منگل، 15 اکتوبر، 2024

جاگیرداری نظام کا خونیں پنجہ اور پاکستان


جاگیردارانہ نظام  اگر منصفانہ نا ہو تو یہ  دنیا کا سب سے بدترین  غلامانہ  نظام ہے جس میں کچھ لوگ مراعات یافتہ ہوتے ہیں باقی ان کے  غلام ہو تے ہیں - اور آقا اور غلام  کا یہ رشتہ  معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام کو اپنے مظبوط  شکنجے میں جکڑے رہتا ہے  - یہ نظام  جدید حکومتوں کے قیام سے پہلے یورپ اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں رائج تھا۔ اس نظام کی بعض خصوصیتیں یہ تھیں کہ بادشاہ کی طرف سے مختلف افراد کو ان کی خدمات کے صلے میں زمینوں کے وسیع رقبے جاگیر کے طور پر عطا کیے جاتے تھے۔ یہ جاگیردار اپنی جاگیر میں رہنے والے مزارعین سے زمینوں پر کام کراتے تھے۔ زمین کا لگان وغیرہ خود جاگیردار وصول کرتے تھے جس میں سے بادشاہ کو حصہ جاتا تھا۔ عام طور پر پیداوار کا ایک تہائ حصہ کسان کا ہوتا تھا، ایک تہائ جاگیردار کا اور آخری ایک تہائ بادشاہ کا۔ جاگیردار کی حیثیت مزارعین اور دیگر مقامی باشندوں کے لیے حکمران سے کم نہیں تھی۔ مزارعین جاگیردار کے ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہتے تھے۔ ان کو کسی قسم کے سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔انیسویں صدی میں ،یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد جاگیردارنہ نظام کو زوال آیا اور اس کی جگہ سرمایہ داررانہ نظام نے لے لی۔ اب یہ نظام یورپ سے بالکل ناپید ہو چکا ہے۔ لیکن افریقہ اور ایشیا کے بعض ملکوں میں کلی یا جزوی طور پر اب بھی اس کی علمداری ہے جبکہ پاکستان کو یہی ظالمانہ نظام مکمل طور پر اپنے خونخوار  پنجوں میں جکڑے ہوئے ہے 


  ہما را حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سیاسی  اور مذہبی  اکابرین بھی جاگیر داری سسٹم کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں جن میں نوابزادہ  خان لیاقت علی خان'مولانا مودودی 'میاں ممتاز دولتانہ'اور دیگر بڑوں   کا کہنا ہے کہ زمین کی   ملکیت قائم و ثابت ہونے کے لیے مقرر ہیں ان ساری شکلوں کے مطابق زمین بھی اسی طرح ایک آدمی کی ملکیت ہو سکتی ہے جس طرح کوئی دوسری چیز، اس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ ایک گز مربع سے لے کر ہزار ہا ایکڑ تک خواہ کتنی ہی زمین ہو، اگر کسی قانونی صورت سے آدمی کی ملک میں آئی ہے تو بہرحال وہ اس کی جائز ملک ہے۔ اس کے لیے خود کاشت کرنے کی قید بھی نہیں ہے جس طرح مکان اور فرنیچر کرائے پر دیا جاسکتا ہے اور تجارت میں شرکت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین بھی کرائے پر دی جاسکتی ہے اور اس میں بھی شرکت کے اصول پر زراعت ہوسکتی ہے۔ بلاکرایہ کوئی شخص کسی کو دے، یا بٹائی لیے بغیر کسی کو اپنی زمین میں کاشت کرلینے دے تو یہ صدقہ ہے، مگر کرایہ و لگان(۱) یا بٹائی پر معاملہ طے کرنا ویسا ہی ایک جائز فعل ہے جیسے تجارت میں حصہ داری یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینا۔ رہیں ’’نظام جاگیرداری‘‘ کی وہ خرابیاں جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں تو نہ وہ خالص زمینداری کی پیداوار ہیں اور نہ ان کا علاج یہ ہے کہ سرے سے زمین کی شخصی ملکیت ہی اڑا دی جائے، یا اس پر مصنوعی حد بندیاں عائد کی جائیں                                                                                              


 1949ء میں پاکستان مسلم لیگ نے پانچ رکنی زرعی کمیٹی بنائی جس کے صدر میاں ممتاز دولتانہ تھے اور اراکین میں شامل تھے بیگم شاہنواز، خان عبدالقیوم خاں  قاضی محمد عیسیٰ اور حاجی علی اکبر۔ یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مغربی پاکستان کے نمایاں اور بڑے زمیندار خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کا شجرہ نسب 1857ء سے پہلے کے زمانے تک جاتا ہو۔ وہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ انکی جاگیریں اور زمینداری کلی طور پر انگریز راج کی نوازشات کا نتیجہ ہیں۔ الٰہی بخش ایک ایسا ہی کر دار ہے ۔ "Chiefs and Families of Noble in Punjab"میں اس کا تفصیلی تعارف موجود ہے ۔ 1857ء کے ’’غدر‘‘محاصرے میں وہ  دہلی  میں رہتے ہوئے  انگریزوں کو  انقلابیوں کی مکمل تفصیلات فراہم کر  نے پر مامور تھے -اپنی ان خدمات عالیہ کئ عوض 22830/-روپے سالانہ پنشن موروثی سے نوازا گیا۔ ان کے خاندان کو دہلی اور میرٹھ کے اضلاع میں کئی گائوں اور دیہات کے لگان اور موروثی ملکیت عطا کی گئی ۔ انہیں  آنریری مجسٹریٹ بھی بنایا گیا۔ ان کا ایک تعارف اور بھی تھا کہ  وہ حاجی اور حافظ قرآن بھی  تھے   ۔ لیاقت علی خاں جاگیردار طبقے کے نمائندے  اور محافظ بھی مانے جاتے تھے -حالانکہ انکا اپنا طرز زندگی بہت سادہ تھا -میاں ممتاز دولتانہ سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ اپنے لوگوں کے لئے اسکول کیوں نہیں بناتے ہیں تو دولتانہ مرحوم نے جواب دیا تھا کہ اگر میں ان کے لئے اسکول بنا دوں تو ہماری زمینوں پر کام کون کرے گا  تو جناب یہ ہے ہمارا اور آپ کا پیارا پاکستان '


    ہم نے یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔افسوس ہمارے سیاستدانوں نے اس کو 76سالوں سے لوٹ لوٹ کر کنگال کرکے مقروض بنا دیا ہے اور عوام ہر 5سال کے بعد ان کو دوبارہ ووٹ دے کر اپنے اوپر مسلط کرکے پھر پچھتاتے ہیں ۔وہی سیاستدان آپس میں گٹھ جوڑکرکے دوبارہ نئے نئے طریقوں سے لوٹنے لگ جاتے ہیں ۔ہندوستان  میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کرپشن کی سطح ہم سے بہت کم ہے ۔اس کے برعکس وہاں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے عوام پڑھے لکھے ہوچکے ہیں وہ اب ان سیاستدانوں کو اچھی طرح جان چکے ہیں ۔سڑکوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق بھی حاصل کرتے ہیں اسی وجہ سے ہندایک دن بعد آزاد ہونے کے باوجود ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔جبکہ   پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ جاگیرداری کے خلاف کوئی قانون تو بہت بڑی با ت ہے زرعی ٹیکس لگانے کی بھی  جسارت  نہیں کر سکتی ہے


    ہندوستان  کی معیشت کو سنبھا لا دینے  میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اُن  کے ساتھیوں  نے بنیادی کردار صرف جاگیرداری کو ختم کرکے انجام دیا تھا جس کے باعث عوام میں تعلیم کا شعور پیدا ہوا،غربت بھی ہم سے کم سطح پر  ہے لیکن   افسوس ہمارے ملک سے جاگیر داری کو ختم کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے  کا گھناؤنا کردار آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے 70فیصد یعنی 2تہائی عوام آج بھی تعلیم سے محروم ہیں ۔اکثریت 76سال گزرنے کے بعد بھی گائوں ،دیہاتوں میں رہتی ہے اور یہی جاگیردار اُن سے اپنے مرضی سے ووٹ ڈلواکر اپنی بالادستی کو ثابت کرکے اس قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور جس نے بھی ان جاگیرداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی تو پورے ملک کے ہر صوبے سے انہوں نے مل کر اس کوشش کو ناکام بناکر نظام کو نہیں بدلنے دیا ۔یہی عوام کے تباہی کے ذمہ دار ہیں اور ان کو جاہل رکھ کر ان پر حکومت کررہے ہیں ۔

پاکستان پائیندہ باد


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر