ACOUIRED AIMMUNO DEFICENCY SYNDROME عالمی ادارہ صحت نے پا کستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا-سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایڈز کے مرض کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے تو اس کی سب سے پہلی شروعات ہم جنس پرستی سے ہوتی ہے--پھر جب یہ مرض کسی شخص میں بنیا د بنا چکا ہوتا ہے اور وہ متاثّرہ شخص کسی دوسرے فرد کے ساتھ جنسی ملاپ کرتا ہے تو پھر یہ مرض کے پھیلنے کا دوسرا مرحلہ ہو تا ہے اور یوں یہ مرض پورے معاشرے کو ناسور کی شکل میں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے-معاشرے کی قبیح مکروہات سے بچنے کے لئے اللہ پاک نے نکاح جیسی نعمت انسان کے لئے رکھِّی ہے ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے-یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کالم اور پروگرام کیے جاتے ہیں ۔زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں، جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے، AIDS اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب
علامات اور تشخیص میں فرق ہوتا ہے، تشخیص کسی مرض کی موجودگی کی تصدیق ،ثبوت کو کہتے ہیں ۔ایڈز کی علامات عام سی ہی ہیں، مثلاََ بخار، سردی کا لگنا اور پسینہ ( خاص کردوران نیند پسینہ)دست ،وزن میں بہت زیادہ کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی ،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم ،مختلف اقسام کے نمونیائی امراض ،آنکھوں میں دھندلاہٹ ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا اور مسلسل سردردوغیرہHIV کیسے جسم میں داخل ہوتا ہے ؟ ایڈز وائرس یعنی HIV دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے ، اسکو چھونے یا اسکی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء سے ہونے والے (اخراجات) یا رطوبتیں ، متاثرہ شخص کے خون سے ،لعاب (saliva) یعنی آب دھن یا تھوک ،انجکشن کی سرنج ، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں، ان کی مناسب صفائی نہ ہونا ، متاثرہ فرد کاشیونگ بلیڈ سے شیو کرنا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ ، اس کا سبب بنتی ہیں ۔اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔
اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے، اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔اس بیماری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ،اس کے لیے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلا َصفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھنا خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔
ایک بہت ہی خاص بات جس سے میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے ،پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے ۔یہ ایک پراپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد آگاہی کے پردے میں معاشرہ بے باکی و جنس پر گفتگو کی راہ ہموار کرنا ہے ۔اس کا مقصد ہمارے معاشرے سے فطرہ شرم و جھجک کا خاتمہ ہے ۔کچھ لوگوں کا مشن ہے کہ ہمارے نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ معاشرہ میں بے حیائی پھیل سکے اور عطائی کالم نویس اس کو پڑھ کر اس کے حق میں لکھ رہے ہیں ۔جیسے ایڈز سے بچاؤ کی صرف ایک یہ ہی صورت رہ گی ہو اس لیے ان دیگر وجوہات پر بھی بات ہونی چاہئے ،جو اس کا سبب بن رہی ہیں ۔خیر اب آتے ہیں، اصل موضوع کی طرف ۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں، ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے، اس سے نفرت کا نہیں، بات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے ۔
پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، اب تک پاکستان میں تقریبا 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلارجسٹرڈہوئے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے، پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہوں وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔