امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں خداوند عالم نے انسانوں کو فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت وہ کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں جانتا ہے لیکن خداوند عالم نے اسے آنکھ ،کان ،عقل اور دل وغیرہ دیے تاکہ ان اعضائے بدن سے اچھی طرح استفادہ کرتے ہوئے علم و دانش حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہےوَ اللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.[سورہ نحل ، آیت ۷۸] ترجمہ: اور اللہ نے تم لوگوں کو تمہاری ماٶں کے شکم سے نکالا اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیے تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکو۔تاریخ کا مطالعہ ہم کو بتاتا ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء تھے یا بنی عباس کے تھے ان کے پاس دنیاوی دولت کی بہتات تھی لیکن ان کو بس ایک فکر لاحق رہتی تھی کی عوام کہیں آل رسول کی جانب نا جھک جا ئیں یہی بے چینی ان کو اس بات پر اکساتی تھی کی امام وقت کو کسی نا کسی طرح شہید کر دیا جائے -ان کی ساری ساری زندگیا ںاسی تگو دو میں صرف ہو گئیں لیکن وہ دلوں کو فتح کرنے میں ناکام رہے -بس وہ اپنی دولت سے عوام کو خریدتے رہے اور نامراد ہی دنیا سے چلے گئے
عباسی خلیفہ منصور کے دور کا واقعہ ہےایک دن منصور اپنے دربان کو ہدایت کر تے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے حضرت'' امام جعفر'' صادق کو بلایا ہے وہ جب دربار کے اندر آنے لگیں تو ان کومیرے پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر دینا اسی دن حضرت جعفر صادق تشریف لائے اور منصور عباسی کے پاس آ کر بیٹھ گئے منصور نے دربان کو بلا یا اس نے دیکھا کہ حضرت جعفر صادق تشریف فرما ہیں جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا دربا ن بولا خدا کی قسم میں نے حضرت جعفر صادق کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے تھے-منصور کے ایک دربان کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز اسے غمگین و پریشان دیکھا تو کہا اے بادشاہ ‘ آپ متفکر کیوں ہیں بولا میں نے علویوں کے ایک بڑے گروہ کو مروا دیا ہے لیکن ان کے سردار کو چھوڑ دیا ہے میں نے کہا وہ کون ہے ؟ کہنے لگا وہ جعفر بن محمد ہے میں نے کہا وہ تو ایسی ہستی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت میں محو رہتی ہے اسے دنیا کا کوئی لالچ نہیں خلیفہ بولا مجھے معلوم ہے تم اس سے کچھ ارادت و عقیدت رکھتے ہو میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک میں اس کا کام تمام نہ کر لوں آرام سے نہیں بیٹھوں گا چنانچہ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد آئے میں اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اسے شہید کر دینا ۔ پھر حضرت جعفر صادق کو بلایا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑ ھ رہے تھے جس کا مجھے پتہ نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے اس کا عجیب حلیہ تھا وہ لرزہ براندام برہنہ سر اور برہنہ پاؤ حضرت جعفر صادق
کے استقبال کیلئے آیا اور اپ کے بازو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے ابن رسول اللہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو نے بلایا میں آ گیا پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرور ہو تو فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے بجز اس اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چاہوں آ جایا کروں گا آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائے خواب (رات کو سونے کا لباس ) طلب کئے اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نما قضا ہو گئی بیدار ہوا تو نماز ادا کرکے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام کو بلایا تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا حصہ میرے محل پر وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم سے حضرت جعفر صادق کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کر دوں گا اس پر میری طبعیت غیر ہو گئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے میں نے کہا یہ جادو یاسخر نہیں ہے یہ تو اسم اعظم (قرآن کریم ) کی خاصیت ہے جو حضور نبی کریم پر نازل ہو اتھا
ایک راوی کا بیان ہے کہ ہم حضرت جعفر صادق کے ساتھ حج کیلئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے سوکھے درختوں کے پاس ٹھہرنا پڑا حضرت جعفر صادق نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اچانک آپ نے سوکھے درختوں کی طرف منہ کرکے فرمایا اللہ نے تمہیں ہمارے لئے جو رزق و دیعت کیا ہے اس سے ہماری ضیافت کرو میں نے دیکھا کہ وہ جنگلی کھجوریں آپ کی طرف جھک رہی تھیں جن پر ترخوشے لٹک رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ اور بسم اللہ کر کے کھاؤ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھجوریں کھا لیں ایسی شیریں کھجوریں ہم نے پہلے کبھی نہ کھائی تھیں اس جگہ ایک اعرابی موجود تھا اس نے کہا آپ جیسا جادوگر میں نے کبھی نہیں دیکھا امام جعفر صادق نے فرمایا ہم پیغمبروں کے وارث ہیں ہم ساحرو کاہن نہیں ہوتے ہم تو دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی قبول فرما لیتا ہے
اگر تم چاہو تو ہماری دعا سے تمہاری شکل بدل جائے اور تم ایک کتے میں متشکل ہو جاؤ اعرابی چونکہ جاہل تھا اس لئے کہنے لگا ہاں ابھی دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو وہ کتا بن گیا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا حضرت جعفر صادق نے مجھے فرمایا اس کا تعاقب کرو میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے گھر میں جا کر بچوں اور گھر والوں کے سامنے اپنی دم ہلانے لگا انہوں نے اسے ڈنڈا مار کر بھگا دیا واپس آیا تو تمام حال کہہ سنایا اتنے میں وہ بھی آگیا اور حضرت امام جعفر صادق کے سامنے زمین پر لوٹنے لگ ااس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا حضرت جعفر صادق نے اس پر رحم کھا کر دعا فرمائی تو وہ شکل انسانی میں آ گیا پھر آپ نے فرمایا اے اعرابی میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر یقین ہے کہ نہیں ؟ کہنے لگا کہنے لگا ہاں جناب ایک بار نہیں اس پر ہزار بار ایمان و یقین رکھتا ہوں ان کے جد مصطفے کو بھی لوگ جادو گر کہا کرتے تھے (معاذ اللہ) اور ان کی آل پاک کے بارے میں بھی یہی خیال کرنے لگے فرق صرف یہ تھا کہ وہ کافروںمیں سے ہوتے تھے اور یہ منکرین میں سے تھا اس پر بھی خوشی ہے کہ کتابننے کے بعد راہ راست پر تو آ گیا
ایک آدمی آپ کے پاس دس ہزار دینا لے کر آیا اور کہا میں حج کیلئے جا رہا ہوں آپ میرے لئے اس پیسے کوئی سرائے خرید لیں تاکہ میں حج سے واپسی پر اپنے اہل و عیال سمیت اس میں رہائش اختیا ر کوں حج سے واپسی پر وہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے بہشت میں سرائے خرید لی ہے جس کی پہلی حد حضور پر دوسری حضرت علی پر تیسری حضرت حسن پر اور چوتھی حضرت حسین پر ختم ہوتی ہے اور یہ لو میں نے پروانہ لکھا دیا اس نے یہ بات سنی تو کہا میں اس پر خوش ہوں چنانچہ وہ پروانہ لے کر اپنے گھر چلا گیا گھر جاتے ہی بیمار ہو گیا اور وصیت کی اس پروانے کو میری وفات کے بعد قبر میں رکھ دینا لواحقین نے تدفین کے وقت اس پروانے کو بھی قبر میں رکھ دیا دوسرے دن دیکھا کہ وہی پروانہ قبر پر پڑا ہوا تھا اور اس کی پشت پر یہ مرقوم تھا کہ امام جعفر صادق نے جو وعدہ کیا وہ پورا کیا