جمعہ، 3 نومبر، 2023

فرزند نبی ص امام جعفر صادق علیہ السلام

  امام جعفر صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں خداوند عالم نے انسانوں کو فضول اور بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس وقت وہ کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں جانتا ہے لیکن خداوند عالم نے اسے آنکھ ،کان ،عقل اور دل وغیرہ دیے تاکہ ان اعضائے بدن سے اچھی طرح استفادہ کرتے ہوئے علم و دانش حاصل کرے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہےوَ اللَّهُ أَخْرَجَكُمْ‏ مِنْ‏ بُطُونِ‏ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.[سورہ نحل ، آیت ۷۸] ترجمہ: اور اللہ نے تم لوگوں کو تمہاری ماٶں کے شکم سے نکالا اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل دیے تاکہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکو۔تاریخ کا مطالعہ ہم کو بتاتا  ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء تھے یا بنی عباس کے تھے ان کے پاس دنیاوی دولت کی بہتات تھی   لیکن ان کو بس ایک فکر لاحق رہتی تھی کی عوام کہیں آل رسول کی جانب نا جھک جا ئیں  یہی بے چینی ان کو اس بات پر اکساتی تھی کی امام  وقت کو کسی نا کسی طرح شہید کر دیا جائے -ان کی ساری ساری زندگیا ںاسی تگو دو میں صرف ہو گئیں لیکن وہ دلوں کو فتح کرنے میں ناکام رہے -بس وہ اپنی دولت سے عوام کو خریدتے رہے  اور نامراد ہی دنیا سے چلے گئے

عباسی خلیفہ منصور کے دور کا واقعہ ہےایک دن منصور  اپنے دربان کو ہدایت کر تے ہوئے کہنے لگا  کہ میں نے  حضرت'' امام جعفر'' صادق کو  بلایا ہے وہ جب دربار کے اندر آنے لگیں  تو ان کومیرے  پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر دینا اسی دن حضرت جعفر صادق تشریف لائے اور منصور عباسی کے پاس آ کر بیٹھ گئے منصور نے دربان کو بلا یا اس نے دیکھا کہ حضرت جعفر صادق تشریف فرما ہیں جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا دربا ن بولا خدا کی قسم میں نے حضرت جعفر صادق کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھ گئے تھے-منصور کے ایک دربان کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز اسے غمگین و پریشان دیکھا تو کہا اے بادشاہ ‘ آپ متفکر کیوں ہیں بولا میں نے علویوں کے ایک بڑے گروہ کو مروا دیا ہے لیکن ان کے سردار کو چھوڑ دیا ہے میں نے کہا وہ کون ہے ؟ کہنے لگا وہ جعفر بن محمد ہے میں نے کہا وہ تو ایسی ہستی ہے جو اللہ تعالی کی عبادت میں محو رہتی ہے اسے دنیا کا کوئی لالچ نہیں خلیفہ بولا مجھے معلوم ہے تم اس سے کچھ ارادت و عقیدت رکھتے ہو میں نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک میں اس کا کام تمام نہ کر لوں آرام سے نہیں بیٹھوں گا چنانچہ اس نے جلاد کو حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد آئے میں اپنے ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اسے شہید کر دینا ۔ پھر حضرت جعفر صادق کو بلایا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑ ھ رہے تھے جس کا مجھے پتہ نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے اس کا عجیب حلیہ تھا وہ لرزہ براندام برہنہ سر اور برہنہ پاؤ حضرت جعفر صادق 

کے استقبال کیلئے آیا اور اپ کے بازو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے ابن رسول اللہ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو نے بلایا  میں آ گیا پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرور ہو تو فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے بجز اس اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چاہوں آ جایا کروں گا آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائے خواب (رات کو سونے کا لباس ) طلب کئے اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نما قضا ہو گئی بیدار ہوا تو نماز ادا کرکے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد علیہ السلام کو بلایا تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا حصہ میرے محل پر وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالی نے بھیجا ہے اگر تم سے حضرت جعفر صادق کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کر دوں گا اس پر میری طبعیت غیر ہو گئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے میں نے کہا یہ جادو یاسخر نہیں ہے یہ تو اسم اعظم (قرآن کریم ) کی خاصیت ہے جو حضور نبی کریم پر نازل ہو اتھا

 ایک راوی کا بیان ہے کہ ہم حضرت جعفر صادق کے ساتھ حج کیلئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک کھجور کے سوکھے درختوں کے پاس ٹھہرنا پڑا حضرت جعفر صادق نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کر دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اچانک آپ نے سوکھے درختوں کی طرف منہ کرکے فرمایا اللہ نے تمہیں ہمارے لئے جو رزق و دیعت کیا ہے اس سے ہماری ضیافت کرو میں نے دیکھا کہ وہ جنگلی کھجوریں آپ کی طرف جھک رہی تھیں جن پر ترخوشے لٹک رہے تھے آپ نے فرمایا آؤ اور بسم اللہ کر کے کھاؤ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھجوریں کھا لیں ایسی شیریں کھجوریں ہم نے پہلے کبھی نہ کھائی تھیں اس جگہ ایک اعرابی موجود تھا اس نے کہا آپ جیسا جادوگر میں نے کبھی نہیں دیکھا امام جعفر صادق نے فرمایا ہم پیغمبروں کے وارث ہیں ہم ساحرو کاہن نہیں ہوتے ہم تو دعا کرتے ہیں جو اللہ تعالی قبول فرما لیتا ہے

 اگر تم چاہو تو ہماری دعا سے تمہاری شکل بدل جائے اور تم ایک کتے میں متشکل ہو جاؤ اعرابی چونکہ جاہل تھا اس لئے کہنے لگا ہاں ابھی دعا کیجئے آپ نے دعا کی تو وہ کتا بن گیا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا حضرت جعفر صادق نے مجھے فرمایا اس کا تعاقب کرو میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے گھر میں جا کر بچوں اور گھر والوں کے سامنے اپنی دم ہلانے لگا انہوں نے اسے ڈنڈا مار کر بھگا دیا واپس آیا تو تمام حال کہہ سنایا اتنے میں وہ بھی آگیا اور حضرت امام جعفر صادق کے سامنے زمین پر لوٹنے لگ ااس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا حضرت جعفر صادق نے اس پر رحم کھا کر دعا فرمائی تو وہ شکل انسانی میں آ گیا پھر آپ نے فرمایا اے اعرابی میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر یقین ہے کہ نہیں ؟ کہنے لگا   کہنے لگا ہاں جناب ایک بار نہیں اس پر ہزار بار ایمان و یقین رکھتا ہوں ان کے جد مصطفے کو بھی لوگ جادو گر کہا کرتے تھے (معاذ اللہ) اور ان کی آل پاک کے بارے میں بھی یہی خیال کرنے لگے فرق صرف یہ تھا کہ وہ کافروںمیں سے ہوتے تھے اور یہ منکرین میں سے تھا اس پر بھی خوشی ہے کہ کتابننے کے بعد راہ راست پر تو آ گیا

ایک آدمی آپ کے پاس دس ہزار دینا لے کر آیا اور کہا میں حج کیلئے جا رہا ہوں آپ میرے لئے اس پیسے کوئی سرائے خرید لیں تاکہ میں حج سے واپسی پر اپنے اہل و عیال سمیت اس میں رہائش اختیا ر کوں حج سے واپسی پر وہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے بہشت میں سرائے خرید لی ہے جس کی پہلی حد حضور پر دوسری حضرت علی پر تیسری حضرت حسن پر اور چوتھی حضرت حسین پر ختم ہوتی ہے اور یہ لو میں نے پروانہ لکھا دیا اس نے یہ بات سنی تو کہا میں اس پر خوش ہوں چنانچہ وہ پروانہ لے کر اپنے گھر چلا گیا گھر جاتے ہی بیمار ہو گیا اور وصیت کی اس پروانے کو میری وفات کے بعد قبر میں رکھ دینا لواحقین نے تدفین کے وقت اس پروانے کو بھی قبر میں رکھ دیا دوسرے دن دیکھا کہ وہی پروانہ قبر پر پڑا ہوا تھا اور اس کی پشت پر یہ مرقوم تھا کہ امام جعفر صادق نے جو وعدہ    کیا وہ پورا کیا 

جمعرات، 2 نومبر، 2023

نگلیریا دماغ کو کھا جانے والی ایک جان لیوا بیماری

 

  کراچی کے     ایک  اور نوجوان کو  موت کے فرشتے نے اچک لیا کراچی کے شہریوں کے لئے یہ کوئ  خاص خبر نہیں کیونکہ شہریوں نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے -شہر میں جگہ جگہ کچرے کےمتعفن پہاڑ ہیں لیکن اٹھانے والا کوئ نہیں -یہی وجہ کہ آئے دن شہر میں طرح طرح کی بیماریاں اور وبائیں جنم لیتی ہیں اور شہریوں کی جانیں نگل لیتی ہیں -لیکن اس خبر کا تعلّق اور بیماریوں کے بر خلاف صاف پانی سے ہے-یہ بلکل تازہ خبر ہے-کراچی میں نگلیریا سے ایک اور نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔ محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کے مطابق نارتھ کراچی کا رہائشی 22 سال کا محمد ارسل 27 اکتوبر سے نجی اسپتال میں زیرعلاج تھا۔ ترجمان صوبائی محکمہ صحت کے مطابق محمد ارسل کے پی سی آر ٹیسٹ میں نگلیریا مثبت آیا تھا۔ محکمہ صحت کے مطابق اس کے بعد علاقے سے پانی کے نمونوں کیلئے ٹاؤن سرویلنس کو آرڈینیٹر کو مطلع کر دیا ہے۔ محکمہ صحت نے بتایا کہ اس سال سندھ میں نگلیریا سے ہلاکتوں کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔ نگلیریا کس کو کہتے ہیں -نگلیریا ایک پانی سے پھیلنے والی خطرناک بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کی تین چار روز میں ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کا جرثومہ صاف کچھ گرم اور نمی والے پانی میں پایا جاتا ہے جو کہ پینے یا ناک میں پانی ڈالنے کے دوران میں انسانی دماغ میں منتقل ہو جاتا ہے اور پورے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے اس لیے اس کو دماغ کھانے والا امیبا بھی کہتے ہیں، جبکہ اس بیماری کو پھیلانے والے جراثیم کا اصل نام نگلیریا فاؤلیری ہے۔

 اس مرض کا جرثومہ چشموں، واٹر پارکوں اور مشینوں سے نکلنے والے پانی اور ایسے پانی میں پایا جاتا ہے جس میں کلورین کی کم مقدار شامل کی گئی ہو۔ یہ مرض سردیوں کی نسبت گرمیوں میں زیادہ حملہ کرتا ہے۔اس مرض میں مبتلا شخص کو شروع میں متلی ہونے لگتی ہے اور سونگھنے کی حس میں بھی فرق آ جاتا ہے-یہ مرض ابھی تک اتنا عام نہیں ہوا۔ اور پچھلے سال اس پوری دنیا میں اس مرض کے چار سو کیسز سامنے آئے۔ لیکن بہر حال اس مرض کی خطرناکی کے باعث احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے-نگلیریا کا مرض کیا ہے اور یہ کس طرح انسان کو متاثر کرتا ہے اور اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔

نگلیریا صاف پانی میں افزائش پانے والا ایسا جرثومہ ہے جو ناک کے ذریعے دماغ کی جھلی کو متاثر کرتے ہوئے انسانی دماغ کو کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔نگلیریامنہ کے ذریعے سے دماغ تک نہیں پہنچتا ہے، نہ ہی یہ جرثومہ کھارے پانی میں زندہ رہ پاتا ہے، طبی ماہرین کے مطابق نگلیریا سے بچاؤ کیلئے پانی میں کلورین کی 0٫5 فیصد ہونا ضروری ہے۔ماہرین طب کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھروں میں موجود ٹینکوں کو سال میں کم سے کم دو بار صاف کیا جائے، کلورین کی گولیوں کا استعمال کیا جائے،پینے اور وضو کیلئے پانی کو 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابالنا نگلیریا کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ان کے شہریوں کو نگلیریا سے بچاؤ کے لیے واٹر بورڈ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار کو یقینی بنائے، اس کے علاوہ سو ئمنگ پول میں تیراکی کے دوران احتیاطی طور پر ناک کو پانی سے اوپر رکھا جائے۔یک ہفتے کے اندر رپورٹ طلب کرلی -

پیر، 30 اکتوبر، 2023

میں سہاگن بنی !مگر-اپنے ناول سے اقتباس

  مجھے یاد ہے منجھلی آ پا ایک بار اپنی سسرال سے آ کر بہت روئیں تھیں اور انہو ں نے کہا تھا امّا ں یہی حالات رہے تو میں فیصلہ لے لو ں گی '' ''امّا ں نے غضب ناک لہجے میں گرج کر کہا'' کیا فیصلہ لے, لے گی تو ؟تو منجھلی آپا نے کہا تھا میں رفاقت سے خلع لے لوں گی اور امّا ں غسل خا نے سے کپڑے کوٹنے والا ڈنڈا اٹھا لائیں تھیں اور انہو ں نے وہ ڈ نڈامنجھلی آپا کے سر پر جو اٹھایا ہم بہنیں چیخنے لگے اور ابّا نے اپنے کمرے سے دوڑتے ہوئے آ کر امّا ں پیچھےدھکیلتے ہوئے ان کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا اور کہنے لگے کیا کرتی ہو نیک بخت ،امّاں گرج کر بولیں اس کو میری نظروں سے دور کردو ورنہ آج یہ میرے ہاتھ سے مرجائے گی ،امّا ں جو کبھی کسی کو گالیاں نہیں دیتی تھیں ان کے منہ سے منجھلی آپا کے لئے گالیوں کا فوّارہ نکلا اور انہو ں نے ابّا سے چیخ کر کہا یہ اپنی بہنوں کی قبر کھودنے چلی ہے میں اسی کو ختم کر کے چھٹّی کروں اور پھر ابّا منجھلی آ پا کو ان کی سسرال چھوڑ آئے تھے پھر منجھلی آ پا ہمارےگھر کئ ہفتے تک نہیں آئیں تھیں اور اس کے بعد ہم کو پتا چلا کہ وہ موت کے منہ میں پہنچ گئ ہیں مگر ہماری امّاں کا دل نا پسیجا پھر ایک روز ابّا ان سے ملنے گئے تو واپسی پر بہت دل گرفتہ دکھائ دئے اور رات کو مجھے امّاں اور ابّا کی  باتیں کو آوازیں سنائ دینے لگیں  پہلے ابّا کی کمزور لہجے میں آواز آئ ابّا کہ رہے تھے لگتا ہے منجھلی مر جائے گی تب بھی تمھارے کان پر جوں نہیں رینگے گی تو امّاں نے ابّا کو اپنی رعب دارآواز میں جواب دیا اسلا م الدّین موت زندگی اللہ کے ہاتھ ہے وہ جتنی لائ ہے اس سے کوئ نہیں چھین سکتا ہےپھر ابّا نے امّاں سے کہا، میں منجھلی کے گھر ہوتا آیا ہوں ،اس کی طبیعت بے حد خراب نظر آرہی تھی بلکل زرد چہرہ ہو رہا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہےابّا کا لہجہ منجھلی آپا کا زکر کرتے ہوئے اور بھی آزردہ ہو گیا او ر ابّا پھر کہنے لگے نیک بخت تم ہمیشہ منجھلی کو ڈانٹ کر چپ کر دیتی ہو کبھی تو اس کی بھی سن لو ، شائد وہ سچ ہی کہتی ہو ،لیکن امّاں خاموش رہیں لیکن جب ابّا نے کہا-مجھے لگتا ہے منجھلی سسرال کے دکھ ا ٹھا کر مر جائے گی تب امّاں کی خاموشی کی مہر ٹوٹی ابّا کی بات پر امّاں نے ان کو بھڑک کر جواب دیا ، اسلام الدّین پرائے لوگوں میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے،وہ اگر مشکل میں بھی ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں بیٹی کو بلا کر سینے پر مونگ دلنے کو بٹھا لوں ،رہا مرنے اور جینے کا حساب تو جس کی امانت ہے وہ جانے ،لیکن اللہ ہی نے تو نباہ نا ہونے کی صورت میں علیحد گی کی گنجائش رکھّی ہے ،ابّا نے دھیمے لہجے میں کہااور میں نے اپنی جاگتی آنکھو ں سے منجھلی آپا کے جنازے کو قبرستان جاتے دیکھا حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی منجھلی آپا کی شادی سے خو ف ذدہ ہو گئ تھی

 پھر رات کے سکوت میں امّا ں کی آواز مجھ کو سنائ دی

 یاد ہے تمھاری امّاں نے تمھاری چھوٹی بہن نادر ہ کو اس کی سسرال کی مصیبتوں کا رونا سن سن کر کیسے طمطراق سے یہ کہ کر خلع دلوایا تھا کہ ہماری بیٹی کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں یہ خلع نادرہ نے امّاں کے گلے منڈھ کر کہا تھا،،،آ پ میری ماں تھیں ،طلاق لینے میں میری حوصلہ افزائکرنے کے بجائے مجھے سمجھا بجھا کر سسرال بھیجنا تھا ،

 یو ن طلاقن بیٹیا ں ماؤں کے کلیجے پر مونگ دلتی ہیں طلاق کے بعد سارے میکے کا جینا حرام کر کے رکھ دیتی ہیں ،یاد تو ہو گا تمھیں ،ابّا خاموشی سے سنتے رہے اور امّاں نے کہا ،اسلا م الدّین میں تم کو طعنے نہیں دے رہی ہوں بلکہ حقیقت بتا رہی ہو ں ،میرے آگے ابھی تین پہاڑ رکھّےہیں ان کو کھسکاؤں یا بیاہی کو بھی طلاقن بنا دوں انصا ف سے سوچو کہ میں کیا کہ رہی ہوں اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس دکھیا کو دوجی سسرال بھی کیسی ملی-پھر اس نے مرتے دم تک طعنے سنے کہ تو طلاقن ہے اس لئے اپنی اوقات میں رہ کر بات کر وہ تو اللہ نے اس کا پردہ رکھ کر اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ ساری عمر ہی روتی رہتی بہن تمھاری اسی لئے سیانوں کی کہاوت ہے "دوجے میاں سے پہلامیاں ہی بھلا "تم مرد زات ہو ایسی نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہو جس گھر میں ایک طلاق ہو جاتی ہے اس گھر میں دنیا والے رشتے ناطے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ہمارےساتھ بھی یہ لوگ ایسا ہی کریں گے

 ابھی دل پربھاری پتھّر رکھ کر صبر کر لو- اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ،،امّاں کی بات کے جواب میں ابّا کی ایک ٹھنڈی سسکاری سی مجھ کو سنائ دی تم کتنی صحیح با ت کر رہی نیک بخت کہ ہم کو اب باقی کی فکر کرنی چاہئے چہ جائکہ ہم بیاہی بیٹیوں کی الجھنوں میں گرفتاررہیں اورامّاں کی باتوں کے جواب میں ابّا نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا فریال کے رشتے کا کیا ہواتو امّا ں نے ان کو جوابدیا ،ابھی تو بس سلام آیا ہے ،، جب پیام آئے تو جان لو کہ اب بیٹی کو رخصت کرنا ہے ،لیکن تمھارے ماموں کی بیٹی اپنے دیور کے لئے نرگس کا ہاتھ مانگ رہی ہے ،،میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں وہکون سے اچھّے ہیں ،ظالموں کے نرغے میں ایک منجھلی کو ہی دے کر پچھتا رہی ہوں ، ابّا نے کہا

 ہا ں نیک بخت بڑی کو اٹھائے بغیر چھوٹی کو کیسے اٹھا دیں ،نہیں اسلام الدّین بڑی چھوٹی کی کوئ بات نہیں ہے جس کا رشتہ پہلے آئے اسی کو اٹھا نا ہےدیکھ نہیں رہے ہو نرگس کیسے ڈھور ڈنگروں کی طرح منہ کو آرہی ہے رشتہ اچھّا ہوتا تو اس کوفریال سے پہلے ہی ر خصت کر دیتی امّاں نے کہا اور میں اندر سے لرز کر رہ گئ اور پھر ماحول میں رات کا سکوت چھا گیا پھر کچھ ثانئے کے بعد امّاں کی آواز آئ ،اسلام الدّ ین تم بیٹی کی طرف سے اپنا دل میلا نہیں کرنا میں نے اسکو جنم دیا ہے اس کی تکلیف پر میری کوکھ پھڑکتی ہے میں راتوں کو سکون سے سوتی نہیں ہوں مگر میں کیا کروں ،مجبور ہوں ،تم بے فکر رہو کل میں اس کی سسرال جا کر کچھ اس کے ہاتھ پر چپکےسے دے آؤں گی اب تم بھی سو جاؤ سویرے کے اٹھے ہوئے ہو امّاں نے ابّا سے کہا اور پھرشائد میں خود سو گئ تھی

  

ہفتہ، 28 اکتوبر، 2023

ایک جنازے پرشہد کی مکھیوں کا حملہ

مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان مخاصمت بہت پرانی تھی جب انیس سو ساٹھ کی دہائی کی شروعات میں بھٹو ایوب خان کی ہ میں وزیر تھے اور مولوی مشتاق مرکزی حکومت میں سیکرٹری قانون۔جب بھٹو وزیر اعظم انیس سو اکہتر میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے مولوی مشتاق کو لاہور ہائیکورٹ میں ترقی دینے سے انکار کیا تھا۔ مولوی مشتاق جو خود بھی بھٹو کی طرح دشمن کو معاف نہ کرنے والا اور انتقام پسند  تھے،   جنہوں                      نے بھٹو کو کبھی معاف نہیں کیا۔مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا جس کا بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی -اور    بتا تے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ میں نے انہیں بھٹو کی پھانسی روکنے کی درخواست کی لیکن وہ نہ مانے اور انتقال کے بعد جب مولوی مشتاق حسین کا جنازہ جا رہا تھا تو میں بھی اس میں شریک تھا۔اداکار شاہد بتاتے ہیں کہ اس جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ سمیت ان سب ججوں کو مکھیوں نے کاٹا، جنہوں نے بھٹو کو سزائے موت دی تھی، اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے شائد یہ اس فیصلے کا ردعمل تھا۔جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔بھٹو نے سینیارٹی نظرانداز کرتے ہوئے انہیں چیف جسٹس نہیں بنایا تھا لہذا مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے خلاف فیصلہ سنانے میں انصاف کے سب تقاضوں کو پامال کیا۔

 مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی لیکن یہاں ہمیں ان ججوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے تمام تر دباؤ کے باوجود فوجی جرنیلوں کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے لکھنے سے انکار کیا۔انہی میں سے ایک بہادر جج چوہدری غلام حسین بھی تھے۔ وہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت کے سربراہ تھے۔ ان کی عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکا کرانے کا مقدمہ زیرسماعت تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب ''جج، جرنیل اور جنتا‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک دن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ بھٹو کے خلاف فیصلہ سنا دو تو تمہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دوں گا۔ چوہدری صاحب نے انکار کر دیا لہذا وہ ہائی کورٹ کے جج نہ بن سکے اور پھر مولوی مشتاق حسین کو نواب محمد احمد خان قتل کیس میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانا پڑی۔

چوہدری غلام حسین کی کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے کبھی کبھی کچھ منصفوں کو انصاف کی بجائے ناانصافی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ناانصافی کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے، جو مولوی مشتاق حسین کا ہوا۔ نہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مولوی مشتاق ہیں نہ ہی  ذوالفقار علی بھٹو، پھر بھی نہ جانے کیوں وقت کے پرانے گنبد سے یہ سوال باز گشت بن کر ذہن سے ٹکرانے لگا ہے ”مولوی مشتاق کسے یاد ہے؟“۔مولوی مشتاق محض ایک جج کا نام نہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگوں کے ساتھ ایک سلوک کا نام ہے۔ تاریخ کے گالوں پر اسی تھپڑ کا نام ہے۔ یاد ہے ملک کے منتخب اور تاریخ کے متنازع لیکن مقبول ترین وزیر اعظم کی پنجاب ہائی کورٹ میں قتل کے مقدمے میں پیشیاں اور پیشیوں کے دوران مولوی مشتاق کا رویہ بھٹو کے ساتھ جلّادوں سے بھی برا تھا۔ یاد رہے ایک ایسے ہی موقع پر چیف جسٹس مولوی مشتاق نے فائل بھٹو کے وکیل ایم ڈی اعوان کے منہ پر دے ماری تھی! بھٹو کو نام کا مسلمان کہا گیا اور اس کے عقیدے کے متعلق بھی سوال اٹھائے گئے۔ وہ سلوک جو ایک وزیر اعظم تو درکنار ایک پاکستانی شہری اور ایک ملزم سے ہونا چاہئے تھا مولوی مشتاق جیسے جج نے وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو سے گوارا نہیں کیا تھا۔

کبھی نہیں ہوا کہ اوریجنل حدود اربع والی عدالت یا ٹرائل سیشن عدالت کے بجائے قتل کا مقدمہ براہ راست ہائیکورٹ میں چلایا جائے بھٹو کے کیس میں ان کے ساتھ یہی ہوا کہ ایمرجنسی میں لاہور ہائیکورٹ میں متعین کردہ جج مولوی مشتاق حسین نے مقدمہ سیشن عدالت سے لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے کا حکم دیا اور جو بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ سننے والی بنچ تشکیل دی گئی تھی اس کے سربراہ چیف جسٹس مولوی مشتاق خود تھے۔ جنرل ضیاء جو مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان اس بیر کے متعلق سب جانتے تھے اور جن کی خود چھ سینئر جنریلوں کو نظرانداز کر کر چیف آف دی آرمی اسٹاف کے عہدے پرترقی دالونے والے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل جیلانی تھے (جو بعد میں پنجاب کے گورنر اور شریف خاندان کے اصل محسن اور ان کو سیاست میں لانے والے بھی بنے) نے بھٹو حکومت کے دھڑن تختہ کرنے کے بعد مولوی مشتاق حسین کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرری کے احکام دیئے۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے نایاب موتی کے ایم صمدانی نے جب بھٹو کی ضمانت کی درخواست منظور کردی تو مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے اور خود کو اس بنچ کا سربراہ مقرر کیا، باقی سب تاریخ ہے۔اصل میں پاکستان کی بدقسمتی چار اپریل انیس سو نواسی کو نہیں اٹھارہ مارچ انیس سو اٹھہترکو شروع ہوتی ہے جب مولوی مشتاق کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔

 

جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

حضرت اما م حسن عسکری علیہ السّلام

 

حضرت اما م حسن عسکری علیہ السّلام

ولادت مبارک-گلستان نبوّت میں امامت کی منزل پر آپ کا ظہور ہوا تو تمام بنو ہاشم نے تبریک و تہنیت کا اہتمام کیا اور آپ کا نام نامی جو خداوند عالم کے پاس لوح محفوظ میں درج تھا وہ رکھّا گیا

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا -آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ -جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام  علیہ السّلام نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔

آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت:

آپ کی ولادت 232 ہجری میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ ابن معتصم بادشاہ وقت تھا جو 227 ہجری میں خلیفہ بنا تھا ۔  پھر 233 ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا۔ جو حضرت علی علیہ السّلام  اور ان کی اولاد سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا،  ۔ اسی نے 236 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت جرم قرار دی اور ان کے مزار کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی نے امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سرمن رائے میں طلب کرا لیا، ، اور آپ کو گرفتار کرا کے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی ، پھر 247 ہجری میں مستنصر بن متوکل خلیفہ وقت ہوا پھر 248 ہجری میں مستعین خلیفہ بنا، پھر 252 ہجری میں معتز باللہ خلیفہ ہوا، اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہر سے شہید کر دیا گیا پھر 255 ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا، ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آل محمد کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کا دستور چلا آ رہا تھا۔

تاریخ ابو الفداء

امام حسن عسکری علیہ السّلام کا پتھر پر مہر لگانا:

ثقۃ الاسلام یعقوب کلینی اور امام اہلسنت علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:

ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔

اصول کافی، کلینی، یعقوب، ج 1، ص 503

پہلا دور بچپن کے وہ 13 سال ہیں جو انہوں نے مدینہ میں گزارے۔

دوسرا  دور  جوآ  نے امامت سے قبل سامرا میں گزارا۔تیسرا دور ان کی امامت والے 6 سال ہیں۔ ان چھ سالوں میں حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس وقت وہاں پر خلیفہ ہارون کی تقلید کرنے والے اپنی ظاہری طاقت کا مظاہرہ کرتے مگر امام ہمیشہ باطل مقابلے کے لیے میدان عمل میں کار فرما رہے۔ اپنی امامت کے چھ سالوں میں سے تین سال امام علیہ السلام قید میں رہے۔ قید خانے کے انچارج نے دو ظالم غلاموں کو مقرر کر رکھا تھا کہ آنحضرت علیہ السلام کو آزار پہنچائیں لیکن جب ان دو غلاموں نے امام علیہ السلام کے حسن سلوک اور سیرت کو نزدیک سے دیکھا تو وہ امام کے گرویدہ ہو گئے۔جب ان غلاموں سے امام حسن عسکری کا حال پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ یہ قیدی دن کو روزہ رکھتا ہے اور شب بھر اپنے معبود کی عبادت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے، وہ (امام حسن عسکری علیہ السلام اس دور کے زاہد ترین انسان ہیں۔

عبید اللہ خاقان کے بیٹے نے کہا ہے کہ:

میں لوگوں سے ہمیشہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے احترام اور محبت پا‏ئی جاتی تھی۔ امام حسن عسکری  علیہ السلام اپنے خاص شیعوں سے ملا کرتے تھے مگر پھر بھی عباسی خلیفہ اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ تر ان پر نظر رکھتا اور  قید میں رکھ کر عام لوگوں سے ملاقات سے روکا کرتا تھا۔اہلبیت علیہم السلام محور خیر و برکت:ابو ہاشم جعفری نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے آیت:

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَیْراتِ ،

کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

کلّهم من آل محمّد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ( الظالم لنفسه ) الّذی لا یقرّ بالإمام و ( المقتصد ) العارف الإمام، و ( السابق بالخیرات ) الإمام.

سب محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں۔ جس نے امام کا اعتراف نہ کیا اس نے خود پر ستم کیا ، اور جس نے امام کو کما حقہ پہچان لیا اس نے میانہ روی اختیار کی۔ خدا کے احکام اور نیکی میں پہل کرنے والی بھی امام ہی کی ذات اقدس ہے

بدھ، 25 اکتوبر، 2023

حضرت سلیمان علیہ السّلام کی وراثت

  حضرت داود علیہ السّلام  کی وفات کا وقت قریب آ چکا تھا جبکہ حضرت داود علیہ السّلام بے پناہ دولت کے مالک تھے اور بروائتے آپ کے سولہ بیٹے تھے جن میں سے ہر بیٹا چاہتا تھا کہ حضرت داود علیہ السّلام کی جانشینی اس کو ملے لیکن ابھی حضرت داود علیہ السّلام کسی فیصلے پر نہیں پہنچے تھے کہ عرش بریں سے حضرت جبرئیل امیں تشریف لے آئے اورایک سر بمہر لفافہ حضرت داود علیہ السّلام کو دیا اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تمام بیٹوں کو جمع کیجئے اور پھر یہ لفافہ کھولئے اس میں جو سوال ہیں جو بیٹا ان کے پورے پورے درست جواب دے گا وہی آپ کی جان نشینی کا حقدار ہو گا -چنانچہ وقت مقررہ پر جب تمام بیٹے جمع ہو گئے تب حضرت داود علیہ السّلام نےلفافہ کی مہر جدا کر کے سوال کئے لیکن سوائے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے کوئ بیٹا درست جواب نہیں دے سکا اور اس طرح حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داود علیہ السّلام کے جان نشین قرار پائے اور حضرت داود علیہ السّلام کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدا داور تمام مال مویشی کے وارث ہوئے- شاہی محل کی بارہ دریوں میں بے فکری کی زندگی گزارنے والے اللہ کے فرماں بردار، وہ کم عُمر نوجوان ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم بھی نہ رکھ پائے تھے کہ اُن کے والد محترم اللہ کے نبی اور بادشاہِ وقت حضرت دائود علیہ السلام انتقال فرماگئے۔ انھوں نے عُمر ِمبارک کی صرف تیرہ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ عظیم الشّان سلطنت کا بوجھ ناتواں کاندھوں پر آگیا۔ تختِ شاہی پر براجمان ہوئے تو اپنے ربّ کے حضور، کام یابی کی دُعا کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے۔ ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو بھی میسّر نہ ہو۔‘‘ (سورئہ ص،آیت 35) رب العالمین نے اپنے محبوب بندے کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہفت اقلیم بناکر دنیا کی ہر شے کو اُن کا مطیع و فرماں بردار بنادیا۔ نبوّت و حکمت سے سرفراز فرما کر، ہوا، سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرند، انسان، حیوان، جنّات و شیاطین، مال و دولت نباتات و معدنیات، حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کی بولیوں کا علم تک اپنے نبی ؑ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ خود اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ’’ہم نے تندوتیز ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، 81)۔ ’’اور ہم نے جنّات کو بھی اور دوسرے جنّات (شیاطین) کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے، اُن کے ماتحت کردیا۔‘‘ (سورئہ ص، آیات 37-38) ’’اور ہم نے بہت سے شیاطین کو بھی اُن کے تابع کردیا۔‘‘ (سورہ الانبیاء، 82) ’’اور ہم نے اُن کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا۔‘‘ (سورہ سبا،آیت 12)۔ دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام جیسی بادشاہت کسی کو نصیب نہ ہوئی۔جانوروں، پرندوں کی بولیوں کا علم: اللہ کے برگزیدہ بندے اور بنی اسرائیل کے نبی حضرت سلیمان علیہ اللام کے والد بھی نبی تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور ہم نے یقیناً داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم دے رکھا ہے۔‘‘ (سورہ نمل، 15) اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو جانوروں اور پرندوں کی بولیاں جاننے کا علم دیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان جِن وانس اور حیوانات کے عظیم الشان لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے، لشکرِ عظیم چلتے چلتے ایک ایسی وادی میں پہنچا، جو بے شمار چیونٹیوں کا مسکن تھی۔ چیونٹیوں کی ملکہ نے جب انبوہِ کثیرِ، لشکر کو دیکھا، تو کہا۔ ’’اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور اُن کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس کی بات سنی تو مسکرادیے اور اللہ سے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! تُو مجھے توفیق دے کہ مَیں تیری ان نعمتوں ، احسانات کا شُکر بجا لائوں، جو تُونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پرکیے ہیں۔‘‘ (سورئہ نمل، آیات 18-19)۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ ’’نبیؐ نے چار جانوروں (حشرات )کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہُدہُد اور لٹورا۔‘‘ (سنن ابو دائودؑ، 5267)۔ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم: ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سفر کے دوران ہُدہُد کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ہُدہُد اُس وقت موجود نہیں تھا۔ اُس کے بغیر اطلاع غیر حاضر ہونے پر آپ کو غصہ آگیا اور فرمایا۔ ’’اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہیں بتائی، تو اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا۔‘‘ (سورۃ النمل،21)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں سے صرف ہُدہُد کو کیوں بلایا گیا؟ آپ نے جواب دیا، ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے کسی ایسی جگہ قیام فرمایا تھا، جہاں پانی نہیں تھا۔‘‘ قصہ قومِ ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کااللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں کتنی گہرائی میں پانی ہے؟ ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔ ’’ہُدہُد زمین کے اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسے زمین کے اوپر شکاری کا بچھایا ہوا جال نظر نہیں آتا اور عموماً جال میں پھنس جاتا ہے۔‘‘ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 556)۔قومِ سبا پر سیلاب کا عذاب: قومِ سبا800سال قبلِ مسیح کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے، جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سدِّمآرب‘‘ ت انہوں نے ان بندوں سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک مربوط و موثر نظام بھی بنا رکھا تھا، جس کی وجہ سے باغات کے سلسلے سیکڑوں میل دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں یمن، تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا، جس کی شان و شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ وہ قوم مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہوئی، تو اللہ ذوالجلال نے اُنھیں نبیوں کے ذریعے متنبہ فرمایا۔ بالآخر انہیں اُن کی ناشکری اور سرکشی کی سزا دی گئی اور اُنھیں فراہم کردہ تمام نعمتیں سلب کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کا سب سے بڑا بند، سدِمآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوف ناک سیلاب قہرِ خداوندی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا اور اس قوم کا نام و نشان ایسا مٹا کہ دنیا میں اُن کی صرف داستانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ قومِ سبا پر سیلاب کے عذاب کا یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً سوا سو سال قبل یعنی450عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ بند ٹوٹنے کی وجہ سے یہ علاقہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا، سیلاب کے عذاب سے زندہ بچ جانے والے لوگ عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل اوس اور خزرج کا تعلق بھی یمن سے تھا۔ قومِ سبا کی تباہی کے بعد مذکورہ تجارتی شاہ راہ پر قریشِ مکّہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ ،  

منگل، 24 اکتوبر، 2023

ایلو ویرا یا کوار گندل

 

 



 ایلو ویرا آپ کے لئے  کس 'کس طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے آئے دیکھتے ہیں ۔قدیم یونان، مصر، ہندوستان، میکسیکو، جاپان اور چین وغیرہ میں اس کا طبی استعمال صدیوں سے ہورہا ہے اور اسے متعدد امراض سے نجات کا نسخہ سمجھا جاتا ہے۔موجودہ عہد میں یہ افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکا میں اگتا ہے اور ہر سال کروڑون افراد اسے مختلف مقاصد کے لیے مختلف شکلوں جیسے جیل، جوس اور کیپسول وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں -درحقیقت کاسمیٹک، فوڈ اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز قدرت کے اس عجوبے پر انحصار کرتی ہیں جو ہزاروں برسوں سے انسان استعمال کررہے ہیں

 ۔تو اس میں ایسا کیا خاص ہے ؟ تو اس کا جواب اس میں چھپنے اینٹی آکسائیڈنٹس اور جراثیم کش خصوصیات میں چھپا ہے، اس پودے کے پتے 3 تہوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ہر تہہ کا اپنا فنکشن اور استعمال ہے۔

ایلوویرا وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی، ای، بی 1، بی 2، بی 3 اور بی 12؛ پروٹین، لپڈز، امائینو ایسڈز، فولک ایسڈ اور کیلشیئم، میگنیشیئم، زنک، کرومیئم، سیلینیئم، سوڈیئم، آئرن، پوٹاشیئم، کاپر اور مینگنیز جیسے منرلز شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت بہتر رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں اور ان کی کمی سے مختلف اقسام کی بیماریاں ابھر آتی ہیں۔ ہم انسانوں کے لئے اسی زمین سے کیا کیا نعمتیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کا شمار کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے ہیں -ان پیاری پیاری نعمتوں میں ایک بہترین غذائ نعمت ایلو ویرا بھی ہے جو کہ غ‍‍ذا کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بہترین شفا کا بھی باعث ہے-آئیے اس کی شفا اور غذا دونوں طرح کی ا فادیت  پر نظر ڈالتے ہیں ایلو ویرا کے فائدے جاننے سے پہلے آیئے ایلو ویرا کا مختصر تعارف ۔ ایلو ویرا ایلو نسل کی ایک خوشگوار پودوں کی ایک خاص نسل ہے۔ تقریبا پانچ سو نسلوں کے ساتھ ایلو ویرا وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جاتا ہے اور دنیا کے بہت سارے علاقوں میں سے ایک ناگوار نوع سمجھا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب سے نکلتا ہے۔ ایلوویرا کو پنجابی زبان میں کوار گندل کہا جاتا ہے۔ایلو ویرا(کوار گندل) کے فوائد  کواور گندل کے ان گنت فائدے ہیں جن میں سے کچھ کی فہرست دردج ذیل ہیں-ایلو ویرا جسے گھیکوار یا کوار گندل بھی کہتے ہیں ایک ایسا پودا ہے جو اپنے آپ میں بے شمار طبی فوائد کا خزانہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ایلو ویرا کو کھانے میں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ بہت ساری امراض کے علاج میں اپنا عمدہ کردار ادا کرتا ہے۔یہ جلدی امراض جیسا کہ معدے کی خرابی، دانت کا درد، بال کا جھڑنا یا سر کی خشکی جوڑوں اور پھٹوں کی تکلیف، آرائش حسن اور دیگر کئی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔جگر اور تلی کی بیماریوں میں اس کے گودے کو بہت ہی شفا بخش تصور کیا جاتا ہے۔ جو لوگ جگر کی بیماری میں مبتلا ہیں انہیں ایلو ویرا کا استعمال با قاعدگی سے کرنا چاہئیے۔نزلہ زکام اور کھانسی بہت ہی عام سی بیماری ہی جو اکثر کچھ لوگوں میں تو خاندانی پائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ایلو ویرا کے بھونے ہوئے پتوں کا جوس شہد کے ساتھ لینا بہترین علاج ہے۔ ایسا کرنے سے پرانے سے پرانا نزلہ زکام بہت کم عرصہ میں ٹھیک ہو جائے گا۔گھیکوار یا ایلوویرا کمر درد، جوڑوں کے درد میں افاقه دیتی ہے۔ اس کے موئثر علاج کے لیے روزانہ ایک پتے کا گودا کھانا مفید ہے۔ اس پتے کو آپ چاہیں تو قیمہ کے ساتھ کھانے میں کھا سکتے ہیں۔

یہ متعدد غدودوں کو دفعال بنانے میں بھی معاون ہے۔ ایک پتے کا گودا  کالے نمک اور ادرک کے ساتھ روزانہ  صبح دس دن تک استعمال کرنا جگر کی خرابی کے لیے مفید ہے۔ اور غدودوں کے مسائل سے چھٹکارا پانے کا مویئژ طریقہ ہے۔ایلو ویرا یا کوار گندل کے جیل یا گودے کا استعمال چہرے کی جھریوں کو کم کرنے کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔ ایلوویرا میں موجود وٹامن E اور C آپ  کی جلد کی نمی کو برقرار رکھتا ہے۔ایلو ویرا جسم کے مدافعتی سسٹم کو بڑھانے،منہ کے چھالوں، السر اور کینسر میں بھی بہت مفید ہے۔ کوار گندل میں کئی معدنیات اور وٹامن پائے جاتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔ ان میں کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، زنک کمیم، میگنیز، کا پروا میگن یشیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایلو ویرا جیل میں وٹامن B12 کی A,B گروپ C,E اور فولک ایسڈ بھی موجود ہوتا ہے۔ لہذا ایلو ویرا جیل کا با قاعده استعمال ان معدنیات کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ایلو ویرا کا جیل یا گودے کا استعمال چہرے کے دانوں اور کیل مہاسوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ یہ جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔کوار گندل یا ایلویرا کا گودا آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کو دور کرنے اور آنکھوں کی خوبصورتی کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔رمیوں میں اگر ایلو ویرا کے گودے کو چہرے ،ہاتھوں اور پیروں پر لگایا جائے تو آپ کی دھوپ کی شدت سے نیہں ہوتی اورایسے آپ کی جلد کی نمی رونق دونوں برقرار رہتی ہے۔یہ ایک سن بلاک کا بھی کام کرتی ہے، دھوپ میں نکلنے سے پہلے اسے چہرے پر لگانے سے چہرہ کالا نہیں ہوتا۔ دھوپ میں جانے سے پیلے ایلو ویرا کا استعمال کرنا چہرے کو سن برن سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

لڑکیوں کے چہرے اور ناک پر نظر آنے والے بلیک ہیڈز دراصل کھلے منہ والے دانے ہوتے ہیں جو سکن کو خراب رکھتے ہیں اور سکے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا داغ لگاتے ہیں۔ بلیک ہیڈز سے نجات کے لیے بہترین نسخہ ہے ایلو ویرا کا استعمال جو نہ صرف بلیک ہیڈز ختم کرے گا بلکہ چہرے کو پاک صاف کر دے گا۔جل جانے صورت میں ایلو ویرا کا رس لگائیں ، جلن دور اس کے جراثیم کش اثرات زخموں کو خراب ہونے سے بچاتے ہیں اور جہاں چھالے پر جائیں وہ جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔قبض اوربواسیر کی شکایات کے لیے رات کو سونے سے پہلے دو چمچ ایلو ویرا کھالیں اور ساری رات کی شکائیتوں سے بچیں۔ایلو ویرا کا حلوہ کمر کے درد، جوڑوں کی اینتھن اور مجموعی طور پر جسمانی کمزوری دور کرنے کے لئے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ عرق النساء کے مریض بھی ڈاکٹر کے مشورے کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ایلو ویرا جیل  جلد کے داغ دھبوں کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے.مردوں کے لیے چہرے پر شیو کرنے کے بعد ایلو ویرا جیل  کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ چونکہ شیو کے دوران مردوں کے چہرے پر معمولی زخم ہوجاتے تو اس ضمن میں اگر وہ ایلو ویرا کے گودے کو چہرے پر لگائیں تو اس سے انھیں ٹھنڈک  کا احساس بھی ہوگا اور انکے زخم بھی جلد بھر جایئں گے۔

معدے کی گرمی سے نجات

ایلو ویرا جیل جلاب جیسی خصوصیات رکھتا ہے جو نہ صرف آنتوں میں پانی کی مقدار بڑھاتا ہے بلکہ فضلے کی حرکت کو بھی آسان کرتا ہے۔ معدے کی جلن پر قابو پانے کے لیے آدھا کپ ایلو ویرا جیل کھانے سے پہلے پی لیں۔ اس سے  معدے میں جلن یا تزابیت کی شکایت پر ضرورت پڑنے پر پی لیں۔پیٹ اندر کرنے کے لئےتین کھانے کے چمچ ایلو ویرا کا جیل، گرائپ فروٹ ایک کپ دونوں کو ملا کر بلینڈ کر کے پی لیں۔ اس کے استعمال سے پیٹ پر جمی اضافی چربی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی اور جو پیٹ نکلا ہوا ہو گا وہ با آسانی اندر ہو جائے گا۔ایلو ویرا نظام انہضام  کو بہتر کرتا ہےاگر آپکو ہاضمے میں مسلہ درپیش ہو تو آپ ایلو ویرا کے استعمال سے اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مشہور اور مفید طریقہ ہے جس سے آپکا پورا نظام انہضام بلکل درست ہو جاتا ہے۔ یہ قبض اور اسہال کے خاتمے کے لیے بھی انتہائی  کار آمد ہے۔ یہ اخراج کے کے نظام کو بھی درست کرتا ہے۔ایلو ویرا آنتوں کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر