اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتے اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے نافرمان بندوں کی ہدائت کے واسطے اُسی قوم میں سے اپنے نبی مبعوث کر کے ان کی رہبری اور ہدائت کے وسیلے عطا کئے -اب جو قومیں راہ راست پر آ گئیں ان کو اللہ کریم نے اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لیا اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی تو ان کے لئے عذاب الیم حاضر تھا -
ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا اوراپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا - آخر کار اللہ پاک ان سے خفا ہوا تومسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی کفر اور بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی، ۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔
اس زمانے کا یہ طر یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی، تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ - مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ شریر اور گناہ گار تھے،
حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس وقت آسمان سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، ان لوگوں نے اپنے لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔حضرتِ ہود علیہ ا لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا،
اور ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا، قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔پھر قدرت خداوندی کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔