عظیم رومن ایمپائر عبرت ناک زوال سے کیونکر دوچار ہوئ-زوال یافتہ جمہوریہ رومن ایمپائر کا اصل چہرہ دیکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ رومن دربار میں سیاست سفاکانہ تھی۔ کلاڈئیس اور میسالینا کو معلوم تھا کہ اگر کلاڈئیس شہنشاہ نہ رہے تو انکی اور ملکہ کی موت یقینی ہے۔ اسی لیے وہ اقتدار سے چمٹے رہے، ۔‘کلاڈئیس اور میسالینا اپنی پوزیشن کے فوری خطرات سے بہت باخبر تھے، کیونکہ انھوں نے اپنے پیشروؤں کو شاہی محل میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا۔‘کارگل مارٹن نے بتایا کہ ’کیلیگولا کو اس وحشیانہ انداز میں مارا گیا کہ یہ افواہیں تھیں کہ لوگوں نے اسکے گوشت کے ٹکڑے کھائے تھے، اور اس کے ساتھ، انھوں نے اس کی بیوی اور جوان بیٹی کو بھی مار ڈالا تھا کیونکہ انھیں مستقبل میں ممکنہ خطرات کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔س حقیقت کے باوجود کہ میسالینا کا تعلق اس وقت کے سب سے معزز اور امیر خاندانوں میں سے ایک سے تھا، اس بات کا دور تک امکان نہیں تھا کہ وہ ملکہ بن جائیں گی۔کلاڈیئس بیمار، لنگڑے، ہکلانے والے، ناخوشگوار، عجیب و غریب اور روکھے انسان تھے۔
ایک طویل عرصے تک انھوں نے خود کو تاریخ کی کتابیں لکھنے کے لیے وقف کر دیا اور اقتدار سے باہر رہے یہاں تک کہ ان کے بھتیجے، شہنشاہ کیلیگولا نے انھیں قونصل اور سینیٹر مقرر کیا۔24 جنوری 41 کو کیلیگولا کے قتل کے بعد غیر متوقع طور پر اقتدار ہاتھ میں آیا تو ایک سپاہی نے کلاڈیئس کو محل میں کانپتے ہوئے پایا۔ اگلے دن انھیں پریٹورین گارڈ (شاہی خاندان کے دستے) نے شہنشاہ بنا دیا- یعنی رومنایمپائر اب شاہانہ سطوت سے نکل کر اپنی بقا ءکے لئے سازشوں کی بیساکھیوں پر لڑکڑا رہی تھی اور اس کی بیساکھیاں بے رحم 'جنسی بے راہ رو 'اقتدار کی بھوکی ملکہ مہارانی والیریا میسالیناکے بازوّ ں میں تھیں ۔جو اپنے بادشاہ مجہول شوہر بادشاہ کو سہارا دئے کھڑی تھیں -ان دنوں کے بارےمیں بتایا جاتا ہے کہ اس سنگدِل سیاست کی غلام گرشوں میں مشکوک اموات ہونا عام بات تھی جس کے اوپر کوئ انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا اور اعلی درجے کی سازشوں کی اس دنیا میں ملکہ کی بدنام زمانہ شہرت نمایاں نظر آتی تھی جب بھی نیکی اور دیانت کی جگہ ذاتی مفادات اور خواہشات آجائیں تو اس سے قومی کردار کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اس کا بھی مخالف تھا کہ سیاست پر خاندانوں کا قبضہ رہے اور دوسرے باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع نہ ملیں۔ اس کی مثال وہ ریپبلکن دور میں خاندانی امراء اور بہادر طبقے سے دیتا تھا۔Marius جو Plebian یا عوام کا نمائندہ تھا اور بطور رومی جنرل اس نے کئی کارنامے سرانجام دیے تھے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی عظمت کی نشانی خاندانی شجرے نہیں بلکہ وہ زخم ہیں جو اس کے سینے پر ہیں۔
روم کی عظیم سلطنت زوال کی جانب جاتے ہوئے ایک مورخ لکھتا ہے کہ ان دنوں میں ایمپائر میں ’’اینڈروکلس‘‘ (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتاتو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔اس ماحول میں اینڈروکلس کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آچکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آکر وہاں سے فرار ہوجانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاؤں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا توتمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر شومئی قسمت غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک سزائیں دی جاتیں جودوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لائیں
یہ سب باتیں جاننے کے باوجود اینڈروکلس نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ اینڈروکلس نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہوگئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر اینڈروکلس وہاں سے فرار ہوگیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جاچھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔اس نے پناہ حاصل کرنے اورچھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی کمین گاہ تھی۔ ابھی اینڈروکلس ک غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ اینڈروکلس نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک قوی الجثہ شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر اینڈروکلس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے اینڈروکلس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مصیبت ٹل نہیںجاتی۔ بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے۔
اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کرکے اسے ہڑپ کرجاتا تھا
جواب دیںحذف کریں