میں رصد گاہوں کے اوپر کچھ علم حاصل کرنا چاہ رہی تھی کہ اچانک جنتر 'منتر نام کی یہ تحریر نظر آئ اور میں اسی تحریر پر ٹہر گئ کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے مزاج کی مطابقت کا مضمون یہی ہے -یہ مضمون اس بیٹی نیہا شرما کا تحریر کیا ہوا ہے جس نے سردی گرمی کی پرواہ نا کرتے ہوئے راجستھان یونیورسٹی سے جیوتش شاستر (ویدک علم نجوم) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہےسنسکرت میں جنتر کا مطلب ہے آلات اور منتر کا مطلب کیلکولیٹر ہےجنتر نام سنسکرت کے لفظ ینتر سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "آلہ، مشین" اور منتر سے بھی ایک سنسکرت لفظ "مشورہ، حساب لگانا")۔ اس لیے جنتر منتر کا لفظی مطلب ہے 'حساب کا آلہ ’.ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی
نیہا شرما لکھتی ہیں کہ یہ موسم بہار کی ابتدا کے ایک ہفتے بعد ہی کی ایک گرم دوپہر تھی اور آسمان سے بادل غائب تھے۔ راجستھان کے صحرائی دارالحکومت جے پور میں سیر و تفریح کی غرض سے نکلنے کے لیے یہ شاید ایک نامناسب وقت ہو لیکن سورج کی وجہ سے بننے والے سائے کی مدد سے وقت کی پیمائش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین وقت تھا۔میں شہر کے مرکزی ’جوہری بازار‘ کی مرجان رنگ کی دیواروں اور مغلیہ محرابوں کے سائے سے گزرتی ہوئی ’جنتر منتر‘ کی طرف بڑھی جسے ستاروں تک پہنچنے کا پراسرار راستہ کہا جاتا ہے۔پہلی نظر میں عجیب و غریب مثلث دیواروں اور سیڑھیوں سے بھرا ہوا یہ کھلا ہوا کمپلیکس ایک اجنبی سی جگہ نظر آتا ہے۔ یہ نہ تو سٹی پیلس کی طرح آراستہ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور نہ ہی قریب واقع گووند دیو جی مندر اور ہوا محل کی طرح پر پیچ ہے۔یہ جگہ ینتر کہلانے والے 20 سائنسی آلات کا 300 سال پرانا مجموعہ ہے جن کی مدد سے ستاروں اور سیاروں کے محلِ وقوع کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور وقت کی درست پیمائش کی جا سکتی ہے۔
یہ وہ دیو ہیکل آلات ہیں جو چھوٹی صورتوں میں میرے سکول کی جیومیٹری کٹ میں رکھے تھے لیکن برسوں بعد ایک پیشہ ور آرکیٹکٹ کے طور پر میں ان کے استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں۔یہ فلکیات کے نظام کو سمجھنے کے لیے شاندار تعمیراتی حل ہیں، مزید یہ کہ ہندو جوتشیوں کے لیے پیدائش کے چارٹ تیار کرنے اور مبارک تاریخوں کی پیشگوئی کرنے کے لیے اہم آلات ہیں۔سنہ 1727 میں جب اس خطے کے بادشاہ سوائی جے سنگھ نے سوچا کہ جے پور کو اپنے دارالحکومت اور ملک کے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائے جانے والے شہر کے طور پر بسایا جائے تو وہ اسے واستو شاستر کے اصولوں کی بنیاد پر ڈیزائن کرنا چاہتے تھے۔ واستو شاستر میں فن تعمیر اور جگہ کے انتخاب کے لیے فطرت، علمِ فلکیات اور علم نجوم کا استعمال کیا جاتا ہےانھوں نے محسوس کیا کہ جے پور کو ستاروں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے، علم نجوم کے طریقوں میں مدد کرنے اور فصلوں کے لیے اہم موسمی واقعات کی پیشگوئی کرنے کے لیے اُنھیں ایسے آلات کی ضرورت ہو گی جو درست اور قابل رسائی ہوں۔’میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘
،سمراٹ ینتر سورج کی پوزیشن بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو 27 میٹر تک اونچا ہے-تاہم اسلامی اور یورپی سائنسدانوں کے علم پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے وسطی ایشیا اور یورپ میں تحقیقی ٹیمیں بھیجنے کے بعد سوائی جے سنگھ نے پیتل کے آلات کی ریڈنگ میں تضاد پایا جو اس وقت بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے تھے۔درستگی کو بڑھانے کے لیے انھوں نے آلات کا حجم بڑھایا، انھیں مزید مستحکم بنانے کے لیے متحرک پرزوں کو کم کیا اور اُنھیں گھساؤ سے بچانے کے لیے اُنھیں ماربل اور مقامی پتھر سے ترشوایا تاکہ یہ موسم کی سختیاں برداشت کر سکیں۔پھر انھوں نے ان ایجادات کو ہندوستانی شہروں جے پور، دہلی، اجین، وارانسی (بنارس) اور متھرا میں پانچ بیرونی رصد گاہیں بنانے کے لیے استعمال کیا۔اب صرف چار جنتر منتر بچے ہیں (متھرا والے کو منہدم کر دیا گیا تھا) لیکن جے پور میں سنہ 1734 میں مکمل ہونے والا جنتر منتر سب سے بڑا اور جامع ہے۔آج یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والی جگہوں میں سے ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کی سب سے بہترین محفوظ رصد گاہ تھی بلکہ یونیسکو کے مطابق یہ فن تعمیر، علمِ فلکیات، اور علمِ کائنات میں ایجادات کی نمائندگی کرتا ہے، اور ساتھ ساتھ یہ مغربی، وسط مشرقی، ایشیائی اور افریقی ثقافتوں کی روایات اور ان سے سیکھے گئے علوم کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
، کمپلیکس میں ہر ایک ینتر یا آلے کا ایک ریاضیاتی مقصد ہے۔ان میں سے کچھ سن ڈائل ہیں جو سائے کی مدد سے مقامی وقت بتانے اور سورج کی پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ دوسرے آلات بروج اور سیاروں کی حرکات اور پیش گوئیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ان سب میں سب سے نمایاں ایک بہت بڑا مساوی سن ڈائل ہے جسے سمراٹ ینتر کہا جاتا ہے۔سنجے پرکاش ینتر سورج کی ہندوستانی ویدک بروج میں موجودگی کا پتا لگاتا ہے تاکہ زائچہ بنایا جا سکے-ایک 27 میٹر اونچی تکونی دیوار ہے جس میں دو پتلے، نیم دائرے کی شکل کے ریمپ ہیں جو اس کے اطراف سے پروں کی طرح نکلتے ہیں۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر میرے گائیڈ نے ریمپ میں سے ایک پر سائے کی نشاندہی کی کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 1 ملی میٹر حرکت کرتا ہے اور مقامی وقت کی دو سیکنڈ درست حد تک نشاندہی کرتا ہے۔جے پرکاش نامی ایک اور ینتر انڈین ویدک بروج سے سورج کے راستے کی پیمائش کرتا ہے جس سے زائچہ نکالا جا سکتا ہے۔ زمین میں نصب اس کا پیالے کی شکل کا ڈھانچہ آسمان کے ایک الٹے نقشے کی طرح ہے اور تاروں سے لٹکی ایک چھوٹی سی دھات کی پلیٹ کا سایہ کسی منتخب ستارے یا سیارے کی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘
جواب دیںحذف کریںجے پور میں مقیم ایک کنزرویشن آرکیٹیکٹ کویتا جین کہنا ہے کہ ’بظاہر جنتر منتر شاید کسی قدیمی مقامی فن تعمیر کی طرح نظر نہ آئے لیکن جب آپ اسے قریب سے دیکھتے ہیں، تو اونچے اونچے سن ڈائلز کو محراب کی شکل میں خالی جگہ بنا کر مضبوط بنایا گیا ہے۔ ان آلات پر سب سے بلند سجی محراب، تعمیر میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر اور پتھر سبھی مقامی تعمیراتی اقدار کی یاد تازہ کرتے ہیں