی ایک رصد گاہ قائم کی جس میں اس نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج الجامع والسامع‘‘ تصنیف کی۔988ء میں شرف الدولہ نے شاہی باغ میں ایک رصد گاہ تعمیر کروائی تھی جس میں ابوسہل ریحان بن رستم الکوہی اور ابوالوفا نے عرصہ دراز تک حرکات کواکب سے متعلق مشاہدات کیے۔


البیرونی نے ایک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کروائی تھی اور یہاں وہ مشاہدات اور تجربات میں مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ 410ھ تک ہی غزنی میں رہا‘ اس لئے اس کی تعمیر اس سنہ سے پہلے ہی ہوئی ہو گی۔  البیرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رصد گاہ غزنی میں واقع تھی۔1259ء میں یورپ کی پہلی رصد گاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مراغہ میں 1259ء میں بے بہا آلات رصدیہ سے آراستہ ایک رصد گاہ تعمیر کروائی جس میں ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جو چار لاکھ سے زائد نادر کتابیں سے آراستہ تھی۔ اس رصد گاہ سے فائدہ اٹھا کر ہی خواجہ ناصر الدین طوسی نے ایک ’’زیج ایلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگرد قطب الدین محمد شیرازی نے بھی اس رصد گاہ میں مشاہدات اور تجربات کئے۔823ء میں سمر قند میں تیموری خاندان کے سلطان الغ  یبگ نے ایک عظیم الشان رصد گاہ تعمیر کرائی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ اس نے کئی سال تک رصد گاہ مذکورہ میں تجربات اور مشاہدات میں حصہ لیا۔


بعدازاںعلم فلکیات نے ترقی کی تو دنیا بھر میں میں ہزاروں رصد گاہوں کا قیام عمل میں آیا جن کے ذریعے قدرت اور کائنات کے رازوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انسان نے فلکیات میں جو ترقی کی ہے ان میں رصد گاہوں کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ آنے والے وقت میں رصد گاہوں کے ذریعہ بہت سے نئے انکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے رصد گاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا۔ انہوں نے اس بارے میں تقریر میں کہا تھا: ’’ہماری رصدگاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلوؤں کی طرف کھنچنے کا وسیلہ ہیں۔ میں ان رصد گاہوں کو اس نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں بلکہ ان کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو انسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان رصد گاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو ایک حد تک حل بھی کیا ہے۔ تمام رصد گاہوں میں تحقیقی کام آج تک ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ 


علم الافلاک کی بنیاد انسانی زندگی کے آغاز پر منحصر ہے۔ انسانی عقل کے ارتقاء نے اجرام فلکی اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا تجسس پیدا کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے انسان نے رصد گاہیں ایجاد کیں۔ دور حاضر میں علم الافلاک کو فروغ دینے میں رصد گاہوں کا اہم مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا ارتقاء رصد گاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کے الگ الگ خطوں میں تعمیر کردہ رصد گاہوں میں آج بھی مشاہد ے اور تجربے کئے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں رصد گاہ بنانے کا کام راجا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی تعمیر کردہ رصد گاہ کو جنتر منتر کہتے ہیں۔ جے سنگھ اپنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے رصد گاہ کی عمارت میں چند الواح تیار کی تھیں جن کا استعمال اہل ہند آج بھی جنتریاں تیار کرنے میں کرتے ہیں۔ اس رصد گاہ میں ایک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ دار نصف دائرے کی شکل کی ہے یہ ان اجرام فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت الراس کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف النہار میں سے ہو کر گزرتا ہے۔



1 تبصرہ:

  1. اولغ بیگ آبزرویٹری 824–1422 کے آس پاس کہیں تعمیر کی گئی تھی۔ مختلف ذرائع مختلف تاریخوں کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم ، بہت سارے ذرائع کے بارے میں 830 کے ارد گرد رصدگاہ کی بنیاد کی تاریخ اور 1422–1428 کی مدت بتائی جاتی ہے جس کے دوران اس نگرانی کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر