اتوار، 10 دسمبر، 2023

2023-12-10 -غزّہ میں موت اور بھوک ناچ رہی ہے

  میں نے ابھی غزّہ کی تازہ صورتحال معلوم کرنے لئے کمپیوٹر کھولا تو اب سے  6 گھنٹے پہلے کی تازہ صورتحال بی بی سی نے اس طرح بیان کی ہوئ ہےاقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔قوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

صرف رفح سرحد کھلی ہےمصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود 'خوف، افراتفری اور مایوسی' کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے 'گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ' دیکھی۔گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے-غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا-غزہ کا شہر خان یونس: جہاں بھوک و افلاس کے باعث ایک نئے انسانی بحران کا خطرہ موجود ہے-

سرائیلی بمباری کے دوران غزہ کا دنیا سے رابطہ منقطع-

سکاؤ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ تو ہر دس میں سے نو نو افراد ’رات دن بغیر کسی کھانے کے‘ گزار رہے ہیں۔غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کے دو محاذوں پر گھرے شہر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔شہر کی واحد باقی رہ جانے والی صحت کی سہولت ناصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجری اور برنز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد مغرابی خوراک کی کمی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے کہا: 'میری تین سال کی ایک بیٹی ہے، وہ مٹھائی، سیب اور پھل کے لیے ضد کرتی رہتی ہے۔ میں اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہوں۔'یہاں کافی کھانا نہیں ہے، بلکہ کھانا ہی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف چاول ہی ہے؟ ہم دن بھر میں ایک بار، صرف ایک بار کھاتے ہیں۔خان یونس میں گنجائش سے زیادہ آبادی نے لوگوں کو کھلے میں رہنے پر مجبور کیا ہے-خان یونس کے حالات ناگفتہ بہ -خان یونس حالیہ دنوں میں شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں کے ناصر ہسپتال کے باس نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ہسپتال پہنچنے والے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد پر 'کنٹرول نہیں رہا ہے'۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور 'کونے کونے' میں لڑ رہا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے سنیچر کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔لامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ممالک نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا

۔فلسطینی اتھارٹی کے رہنما مسٹر عباس نے کہا کہ وہ ’(اسرائیلی) قابض افواج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون بہائے جانے کا ذمہ دار واشنگٹن کو ٹھہراتے ہیں۔‘اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے ویٹو کا دفاع کیا اور کہا کہ قرارداد ایک 'غیر پائیدار جنگ بندی' کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے 'حماس اس قابل ہو جائے گا کہ وہ 7 اکتوبر کو کیے جانے والے اقدامات کو دہرا سکے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ’درست موقف‘ کو سراہتے ہیں۔ سات دن کی عارضی جنگ بندی ابھی ایک ہفتہ قبل ختم ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے تحت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید 180 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 78 مغویوں کو رہا کیا تھا۔غزہ میں حماس کے ہاتھوں میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یرغمال ہیں۔’غزہ میں انسانی حقوق کے علاقے میں کوئی انسانی حقوق میسّر نہیں‘اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیں  خیال رہے کہ یہ علا لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔المواصی بحیرہ روم کے کنارے زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔ اس میں چند عمارتیں ہیں اور یہ زیادہ تر ریتیلے ٹیلوں اور زرعی زمین پر مشتمل ہے۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے نامزد کیا گیا محفوظ علاقہ صرف 8.5 مربع کلومیٹر (3.3 مربع میل) ہے۔ایک پناہ گزین اس علاقے میں کئی ہفتوں سے زمین پر سو رہی ہیں اور چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک ہی ٹینٹ میں رہ رہی ہیں۔انھیں لگا کہ یہ جگہ بمباری اور لڑائی سے محفوظ ہو گی لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی ایک دن آتا ہے اور دس دن نہیں آتا، باتھ روم میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔اسرائیلی فوج نے کم از کم 15 دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو المواصی جانے کو کہا ہےآ آخری دفعہ انھوں نے 2 دسمبر کو یہ اعلان کیا تھا۔نٹرنیٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غزہ کے دیگر علاقوں میں محفوظ جگہیں ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

تاہم المواصی کے متعلق اسرائیلی فوج کی ہدایات بھی کئی دفعہ تبدیل ہوئی ہیں۔عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔لیکن مختلف اوقات میں المواصی کے اندر مختلف مقامات کو اسرائیل نے محفوظ مقام قرار دیا ہے۔مونا الاستال ایک ڈاکٹر ہیں جب ان کے پڑوسی کا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا تھا انھیں مجبوراً خان یونس چھوڑ کر المواصی آنا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ بمباری کی آوازوں کی وجہ سے وہ پوری رات جاگتی رہتی ہیں۔مونا بھی اس علاقے میں پانی بجلی اور سہولیات کی عدم موجودگی کا بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ٹینٹ اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے انھیں 300 ڈالر دینے پڑے۔مونا کہتی ہیں انھوں نے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سٹورہاؤس میں زبردستی گھستے ہوئے بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ’بہت بھوکے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘

مونا مزید کہتی ہیں ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

 

 

 

ہفتہ، 9 دسمبر، 2023

عرشی شاپنگ مال آتشزدگی

   

عرشی شاپنگ        مال کی تعمیر شروع ہی ہوئ تھی کہ  اس کی نو تعمیر شدہ چھت بیچارے ان مزدوروں کے اوپر منہدم ہو کر آ گری جو اس کے مقام پر موجود تھے -چھ مزدور اس میں کام آگئے -اس کے  بعد کیا ہوا کچھ خبر نہیں یہ شاپنگ مال مرحوم جام صادق علی کا تھا  اس کے بعد اس کی ملکیت کس کے پاس گئ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے اور اب صورتحا  ل یہ ہے کہ اس مال کے بیچارے دکاندار  فریاد کر رہے ہیں  کہ ہمارا تمام  مال جل گیا ہے دکانداروں کی دہائ-فائر بریگیڈ کی رپورٹ کے مطابق عمارت میں ہنگامی اخراج، ایمرجنسی الارم، اخراج کے سائن موجود تھے، آگ لگنے کی وجوہات کا فی الحال تعین نہیں ہوسکا۔عرشی مال آتشزدگی : دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا-کراچی میں عرشی مال میں آتشزدگی کے 2 روز بعد دکانداروں نے بیچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا جبکہ شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔عائشہ منزل پر واقع عرشی مال میں بدھ کو آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ گھروں اور دکانوں میں رکھا سامان بھی جل گیا۔ڈپٹی کمشنر کی جانب سے شاپنگ مال کی دکانوں کو عارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔جس کے بعد عرشی مال کے دکانداروں کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع 5 بج کر41 منٹ پر ملی، فائر بریگیڈ کی ٹیم 5 بج کر 42 منٹ پرروانہ ہوئی، آگ سے دوسری منزل پر موجود دو اپارٹمنٹس کو معمولی نقصان پہنچا، تیسری منزل پر ایک اپارٹمنٹ مکمل آگ سے متاثر ہوا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شاپنگ مال کے سامنے کھڑی 18موٹر سائیکلیں ، ایک گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی، آگ سے عمارت میں 76 میں سے 73 اپارٹمنٹس محفوظ رہے، اطراف کی رہائشی عمارتیں، بینک، الیکٹرانک مارکیٹ ، گوداموں کو آگ سے بچایا گیا۔محکمہ فائر بریگیڈ کے مطابق گراؤنڈ فلور پر قائم 169 دکانیں آگ سے جل کر مکمل خاکستر ہوئیں، گراؤنڈ فلور پر 120 دکانوں اور میزنائن فلور پر 30 دکانوں کو جلنےسے بچایا گیا جبکہ گراؤنڈ فلور پر بیشتر دکانیں گدوں، کپڑوں اور لکڑی کے فرنیچر پر مشتمل تھیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آگ گراؤنڈ فلور سے میزنائن فلور تک پھیلی اور پھر فرسٹ فلور کے اپارٹمنٹس میں لگ گئی، محکمہ فائر بریگیڈ کو آگ لگنے کی بروقت اطلاع نہ ملی، فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کے ایم سی کے 12 فائر ٹینڈرز، 2 واٹر باؤزر، 2 اسنارکل نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، واقعہ میں 500 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔کراچی میں دو روز قبل عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ مال میں آگ لگنے کے واقعے پر کے ایم سی کے محکمہ فائربریگیڈ کی حادثاتی رپورٹ سامنے آگئی جبکہ انتظامیہ نے شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کیا جس کے بعد دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا۔

شہر قائد کے علاقے عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ شاپنگ مال میں آگ لگنے کے واقعے کے 2 روز بعد کے ایم سی کے محکمہ فائربریگیڈ کی حادثاتی رپورٹ سامنے آگئی۔فائر بریگیڈ کی رپورٹ کے مطابق عمارت میں ہنگامی اخراج، ایمرجنسی الارم، اخراج کے سائن موجود تھے، آگ لگنے کی وجوہات کا فی الحال تعین نہیں ہوسکا۔رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع 5 بج کر41 منٹ پر ملی، فائر بریگیڈ کی ٹیم 5 بج کر 42 منٹ پرروانہ ہوئی، آگ سے دوسری منزل پر موجود دو اپارٹمنٹس کو معمولی نقصان پہنچا، تیسری منزل پر ایک اپارٹمنٹ مکمل آگ سے متاثر ہوا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شاپنگ مال کے سامنے کھڑی 18موٹر سائیکلیں ، ایک گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی، آگ سے عمارت میں 76 میں سے 73 اپارٹمنٹس محفوظ رہے، اطراف کی رہائشی عمارتیں، بینک، الیکٹرانک مارکیٹ ، گوداموں کو آگ سے بچایا گیا۔محکمہ فائر بریگیڈ کے مطابق گراؤنڈ فلور پر قائم 169 دکانیں آگ سے جل کر مکمل خاکستر ہوئیں، گراؤنڈ فلور پر 120 دکانوں اور میزنائن فلور پر 30 دکانوں کو جلنےسے بچایا گیا جبکہ گراؤنڈ فلور پر بیشتر دکانیں گدوں، کپڑوں اور لکڑی کے فرنیچر پر مشتمل تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آگ گراؤنڈ فلور سے میزنائن فلور تک پھیلی اور پھر فرسٹ فلور کے اپارٹمنٹس میں لگ گئی، محکمہ فائر بریگیڈ کو آگ لگنے کی بروقت اطلاع نہ ملی، فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کے ایم سی کے 12 فائر ٹینڈرز، 2 واٹر باؤزر، 2 اسنارکل نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، واقعہ میں 500 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔عرشی مال آتشزدگی : دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیاکراچی میں عرشی مال میں آتشزدگی کے 2 روز بعد دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا جبکہ شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔عائشہ منزل پر واقع عرشی مال میں بدھ کو آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ گھروں اور دکانوں میں رکھا سامان بھی جل گیا۔ڈپٹی کمشنر کی جانب سے شاپنگ مال کی دکانوں کو عارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔جس کے بعد عرشی مال کے دکانداروں کواندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے اجازت دی گئی ہے، ایک ساتھ  دکانداروں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔

موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دکانداروں نے محفوظ سامان نکلانا شروع کردیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس تمام تر عمل کی نگرانی کررہی ہے۔گزشتہ روز عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی کے واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے فلیٹس کو کلیئر قرار دے کر رہائشیوں کو گھروں میں جانے کی اجازت دے دی تھی۔ ایس بی سی اے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلڈنگ پہلی سے چار منزل تک رہائش کے قابل ہیں۔شاپنگ مالز میں آتشزدگی کا زمہ دار کون-شاپنگ مال میں آتشزدگی، میئر کراچی نے ملبہ کنٹونمنٹ بورڈ پر ڈال دیا-راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال میں آتشزدگی کے بعد میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جس عمارت میں آگ لگی وہ جگہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ہے-انہوں نے کہا کہ مذکورہ جگہ کنٹونمنٹ بورڈ کی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری ٹیم آگ لگتے ہی موقع پر پہنچ گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کا عملہ کیوں نہیں پہنچ سکا؟۔کمشنر کراچی سلیم راجپوت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمارت میں خارجی راستہ اور  

 فائر الارم سسٹم بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے آگ نے عمارت کو اپنی لپیٹ لے لیا -


بدھ، 6 دسمبر، 2023

سوّا مچھلی ماہی گیر کی لاٹری

 

سوّا مچھلی میں پائے جانے والے ایک بلیڈر کو چین میں شان و شوکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ لوگ اسے اپنے گھر پر رکھتے ہیں، اس کے علاوہ چینی روایتی ادویات میں بھی اس کے استعمال کا حوالہ ملتا ہےسمندر کو ماہی گیر ’بادشاہ‘ بھی کہتے ہیں بقول ان کے کہ یہ بادشاہ کے انداز میں نوازتا ہے جس سے انسان کی قسمت ہی بدل جاتی ہے۔حال ہی میں کراچی سے تھوڑا دور بحیرہ عرب میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں دو ایسی نایاب مچھلیاں آگئیں جنھوں نے انھیں لکھ پتی بنا دیا۔ان ماہی گیروں کی موبائل پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو کے مطابق جیسے ہی جال کھنچتا ہے تو سندھی زبان میں ایک بزرگ ماہی گیر کی آواز آتی ہے کہ سوّا ہے سوّا۔

جیسے جیسے جال اوپر آتا ہے تو دوسری آواز آتی ہے کہ 'ایک نہیں، دو ہیں دو۔' مچھلیوں سے بھرا یہ جال اوپر کشتی پر پہنچتا ہے تو خوشی کے مارے ایک ماہی گیر کی چیخ نکل جاتی ہے، برف اٹھانے والی قینچی سے ان مچھلیوں کو دوسری مچھلیوں سے الگ کردیا جاتا ہے جبکہ ایک ماہی گیر خوشی میں جھوم اٹھتا ہے۔ابراہیم حیدری کی جیٹی پر یہ دونوں مچھلیاں دس دس لاکھ روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوئیں اور فروخت کے تقریباً دو ماہ کے بعد ان مچھلیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا اور اس کے بعد میڈیا پر وائرل ہوئی۔

 سوّا مچھلی کیا ہے اور قیمتی کیوں ہے؟

ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔اس کا سائز ڈیڑھ میٹر تک ہوسکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہوسکتا ہے، یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔مچھلی کی برآمد سے وابستہ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور انھوں نے سنا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم کے مطابق اس کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے جاتی ہے، یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔کراچی فشریز میں تازہ پکڑی گئی مچھلیاں نیلامی کے لیے رکھی ہیں'پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے، اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔'فرض کرلیں کہ ہمیں جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کردیتے ہیں اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اس کی وجہ سے سوّا مچھلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔'

چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت 2 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔واضح رہے کہ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، مچھلیوں کا جوڑا بدھ ازم کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔ چین کے نئے سالوں کے علامات میں مقبول ایک علامت میں ایک بچے نے ایک بڑی گولڈ فش اور کنول کا پھول اٹھا رکھا ہے۔

چین میں گولڈ فش اور کنول کے پھول کو نئے سال کی علامت تصور کیا جاتا ہےپاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟پاکستان میں سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔ ٹھٹہ کے صحافی غلام حسین خواجہ کے مطابق اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔

کیا سوّا مچھلی معدوم ہو رہی ہے؟ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو خدشہ ہے کہ کروکر نسل کی یہ مچھلی پاکستان کے پانیوں سے بھی معدوم ہو رہی ہے۔ محمد معظم کے مطابق پہلے یہ مچھلی کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی مگر اس بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ سے اب اس کی آبادی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔مچھلی کے ایکسپورٹر اخلاق عابدی کے مطابق کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کر سوّا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ایک چینی ماہی گیر یلو کروکر مچھلی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے

محمد معظم کا کہنا ہے کہ چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جس کو یلو کروکر کہا جاتا تھا، جو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

محمد معظم کے مطابق سوّا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔

سالار جنگ میو زیم- حیدر آبا د دکن

  کہتے ہیں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا ہے -کیا کبھی آپ نےایسا بھی کوئ سودائ دیکھا ہو گا جو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر زمانے بھر کی پرانی چیزیں جمع کرنے لگ جائے جی ہاں یہ ہیں حیدر آباد دکن کے  سالار جنگ-توآئے ان کے میوزیم کی غائبانہ سیر کرنے چلیں -حیدرآباد  موتیو ں   نگینو ںاور    جوا   ہر ا ت   'ومحلا ت  کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم  دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔

دس ایکڑ اراضی پر پھیلے اس میوزیم میں نو ہزار مخطوطات، 43ہزار نوادرات اور47ہزار کتابیں ہیں۔گیلریوں میں چوتھی صدی اتنے پرانے نوادرات بھی ہیں۔ان میں انڈین ، ایشیائے مشرق آرٹ ، یوروپین آرٹ، مشرق وسطیٰ آرٹ اور بچوں کے آرٹ پر مشتمل گیلریاں ہیں۔ میوزیم میں سب سے دلچسپ چیز انیسویں صدی کی برطانوی میوزکل گھڑی ہے۔ سیاح گھنٹہ کے پورے ہونے پر کلاک ہال میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اس مشینی شخص کو دیکھ لیں جو کہ مشین کے اندر سے نکل کر گھنٹی پر ہتھوڑا مارتا ہے۔ میوزیم کا دوسرا اہم اور قیمتی سرمایہ اطالوی مجسمہ ساز جی بی بینزونی کے ذریعہ تراشہ گیا ریبیکا کا مجسمہ ہے

۔ یہاں پر فرانس کے بادشاہ لوئس شانزدہم سے لے کر میسورکے ٹیپو سلطان تک کی ہاتھی کے دانت کی بنی کرسیا ں بھی ہیں۔احترام علی خان کا ماننا ہے کہ تاریخ اور آرٹ کے حوالے سے کوئی جتنے بھی زاویے سے سوچے وہ تمام طرح کے نوادرات یہاں پر موجود پائے گا۔ احترام علی کا یہ بھی اندازہ ہے کہ ان نوادرات کی بدولت یہ میوزیم یوروپ کے میوزموں کو بھی پیچھے چھوڑسکتا ہے۔سالار جنگ میو زیم -یدرآباد جیسے موتیوں اور محلوں کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ 

اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔ ان کے اہم نوادرات میں سے ویلڈ ریبیکا نامی سنگ مرمر سے تراشا مجسمہ بھی شامل ہے جو کہ انہوں نے روم سے 1876میں حاصل کیا تھا۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔40سال کی محنت سے ان کے ذریعہ اکٹھا کی گئیں نوادرات آج سالار جنگ میوزیم میں تاریخ اورآرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں اور اس سے متعلق طلبہ کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یوسف علی خان نے نوادرات جمع کرنے کے لیے یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کا سفر کیا۔

 بعد میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اپنے نوادرات بیچنے حیدرآباد آنے لگے۔۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔ -ان نوادرات میں گزشتہ نظاموں کی بیگمات کی وہ نادر روزگار جیولری بھی شامل ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت چھوڑی -یہ ایسی جیولری ہے جو ہیروں اور جواہرات  سے مزیّن ہے اور ایک ایک جیولری کی قیمت کروڑوں ڈالر مالیت ہے-نظام جو پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے وہ بھی دنیا کا مہنگا ترین ہیرا ہے-نظام کی چھڑی کا دستہ بھی ہیروں سے مزیّن ہےسالار جنگ میوزیم کے خاص کمرہ / گیلری یسالار جنگ میوزیم میں تقریبا 26 الگ الگ گیلریاں ہیں۔ جہاں نایاب و نادر اشیا نظر کو خیرا کردیتی ہے۔ ان گیلریاں میں قابل ذکر ہیں-شعبہ اطفالہاتھی دانت کی تراش کاری و نقش نگار موسیقی والی گھڑینایاب و نادر عصے والا کمرہفوجی ساز و سامان والا کمرہماڈرن انڈین پینٹنگس گیلریہندوستانی مورتیوں کی گیلریہتھیار اور قدیم و جدید تلواروں کی گیلری

سالار جنگ میوزیم کی پہلی منزل میں دو حصے ہیں۔   سالارجنگ میوزیم میں داخلہ فیس 50 روپے فی شخص ہے، جب کہ طلبہ اور سال کے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے یہ مفت ہے۔ طلبہ ٹکٹ مفت داخلہ حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ پیش کرنا ہوگا۔ اگر کوئی کیمرے یا موبائل فون ساتھ لے جانا چاہتا ہے، تو اسے الگ سے 50 روپیے ادا کرنا ہوگا۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹکٹ کی قیمت 500 روپے فی کس ہے۔ آڈیو ٹور کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ تقریباً 90 منٹ کے اس آڈیو ٹور کی فیس 60 روپے فی شخص ہے، مذکورہ رقم میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ سالار جنگ میوزیم کے اوقات جمعہ کے علاوہ تمام دنوں میں صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں۔سالارجنگ میوزیم بورڈ کے ممبر اورسالارجنگ خاندان کے چشم وچراغ نواب احترام علی خان کےمطابق’’انہوںنے اپنا پیسہ گانے بجانے جیسی پارٹیوں میں برباد نہیں کیابلکہ انہوں نے اپنی دولت نوادرات جمع کرنے میں خرچ کی جس کی وجہ سے ان کے محل کی دیوان ڈیوڑھی میں ہزاروں نوادرات  جمع ہوگئے۔ ان کو گویا زیادہ سے زیادہ نوادرات جمع کرنے کا ایک جنون تھا اور دیکھتے دیکھتے اتنے نوادرات جمع ہوگئ کہ محل میں ان کو رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ لہذا انہوں نے اس کو دوسرے محل میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قبل اس کے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچتا داعی اجل کا بلاوا آگیا۔ 

منگل، 5 دسمبر، 2023

اوجھا سینی ٹوریم



یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب ٹی بی کا مرض لاعلاج ہوتا تھا اور مریض خون کی الٹیاں کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا ایسے میں ایک ماں بے بسی کے عالم میں دنیا چھوڑ گئ اور اس کے بیٹے نے سینی ٹوریم بنانے کا ارادہ کیا   ۔ 1997ءمیں اسے گلوبل ٹی بی یونٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورسارک ٹیوبرکلوسزسینٹر، نیپال نے ٹی بی کے علاج معالجے کے ضمن میں، سینٹر آف ایکسی لینس قراردیا۔ 2003ءمیں جب ڈا میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیاگیا، تو اوجھا کو اس کا کیمپس بنادیاگیا۔ 1931 میں جب سکھرام داس نے حکمت کی اعلی ڈگری حاصل کی تو کراچی کے باسیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جس میں شہر میں بڑھتے ہوئے ٹی-بی کے مرض پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مرض کے خلاف دونوں بھائیوں کی خدمات کو بھی بیحد سراہا گیا تھا۔ اسی تقریب کے موقع پر سکھرام داس اوجھا نے اپنے مرحوم بھائی دیپ چند اوجھا کے نام سے یہ تپ دق گھر (سینی ٹوریم) قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اوجھا سینی ٹورییم  ٹی۔بی  کے مریضوں کے لئے کراچی میں 1942 میں قائم ہوا۔ ابتداء میں یہ اٹھاون سنگل اور سات ڈبل کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینیٹوریم تھا جو اُس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر مضافات میں ایک پُرفضا اور سرسبز مقام (موجودہ صفورہ گوٹھ) پر قائم کیا گیا تھا۔ جس کے لئے 150 ایکڑ زمین اور 50 ہزار روپے نقد شہر کے مخیر ہندو خاندان "اوجھا" نے ہی عطیہ کیے تھے۔

اس کا پورا نام "دیپ چند اوجھا سینی ٹورییم" ہے۔  دنیا اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی دہشت سے گزر رہی تھی۔ جس میں برطانیہ ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور ہماری سرزمین پہ برطانوی راج مسلط تھا۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً وہ دور ایمرجنسی کا تھا اس لیے کچھ عرصے کے لیے اس سینی ٹوریم کو جنگی قیدیوں کے لیے بطور کیمپ، پولینڈ کے یہودیوں کے لیے جو عالمی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور تھے پناہ گزین کیمپ اور امریکی فوج کے اسٹیشن کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا تھا۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب حالات سازگار ہو گئے تو اکتوبر 1946 میں اس کو دوبارہ سے ٹی بی کے مریضوں کے علاج معالجے اور ان کے داخلے کے لیے کھول دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً اٹھارہ سال بعد 1965ء میں یہاں پر پانچ نئے وارڈز جن میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کر کے اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ 1970 میں اوجھا سینیٹوریم کو صوبہ سندھ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ 1973

 میں اس کو "سینیٹوریم" سے ترقی دے کر "انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز" کا درجہ دیا گیا جس میں ٹی-بی کی بیماری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔ 1994 میں "کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان" کی طرف سے یہاں پر کروائے جانے والے ڈپلومہ کورسز کو تسلیم کیا گیا۔ 1997 میں گلوبل ٹی-بی یُونِٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جینیوا، سارک، ٹیوبرکلوسز سینٹر کھٹمنڈو، نیپال نے "ٹی-بی" کی روک تھام اور اس کی تعلیم کے لیے کراچی کے اس انسٹیٹیوٹ کی خدمات کو بیحد سراہا۔ دسمبر 2003 میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو "اوجھا" کو اس کا "کیمپس" بنا دیا گیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اب تک آٹھ ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس اور بیس دوسرے انسٹیٹیوٹ کے ریزیڈنٹس کو بھی تعلیم و تربیت دے چکا ہے۔ یہاں پر اس وقت 850 فیکلٹی ممبرز کے علاوہ تقریباً تین ہزار کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں۔"حکمت" اوجھا خاندان کا خاندانی پیشہ تھا۔ تاریخی طور پر اس خاندان کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا۔

 ٹھٹھ ماضی میں حکمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ سکھرام داس اوجھا کا شفا خانہ میری ویدر ٹاور کے قریب لکھمیداس اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خاص طور پر تپِ دق (ٹی بی) کے علاج کے ماہر تھے۔ طبی پیشے میں دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے حکمت کی تعلیمات کے لیے رجوع کرتے تھے۔ یہ اُس زمانے کے ایک ماہر حکیم تھے-سینی ٹوریم کی توسیع-ٹی بی مرکز کے لیے حکومت نے دیھ صفوراں میں 127 ایکڑ پر محیط پلاٹ بطور عطیہ دیا۔ یونائیٹڈ مشن ٹیوبرکلوسز سینی ٹوریم آف معدناپالی، آندھرا پردیش کے میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ڈاکٹر فریموٹ مولر نے اس کے ڈیزائن میں مدد فراہم کی اور پھر 16 جون 1939ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر نہال داس وزیرانی نے دیپ چند ٹی اوجھا کے نام پر بننے والے ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ عمارت کی تعمیر کا کام ویلجی ہرکا پٹیل اینڈ سنز کو سونپا گیا۔20 کمروں پر مشتمل ہسپتال، 3 کمروں پر مشتمل انتظامی بلاک، 2 رہائش گاہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا وید (یعنی آیور وید کے معالج) کے لیے بنائی گئیں، عملے کے لیے (ڈاکٹر کائی خوشرو اسپینسر کے اہل خانہ کی جانب سے عطیے کے طور پر) 4 کوارٹرز اور خادمین کے لیے 30 کمروں پر مشتمل بلاک کا تعمیراتی کام انجام دیا گیا۔ کمپلیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مریضوں کے لیے 64 کاٹیجز ایک دوسرے سے 80 فٹ کے فاصلے پر موجود تھے، ان میں سے چند کاٹجز 2 کمروں پر مشتمل تھے۔ہر ایک یونٹ میں سونے کا کمرا، باورچی خانہ، لیٹرین اور برآمدہ بنا ہوا تھا۔ تمام کاٹجز عطیات کے ذریعے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک کاٹج پر ایک ہزار 400 روپے کی لاگت آئی  -برآمدے میں عطیہ دینے والے اپنی تختی نصب کرتے۔ ایک تختی پر (انگریزی زبان میں) لکھا ہے کہ 'خان بہادر دادا بھائی منصف کی پاکیزہ یاد میں جنہوں نے 19 فروری 1910ء کو وفات پائی۔یہ عطیہ ان کی اہلیہ گل بانو ڈی منصف کی جانب سے دیا گیا'۔

 ایک دوسری تختی پر رقم ہے کہ، 'بچو بائی نادرشا ایڈولجی ڈنشا کی پیاری یاد میں یہ ان کے بھائیوں کی جانب سے تعمیر کروایا گیا جو ان کی جدائی کو بھول نہیں پائے'۔ ایک تختی پر یہ تحریر ہے کہ، 'یہ سیٹھ جیون جی کریم جی مرسی والا نے اپنی زوجہ بائی امتل بائی کی یاد میں تعمیر کروایا'۔سیٹھ ڈونگرسی جوشی نے تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال عطیے کے طور پر تعمیر کروایا۔ سر ڈیوڈ سسون نے برقی جنریٹر فراہم کیا، جو پونا سے منگوایا گیا تھا اور پاور ہاؤس تعمیر کروایا۔ سکھ رام داس نے سینی ٹوریم میں اپنی وقتاً فوتاً رہائش کے لیے اپنے پیسوں سے بنگلہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ادارے کے اعزازی منیجرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ 8 جنوری 1942ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ لنلتھگو نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں اس میں مسافر خانہ اور چھوٹا گرجا گھر کا اضافہ کیا گیا-دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے اس عمارت کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے امریکی آرمی کا بیس بنانے کے ساتھ جنگی قیدیوں اور پولش مہاجرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ اس عمارت کو دوبارہ 1946ء میں دیپ چند ٹی اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم کے طور پر بحال کردیا گیا۔   

ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

امام علی نقی علیہ السلام


  امام علی نقی علیہ السلام ایک دن کسی اهم کام کی وجہ سے سامره سے ایک دیہات کی طرف جارهے تھے ۔ اسی دوران ایک عرب نے امام علیہ السلام کے بارے میں معلوم کیا تو اس کو بتایا گیا کہ امام  فلان دیہات کی طرف روانہ هوئے هیں، وه عرب اس قریہ کی طرف چلنے لگا۔ جب وه حضرت کے محضر مبارک میں  پہونچا تو اس نے کہا: میں کوفہ کا رهنے والا هوں اور آپ کے جد بزرگوار امیرالمؤمنین کی ولایت کے متمسّکین میں سے هوں، لیکن بڑے بھاری قرض نے میری کمر توڑ دی هے، وه اس قدر بھاری هے کہ میں اسے تحمّل کرنے کی تاب نهیں رکھتا هوں۔ اور آپ کے علاوه میں کسی کو نهیں پہچانتا کہ وه میری ضرورت کو پورا کرسکے۔ امام علیہ السلام   نے پوچھا: تمهارا قرض کتنا هے ؟ اس نے عرض کیا: تقریباً دس هزار درهم ۔

امام علیہ السلام  نے اسے تسلّی دی اور فرمایا: تم ناراض نہ هو تمهاری مشکلیں حل هوجائیں گی۔ میں جو حکم تمهیں دوں اس پر عمل کرو اور اس کے انجام دینے میں تکلّف نہ کرنا۔ یہ میرا نوشتہ اپنے پاس رکھو۔ جب تم سامره میں آؤ تو اس ورقہ میں لکھے هوئے مبلغ کا مجھ سے مطالبہ کرو، هرچند لوگوں کے مجمع میں هو اور اس کام میں ذرّه برابر کوتاهی سے کام نهیں لینا۔

امام کے سامره واپس هونے پر وه مرد عرب، حضرت کے محضر مبارک میں آیا جبکہ خلیفہ کے جاسوس، ایجنٹ اور کچھ لوگ وهاں بیٹھے هوئے تھے، اس آدمی نے امام کا لکھا هوا خط انهیں دکھا کر اپنے قرض کا مطالبہ اور اصرار کرنے لگا ۔امام علیہ السلام  نے بڑی نرمی و مهربانی سے اس کی تاخیر کی معذرت خواهی کی اور اس سے مهلت کی درخواست کی تاکہ مناسب وقت پر اسے ادا کریں،

 اس نے کہا مجھے ابھی چاهئے ۔ یہ ماجرا متوکل تک پہونچا ۔ اس نے دستور دیا کہ تیس هزار دینار امام کو دیئے جائیں۔ امام نے ان تمام دیناروں کو لے کر اس مرد عرب کے حوالہ کردیا، اس نے دیناروں کو لے کر کہا: خداوند عالم بہتر جانتا هے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قررا دے۔ائمہ معصومین  علیہم  السلام خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاهر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار هیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے هیں:

"طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ” هر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا هے اور هر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی هے اور هر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا هے 

اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار هوگئی هیں ۔

زید بن موسی۔ نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان هیں اور میں ان کے والد کا چچا هوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی علیہ السلام  سے بیان کردی، امام  نے فرمایا:

تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا هوتا هے ۔دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی علیہ السلام  کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل هونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام  علیہ السلام  اندر داخل هوئے جس وقت زید کی نظر امام علیہ السلام  پر پڑی اور امام کی هیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا هوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا ۔ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔

امام علی نقی علیہ السلام  رات کے وقت بارگاه پروردگار میں حاضر هوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر هوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نهیں هوا کرتی تھی اور مسلسل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ ” الٰهي مُسيٌء قد وَرَدَ، و فقيرٌ قد قَصَدَ، لا تُخيِّبْ مسعاه و ارحَمهُ و اغفر لَه خَطۡاَهُ؛ اے میرے پروردگار تیرا گنہگار بنده تیرے پاس آیا هے اور ایک تہی دست تیری بارگاه میں حاضر هوا هے اس کی سعی و کوشش کو ناکام نہ کرنا اور اسے اپنی رحمت و عنایت کے سایہ میں قرار دے اور اس کی لغزشوں کو معاف کردے  

 ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔امام علی نقی  علیہ السلام  کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نهیں هیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف هیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی هے ۔  "خدا کی قسم وه روئے زمین پر الله کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل هیں

جمعرات، 30 نومبر، 2023

اھلاً و سھلاً مرحبا 'ولا دت امام زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 اھلاً و سھلاً مرحبا 'بے شک منجانب پرور دگار عالم  یہ ہمارے لئےروز سعید ہے- ولا دت با سعادت فرزند نبی امام زین العابدین علیہ السّلام تمام خانوادے بنو ہاشم اور کائنات کی تمام مومن مخلوقات کومبارک ہو

 والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ،یعنی آپ نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔ علم: امام زین العابدین علیہ السلام کا علم آل رسول کا علم ہے اور آل رسول کا علم ان کے جد امجد والا ہی علم ہے کہ جو بیٹے کو باپ سے باپ کو جد امجد سےاور جد امجد کو جبرائیل سے اور جبرائیل کو خدا سے ملا ہے۔اہل سنت اور شیعہ علماء نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سے علوم، دعائیں، نصیحت بھری باتیں، تفسیر، حلال و حرام کے شرعی احکام اور مختلف واقعات وغیرہ کو نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث یا کسی قول کو امام علیہ السلام نے کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیا بلکہ ان سب چیزوں کا مصدر رسول خدا ہیں۔ تمام لوگ علوم میں اہل بیت کے محتاج ہیں اور اہل بیت کسی بھی شخص کے محتاج نہیں ہیں۔امام زین العابدین علیہ السلام فقیہ اور محدث تھے اور اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرح فقہی مسائل کی تمام جوانب اور فروعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔جب بھی امام زین العابدین علیہ السلام ایسے نوجوانوں کو دیکھتے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں قریب کر لیتے اور فرماتے خوش آمدید آپ لوگ علم کے امانت دار ہو، آج آپ لوگ اپنی قوم کے چھوٹے شمار ہوتے ہو لیکن عنقریب آپ قوموں کے بڑے بزرگ بن جاؤ گے۔ جب بھی کوئی طالب علم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تو امام علیہ السلام اسے خوش آمدید کہتے اور فرماتے کہ تم ہی رسول خدا کی وصیت کے مصداق ہو۔

جب بھی کوئی طالب علم زمین پہ موجود کسی بھی خشک یا تر چیز پہ قدم رکھتا ہے تو زمین کے ساتوں طبقے اس کے لیے تسبیح بجا لاتے ہیں۔کسی بھی شخص کا امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس علوم محمدیہ و علویہ ہونے کے بارے میں اختلاف موجود نہیں ہے اگر ظالم و جابر حکمران امام زین العابدین علیہ السلام کو نظر بندی اور جاسوسی جال کی قید میں نہ رکھتے تو یہ علوم ہر طرف پھیل جاتے اور کتابیں ان سے بھر جاتیں۔عبادت اور اخلاق: جب نماز کا وقت آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور رنگ پیلا پڑ جاتا اور جسم کانپنے لگتا۔امام زین العابدین علیہ السلام ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز ادا کرتےاور بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتوں اعضاء سجدہ پہ گہرے نشان پڑ گئے۔امام زین العابدین علیہ السلام نےایک اونٹنی پہ بیس مرتبہ حج کیا لیکن اسے کبھی ایک مرتبہ بھی چھڑی سے نہ مارا۔امام زین العابدین علیہ السلام ہر اس شخص سے بھی نیکی اور بھلائی سے پیش آتے کہ جو انھیں اذیت دیتا۔ ہشام بن اسماعیل مدینہ کا گورنرتھا وہ جان بوجھ کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو اذیت پہنچاتا رہتا تھاجب ولید نے اسے معزول کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ وہ راستے میں کھڑا ہو جائے تا کہ ہر شخص اس سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے ہشام اس حکم کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت ڈرا ہوا تھا لیکن امام سجادعلیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اصحاب کو اس سے سختی سے پیش نہ آنے کی نصیحت کی پھر امام زین العابدین علیہ السلام خود ہشام کے پاس گئے اور اس سے کہا تمہیں ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے ہم اسے پورا کریں گے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیاایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ:

”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔ ۔جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں، چنانچہ 95 ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دے دیا ، امام مظلوم حضرت علی ابنِ حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام 25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کے فرزند اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں امام حسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کے پہلو میں کی گئی ا

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر