کہتے ہیں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا ہے -کیا کبھی آپ نےایسا بھی کوئ سودائ دیکھا ہو گا جو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر زمانے بھر کی پرانی چیزیں جمع کرنے لگ جائے جی ہاں یہ ہیں حیدر آباد دکن کے سالار جنگ-توآئے ان کے میوزیم کی غائبانہ سیر کرنے چلیں -حیدرآباد موتیو ں نگینو ںاور جوا ہر ا ت 'ومحلا ت کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔
دس ایکڑ اراضی پر پھیلے اس میوزیم میں نو ہزار مخطوطات، 43ہزار نوادرات اور47ہزار کتابیں ہیں۔گیلریوں میں چوتھی صدی اتنے پرانے نوادرات بھی ہیں۔ان میں انڈین ، ایشیائے مشرق آرٹ ، یوروپین آرٹ، مشرق وسطیٰ آرٹ اور بچوں کے آرٹ پر مشتمل گیلریاں ہیں۔ میوزیم میں سب سے دلچسپ چیز انیسویں صدی کی برطانوی میوزکل گھڑی ہے۔ سیاح گھنٹہ کے پورے ہونے پر کلاک ہال میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اس مشینی شخص کو دیکھ لیں جو کہ مشین کے اندر سے نکل کر گھنٹی پر ہتھوڑا مارتا ہے۔ میوزیم کا دوسرا اہم اور قیمتی سرمایہ اطالوی مجسمہ ساز جی بی بینزونی کے ذریعہ تراشہ گیا ریبیکا کا مجسمہ ہے
۔ یہاں پر فرانس کے بادشاہ لوئس شانزدہم سے لے کر میسورکے ٹیپو سلطان تک کی ہاتھی کے دانت کی بنی کرسیا ں بھی ہیں۔احترام علی خان کا ماننا ہے کہ تاریخ اور آرٹ کے حوالے سے کوئی جتنے بھی زاویے سے سوچے وہ تمام طرح کے نوادرات یہاں پر موجود پائے گا۔ احترام علی کا یہ بھی اندازہ ہے کہ ان نوادرات کی بدولت یہ میوزیم یوروپ کے میوزموں کو بھی پیچھے چھوڑسکتا ہے۔سالار جنگ میو زیم -یدرآباد جیسے موتیوں اور محلوں کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔
اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔ ان کے اہم نوادرات میں سے ویلڈ ریبیکا نامی سنگ مرمر سے تراشا مجسمہ بھی شامل ہے جو کہ انہوں نے روم سے 1876میں حاصل کیا تھا۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔40سال کی محنت سے ان کے ذریعہ اکٹھا کی گئیں نوادرات آج سالار جنگ میوزیم میں تاریخ اورآرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں اور اس سے متعلق طلبہ کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یوسف علی خان نے نوادرات جمع کرنے کے لیے یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کا سفر کیا۔
بعد میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اپنے نوادرات بیچنے حیدرآباد آنے لگے۔۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔ -ان نوادرات میں گزشتہ نظاموں کی بیگمات کی وہ نادر روزگار جیولری بھی شامل ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت چھوڑی -یہ ایسی جیولری ہے جو ہیروں اور جواہرات سے مزیّن ہے اور ایک ایک جیولری کی قیمت کروڑوں ڈالر مالیت ہے-نظام جو پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے وہ بھی دنیا کا مہنگا ترین ہیرا ہے-نظام کی چھڑی کا دستہ بھی ہیروں سے مزیّن ہےسالار جنگ میوزیم کے خاص کمرہ / گیلری یسالار جنگ میوزیم میں تقریبا 26 الگ الگ گیلریاں ہیں۔ جہاں نایاب و نادر اشیا نظر کو خیرا کردیتی ہے۔ ان گیلریاں میں قابل ذکر ہیں-شعبہ اطفالہاتھی دانت کی تراش کاری و نقش نگار موسیقی والی گھڑینایاب و نادر عصے والا کمرہفوجی ساز و سامان والا کمرہماڈرن انڈین پینٹنگس گیلریہندوستانی مورتیوں کی گیلریہتھیار اور قدیم و جدید تلواروں کی گیلری
سالار جنگ میوزیم کی پہلی منزل میں دو حصے ہیں۔ سالارجنگ میوزیم میں داخلہ فیس 50 روپے فی شخص ہے، جب کہ طلبہ اور سال کے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے یہ مفت ہے۔ طلبہ ٹکٹ مفت داخلہ حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ پیش کرنا ہوگا۔ اگر کوئی کیمرے یا موبائل فون ساتھ لے جانا چاہتا ہے، تو اسے الگ سے 50 روپیے ادا کرنا ہوگا۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹکٹ کی قیمت 500 روپے فی کس ہے۔ آڈیو ٹور کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ تقریباً 90 منٹ کے اس آڈیو ٹور کی فیس 60 روپے فی شخص ہے، مذکورہ رقم میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ سالار جنگ میوزیم کے اوقات جمعہ کے علاوہ تمام دنوں میں صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں۔سالارجنگ میوزیم بورڈ کے ممبر اورسالارجنگ خاندان کے چشم وچراغ نواب احترام علی خان کےمطابق’’انہوںنے اپنا پیسہ گانے بجانے جیسی پارٹیوں میں برباد نہیں کیابلکہ انہوں نے اپنی دولت نوادرات جمع کرنے میں خرچ کی جس کی وجہ سے ان کے محل کی دیوان ڈیوڑھی میں ہزاروں نوادرات جمع ہوگئے۔ ان کو گویا زیادہ سے زیادہ نوادرات جمع کرنے کا ایک جنون تھا اور دیکھتے دیکھتے اتنے نوادرات جمع ہوگئ کہ محل میں ان کو رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ لہذا انہوں نے اس کو دوسرے محل میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قبل اس کے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچتا داعی اجل کا بلاوا آگیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں