سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتداء کے ہیں ۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے ۔اس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا ومناجات ہے جوبندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے ۔اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہےیہ صراطِ مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
ف۲ صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔(وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69ۭ) 4۔النساء:69) اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ) سے مراد یہودی اور (وَلاَ الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے سورہ فاتحہ‘ چونکہ اس سورہ سے قرآن حکیم کا افتتاح ہوتا ہے اس لیے یہ سورہ فاتحہ کہلاتی ہے۔ اس کا پورا نام ” فاتحہ الکتاب“ یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی سورہ ہے اس سورہ کو افضل القرآن کا نام بھی دیا گیا ہے اور یہ نام اس کی عظمت و رفعت پر دلالت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ احادیث میں بھی اس سورہ کے 30 نام اور بھی مذکور ہوئے ہیں اور شاید قرآن حکیم کی یہی واحد سورہ ہے جو اتنے بہت سارے ناموں سے مشہور ہے۔ اس کا ایک نام ام القرآن ہے۔ اسے ام القرآن اس لیے کہتے ہیں کہ یہ سورہ قرآن حکیم کے تمام مضامین کا نچوڑ ہے اور تمام روحانی عقائد کی بنیاد ہے۔ بعض علماءنے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ متن ہے اور پورا قرآن اس متن کی شرح ہے۔ اس سورہ کو ”سورہ الشفا“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورہ مختلف بیماریوں کیلئے وجہ شفا ثابت ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ کسی شخص کو سانپ نے کاٹ لیا۔ حضرت ابوسعید خدری نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔ تفسیر بیضاوی میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ تمام جسمانی بیماریوں کیلئے شفاءہے۔ اس سورہ کا ایک نام ”کافیہ“ بھی ہے۔ یہ سورہ ایک مومن کیلئے ہر اعتبار سے کافی ہے۔
یہ سورہ دوسروں کی محتاجی سے روکتی ہے۔ ایک بار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیں اور بقیہ تمام قرآن فاتحہ کے علاوہ ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھدیں تو سورہ فاتحہ کا وزن سات قرآنوں کے برابر ہوگا۔ (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر عزیزی) اس سورہ کا ایک نام ”کنز“ بھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سورہ عرش الٰہی کے خصوصی خزانوں میں سے عطاءکی گئی ہے۔ صوفیاءسے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں موجود ہے اور جو کچھ قرآن حکیم میں ہے۔ اس کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے اس کا خلاصہ بسم اللہ میں ہے۔ اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ‘تمام قرآن میں سے صرف اسی صورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔ اتنے اوصاف والی قرآن کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ اس سورت کے ناموں میں سے سورہ الحمد اور سورۃ الحمدللہ رب العالمین بھی ہے۔
( بخاری و دار قطنی ) اس لئے کہ اس میں اصولی طور پر خدائے تعالی کی تمام محامد مہمہ مذکور ہیں اور اس کو الشفاء و الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ سنن دارمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے ( دارمی ‘ رضی اللہ عنہ 430 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابی نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی ( بخاری ) ان ناموں کے علاوہ اور بھی اس سورۃ شریفہ کے کئی ایک نام ہیں مثلاالکنز ( خزانہ ) الاساس بنیادی سورہ الکافیہ ( کافی وافی ) الشافیہ ( ہر بیماری کے لئے شفاء ) الوافیہ ( کافی وافی ) الشکر ( شکر ) الدعاء ( دعا ) تعلیم المسئلہ اللہ سے سوال کرنے کے آداب سکھانے والی سورت ) المنا جاۃ ( اللہ سے دعا ) التفویض ( جس میںبندہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ) اور بھی اس کے کئی ایک نام مذکور ہیں یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اعطیت فاتحۃالکتاب من تحت العرش ( الحصن ) یعنی یہ وہ سورت ہے جسے میں عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دیا گیا ہوں جس کی مثال کوئی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن میں یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے عطاہوئی