بدھ، 31 اگست، 2022

یہ سیلاب نہیں قہر الٰہی ٹوٹ پڑا تھا

 

 

حالیہ دنوں میں آنے والا سیلاب توآ کے چلا گیا ہے لیکن تباہی کی دلخراش داستانیں اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے -پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ایک عرصہ دراز سے بلدیاتی نمائندگی سے محروم رکھّا گیا ہے جس کے سبب زیادہ تباہی نظر آ رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے قائد اعلیٰ طبیعت کے ناساز ہونے کے باوجود کئ ارب روپے اپنی مٹھّی میں دبائے چوروں کا بیوپار پوری تندہی سے کر کے کروڑوں روپئے اپنی اپنی پارٹی سے بے وفائ کرنے والوں

میں تقسیم کر کے اب دبئ کے عشرت کدے میں آرام فرما رہے ہیں اور پورا سندھ اپنی  لاوارثی پرنوحہ کناں ہے'کتنے دکھ کا مقام ہے چار ارب روپے  تو چوروں کی خریدو فروخت پر خرچ کرنے والے نے صرف اپنے شہر لاڑکانہ کی ہی حالت زار کو سنبھالنے میں خرچ کئے ہوتے تو اللہ میاں ان کے اعمال نامہ میں کیا کچھ نیکیاں لکھ دیتا-آئیے اب کچھ زکر ہو جائے پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کا-تفصیلات کے مطابق سوات میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، کالام بازار اور ہوٹلز سیلابی ریلے میں بہہ گئے،

 دکانیں اور 150 سے زائد مکانات بھی دریا برد ہو گئے۔کالام میں سب سے بڑا اور قیمتی ہوٹل بھی سیلاب کی زد میں آ کر گر گیا،

 لوگ گرتے ہوٹل کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔سوات میں اب تک 10 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، سیلاب میں بحرین بازار بھی

 ڈوب گیا ہے اور کئی رابطہ پل بھی سیلاب میں بہہ گئے۔

سیلابی ریلا ہنی مون ہوٹل سمیت متعدد ہوٹلز ساتھ بہا کر لے گیا، سوشل میڈیا پر ہوٹل گرنے کے مناظر وائرل ہو گئے ہیں،

 کالام بحرین میں متعدد پلوں سمیت 4 مساجد بھی شہید ہو گئے ہیں۔واضح رہے کہ سیلابی ریلے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،

 مینگورہ بائی پاس میں بھی سیلاب کا پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔

سوات پولیس لائن میں بھی پانی داخل ہونے سے پولیس اہل کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے، عوام بے یارو مددگار حکومتی امداد کے

 منتظر ہیں کئی گاڑیاں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہیں، اب بھی سوات کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے،

 جس سے پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے

دوسری جانب بحرین اور کالام کے رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، موسلادھار بارش کی وجہ سے سوات

 میں سیلابی صورت حال ہے، ترجمان این ایچ اے نے کہا کہ سیاح اور مقامی افراد غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔این ایچ

 اے نے کہا ہے کہ این 95 اور این 90 پر بحرین سے کالام سیکشن تک صورت حال تشویش ناک ہے، سیلاب نے بحرین پل کے

 ساتھ ساتھ اپروچ روڈ کو بھی متاثر کیا ہے۔

دریائے سوات میں سیلاب میں بہتی عمارتیں-’سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا جس نے ہوٹل

 کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اس کے بعد عمارت اوپر سے گری ہے لیکن اب بھی انھیں امید ہے کہ ہوٹل کی عمارت کافی حد

 تک بچ گئی ہے۔‘یہ کہنا ہے کالام میں نیو ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری کا جن کے ہوٹل کے گرنے کی ویڈیو سوشل

 میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔یہ ہوٹل دریا کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا، اس ہوٹل کو پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ 2010 کے

 سیلاب میں بھی اس ہوٹل کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا تھا۔اسی لیے آپ جہاں بھی جائیں ان علاقوں میں ہوٹل اور تفریحی

 مقامات کے علاوہ دکانیں بھی دریا کے کنارے تعمیر کی جاتی ہیں- بحرین کا ذکر کریں جو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں دریا کے

ساتھ ساتھ تقریباً تمام ہوٹل دکانیں اور مکانات کو یا تو نقصان پہنچا ہے اور وہ یا مکمل طور پر دریا برد ہو چکے ہیں۔

ہمایوں شنواری نے یہ ہوٹل 1992میں قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں ہوٹل کی تعمیر

 منع ہے ہمیں باقاعدہ اس وقت قائم ملاکنڈ ڈویژن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب

 کالام میں کچھ نہیں تھا، سیاحت بہت کم تھی اور انھوں نے وہاں انوسٹمنٹ کی تھی۔ ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری نے

 بی بی سی کو بتایا کہ جو سیاح آتے ہیں وہ ایسے ہوٹل کو پسند کرتے ہیں جو دریا کے اندر ہو یا کم سے کم دریا کے قریب تر ہوں۔ان سے

 جب کہا گیا کہ دریا کے اندر ہوٹل تعمیر نہیں کیے جا سکتے یہ ماحولیات کے خلاف ہے اور پانی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے

 مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے لیے تمام اقدامات کیے تھے۔ اس جگہ دریا کا کافی وسیع رقبہ ہے اور

 انھوں نے پہلے نہیں سنا تھا کہ اتنا شدید سیلاب کبھی اس علاقے میں آیا ہو۔

اپر سوات کے علاقے مدین میں دریائے سوات سے آنے والے پانی کی وجہ سے اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے۔ انتظامیہ نے

 مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات دی ہیں۔اس ویڈیو میں دریائے سوات کے کنارے پر موجود عمارتوں کو

 دریا میں بہتا دیکھا جا سکتا ہے- کالام تک سڑک کے ذریعے رسائی نہیں لیکن وہاں سے اطلاعات ہیں کہ بحرین سے زیادہ نقصان

 کالام میں ہوا ہے ۔ سوات میں 46 پُل اور 13 بجلی کے پول کو نقصان پہنچا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصان اس

 سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔

ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی تعمیرات دریا سے دور تھیں اس مرتبہ سیلاب کا ریلا ہی زیادہ تھا جس وجہ سے تباہی ہوئی ہے۔

بحرین میں ایک ہوٹل کے مالک وقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہوٹل دریا کے اندر کیوں تعمیر کیا تھا تو

 انھوں نے یہی جواب دیا کہ ہوٹل تو دریا سے دور تھا ہوٹل اور دریا کے درمیان پارکنگ ایریا تھا اور ایک ریسٹورنٹ بھی تھا لیکن

 پانی تو ہوٹل کی تیسری منزل تک آیا۔مقامی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ دریا اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو خود ہی ہٹا دیتا ہے۔

 ماضی میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ جہاں تجاوزات کی گئی ہیں وہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہیں۔ اللہ پاک سب پر کرم کرے آمین

منگل، 30 اگست، 2022

کراچی میں تاجروں کو اغوا کیسے کیا جا تا ہے

 

 

 

 

 

 

آج کے حسین  ا و ر جدید  کراچی کے اس مکروہ چہرے کو بھی دیکھ لیجئے ،

  کراچی میں تاجروں کو اغوا کیسے کیا جا  تا ہے

دوستی کے جال میں پھنسا کر قابل ا عتراض تصاویر بنائ جاتی ہیں ،،گروہ میں شامل مرد ساتھی بلیک میل کر کے رقم اینٹھتے ہیں ،،بیشتر متاثرّہ افراد رپورٹ درج نہیں کرواتے ،،معاملہ بگڑنے پر قتل بھی کر دیا جاتا ہے –کئ  ماہ پہلے ہلاک کیئے جانے والے بنکار کے کریڈٹ کارڈ سے دو خواتین نے لاکھوں روپے کی 

خریداری کی-

ہیلوسر فراز مجھے آپ سے ملنا ہے ،،شام چھ بجے میں حیدری مارکیٹ کے باہر اسٹاپ پر آ پ کا انتظا  ر کروں

 گی ،جلدی آنے کی کوشش کیجئے گا  مجھے روڈ پر انتظار نا کرنا پڑے

یہ فون نارتھ ناظم آباد بلاک  - میں رہائش پذیر کپڑے کے تاجرسرفراز حمد کو ان کی دوست نائلہ نے کیا تھا،،سرفراز حمد اپنی دوست کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس سے ملاقات کے لئے تیّار ہو گئے - فراز حمد اپنی ہنڈا سٹی کار میں حیدری مارکیٹ پہچ گئے،،جب انہوں نے بس اسٹاپ پر کھڑی اپنی دوست نائلہ کے قریب کا ر روکی تو اس کے ساتھ ایک لڑکی اور بھی مو جود تھی ،،نائلہ دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئ اور دوسری خوبرو لڑکی پچھلی نشست پر بیٹھ گئ ،،نائلہ نے اپنی دوست کا تعارف روبی کے نام سے کر وایا ،،اور بتایا کہ ہم دونوں حیدری مارکیٹ شاپنگ کرنے آئ تھیں ،،بہت دن سے آ پ سے ملاقات نہیں ہوئ تھی اس لئے سوچا کہ آ پ کو بلا لوں ،نائلہ نے فراز کو بتایا کہ روبی حیدری مارکیٹ کے قریب ہی میں رہتی ہے ،پہلے اسےچھوڑنے چلتے ہیں پھر کسی اچھّے ریسٹورینٹ میں کھانا کھائیں گے

سرفراز ا حمد نے کہا کہ روبی کو ساتھ لے چلیں-

واپسی پر اسے گھر چھوڑدیں گے جواب میں نائلہ نے کہا کہ روبی دیرتک گھر سے باہر نہیں رہ سکتی ہے اس کی والدہ گھر پر اکیلی ہیں ،وہ پریشان ہوں گی بہتر ہے پہلے اسے گھر چھوڑ دیں ،اس پر فراز نے کہا تم مجھے راستہ بتاؤ میں تمھاری دوست کو  چھوڑ دیتا ہوں ،نائلہ اپنی دوست روبی سے راستہ پوچھ کر بتاتی رہی اور پھر ایک مکان کے سامنے پہنچ کر نائلہ نے فراز احمد سے کہا یہاں گاڑی روک لین ،یہ روبی کا گھر ہے ،گاڑی رکی تو روبی دروازہ کھول کر نیچے اتری اور اور فراز احمد کی طرف آ کر کہنے لگی کہ میرے گھر چائے پی کر جائیں ،  فراز نے پھر کسی وقت آنے کا کہا تو روبی نے نائلہ سے کہا کہ فراز صاحب کو اندر لے آئے ،نائلہ نے فراز سے کہا کہ اب روبی اتنا اصرار کر رہی ہے تو اس کے گھر پر چائے پی ہی لیتے ہیں ،یہ کہ کر نائلہ بھی گاڑی سے اتر گئ جس پر مجبو ر ہو کر فراز احمد کو بھی ان کے ساتھ گھر میں جانا پڑا روبی کا مکان دو کمروں پر مشتمل تھا ،ایک کمرے کو ڈرائنگ روم بنایا ہوا تھا جہاں صوفے پڑے تھے اور ٹی وی رکھا ہواتھا ،روبی نے نائلہ اور فراز کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئ -

کچھ دیر بعد اسنے آواز لگا کر نائلہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا وہ دونوں دس پندرہ منٹ تک باتیں کرتی رہیں پھر نائلہ ڈرائنگ روم میں فراز کے پاس آگئ اور روبی کچن میں چائے بنانے چلی گئ ،پانچ منٹ بعد نائلہ کے موبائل پر کسی کا فون آیا اور وہ فون سننے کے لئے اٹھ کر دوبارہ دوسرے کمرے میں چلی گئ چند منٹ بعد وہ واپس آ کر فراز سے بولی کہ قریب ہی سڑک پر اس کا بھائ آرہا ہے اس چابیاں دینی ہیں ،میں غلطی سے گھر کی چابیاں ساتھ لے آئ تھی یہ کہ کر وہ گھر سے باہر نکل گئ نائلہ کے جانے کے چھ سات منٹ بعد گھر کی ڈور بیل زور زور سے بجنے لگی ،روبی نے دروازہ کھولا تو دو افراد گھر میں گھس آئے اور انہوں نے  فراز احمد کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ،انہوں نے کہا کہ تم میری بہن کی زندگی خراب کر رہے ہو ،ہم تمھیں جان سے مار دیں گے اس دوران روبی روتے ہوئے کہنے لگی،بھائ اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے اور اب کہتا ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گا ، سرفراز احمد اچانک پڑنے والی اس افتاد سے سکتے میں آ گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کیونکہ اس کی دوست تو نائلہ تھی وہ  روبی کو جانتا بھی نہیں تھا ،لیکن وہ نوجوان اس کی بات سننے کو تیّار ہی نہیں تھےان میں سے ایک نے پستول نکال لی تھی اور کہ رہا تھا کہ اس نے ہماری بہن کی زندگی خراب کی ہے اس کو میں گولی مار دوں گا-

پھر وہ فراز احمد کومارتے  ہوئے دوسرے کمرے میں لے گئے اوراس سے اس کا موبائل پرس اور گاڑی کی چابی چھین لی اور کہا کہ اب تمھیں روبی سے شادی کرنی ہو گی ،فراز احمد ان سے التجائیں کر رہا تھا کہ وہ روبی کو نہیں جانتا ہے لیکن روبی  مسلسل یہی الزام لگا رہی تھی کہ یہ دھوکے باز ہے اس نے میری زند گی برباد کی ہے اس دوران وہ نوجوان اسے مسلسل مارتے رہے آدھے گھنٹے تک یہی صورتحال چلتی رہی پھر ایک نوجوان نے کہا کہ تم  اپنے گھر والوں کو فون کر کے بلاؤ انہیں تمھارے کرتوت بتاتے ہیں تمھاری بیوی کو بھی پتہ چلے کہ اس کا شوہر کیا کرتا پھرتا ہے ،جس پر گھبرا کر فراز احمد نے کہا کہ میرے گھر وا لوں کو مت بلاؤ تمھیں جو چاہئے وہ میں دینے کو تیّار ہوں-

پھر تاجر نے اپنا پرس نکالا جس کو ایک نوجوان نے تاجر سے چھین لیا اور تمام کارڈز نکال لئے 'گاڑی کی چابی بھی چھینی اور یہ کہتے ہوئے گھر سے دھکّے دے کر نکال دیا کہ پولیس سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پولیس ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے -تاجر نے سڑک پر آ کر ٹیکسی کو ہاتھ دیا اور پھر پولیس کے پاس پہنچا -پولیس اسی وقت ساتھ آئ تو گھر میں تالا پڑا ہوا تھا -محلّے والوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم اس گھر کی بابت کچھ نہیں جانتے ہیں مالک مکان گاوں میں رہتے ہیں بس ان کے کچھ رشتے دار کبھی کبھی نظر آجاتے ہیں -تو جی جناب یہ وہی رشتے دار ہوتے ہوں گے جنہوں نے تاجر کی تواضع کی تھی

ہفتہ، 27 اگست، 2022

ون وہیلنگ '' کی مرگ ناگہاں


  اس مرگ ناگہاں کے کھیل میں حصّہ لینے والے نوجوان   کاش جان سکیں کہ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ والدین و خاندان کے لیے کتنی جاں کنی کا باعث ہوتا ہے،اس کھیل میں نوجوان موٹر سائیکل کو تیز چلانے کے دوران اچانک اگلا پہیہ ہوا میں اٹھا دیتے ہیں اور سارا وزن پچھلے پہیے پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح موٹر سائیکل ایک پہیہ پر چلتی ہے   ۔ ایک طرف  دیکھنے والے کے  یہ منظر بڑا ہی سنسنی خیز  اور تھرل سے بھر پور   محسوس ہوتا ہے تو دوسری طرف موٹر سائیکل چلانے والے کو ایک فاتحا نہ جذبہ سے ہمکنار کرتا ہےاور اسے پھر  بار بار اس موت و زندگی کا کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ون ویلرز کو اس کا انجام معلوم نہیں کہ کھیل ہی کھیل میں کس' کس کا 'کیا  کیا نقصان ہوسکتا ہے۔پاکستان میں ون ویلنگ کا شوق  پورے پاکستان میں لاتعداد نوجوانوں کی جانیں لے چکا ہے لیکن اس خونی شوق پر حکومت نے کوئ پابندی نہیں لگائ ہے سوائے پکڑ دھکڑ کر کے جرمانے وصول کر کے بائیک رائیڈرز کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

میں خود اس بات کی گواہ ہوں کہ  ایک نوجوان  رات کے آٹھ بجے کےوقت اپنے گھر پر سکون سے بیٹھا تھا کہ ایک دوست نے آ کر  اسے بلایا نوجوان چلا گیا اور زرا سی دیر میں اطّلاع آئ کہ موٹر سائکل گڑھے میں گر  جانے کے سبب نوجوان جان بحق  ہو گیا ہے  نیو ائرکا ہلّا گُّلا  ہو یا عید کا موقع ہو کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکلیں دندناتی دیکھی جا سکتی ہیں-اور اسی اگست کے مہینے کی چھبّیس دو ہزار بائیس کی شام جب ایک نوجوان اپنے باپ کی قبر پرفاتحہ پڑھ کر نارمل اسپیڈ پراپنے گھر واپس جا رہا تھا سامنے سے آنے والے دو بائیک رائیڈرز جن میں ایک بائیک پر لیٹ کر انتہائ تیز اسپیڈ میں آ کر اس نے نارمل جاتے ہو ئےنوجوان کو ہٹ کیا  اور اس کے اگلے لمحہ دوسرا بائیک رائیڈر جس نے اپنا ایک وہیل اوپر اٹھایا ہوا اس کا اٹھا ہوا وہیل پوری قوّت سے آ کر نوجوان کے سینے سے ٹکرا یا اورنوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور پسماندگان میں جوان بیوہ اور دو بر س کا معصوم بچّہ پیچھے چھوڑگیا  

 ون ویلنگ کا شوق پاکستان کے صوبہ پنجاب  سے ہمارے محترم صحافی  جناب منصور مہدی اپنے مضمون میں  رقمطراز ہیں  کہ موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کرنے کا شوق معاشرے میں کتنی تیزی سے نوجوانوں میں پھیل رہا ہے اس کا مجھے اندازہ اس وقت ہوا جب میں ون ویلنگ کے حوالے سے سٹوری کے لیے معلومات لینے ایس ایس پی آفس گیا۔ جہاں سے اگرچہ مجھے پورے شہر کے مکمل اعداد و شمار تو نہ مل سکے کہ ماہانہ یا سالانہ اوسط ً کتنے نوجوان اس کھیل کی بھینٹ چڑھ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں(پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے اعداد وشمار ہم اکٹھے نہیں کرتے تاہم اگر کبھی اوپر سے کوئی حکم آئے تو فوری طور پر شہر کے تھانوں سے فون پر معلومات لے لی جاتی ہیں) مگردفتر مذکور سے کچھ ایسی معلومات ملی کہ جس سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کھیل نہ صرف نوجوان بلکہ چھوٹی عمر کے لڑکوں کہ جنہیں بچے ہی کہا جا سکتا ہے میں کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ون ویلنگ کرنے والوں میں کئی طرح کے لڑکے شامل ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لڑکے ہوتے ہیں کہ جو صرف اور صرف ون ویلنگ کرتے ہیں اور ان کا کسی جرم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جبکہ دوسری قسم میں ون ویلنگ کرنے والے نوجوان نہ صرف ہلڑ بازی کرتے ہیں بلکہ موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر شور کرتے ہیں اورفیملیز کو تنگ کرتے ہیں۔ تیسرے ان میں جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور ون ویلنگ کی آڑ میں رات کو سڑکوں پر پھرتے رہتے ہیں اور جب موقع ملتا ہے تو شہریوں کو لوٹ بھی لیتے ہیں۔آپ کو یہ سن کر یقینا حیرت ہو گی کہ اب لاہور میں لڑکے ہی نہیں لڑکیا ں بھی ون ویلنگ کرتی ہیں۔ون ویلنگ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں ایک ہی لڑکا موٹر سائیکل چلاتا ہے اور ون ویلنگ کرتا ہے جبکہ دوسری میں ایک موٹر سائیکل پر دو لڑکے ہوتے ہیں جن میں سے ایک موٹر سائیکل کے بیلنس کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ دوسرا اسے چلاتے ہوئے مختلف نوعیت کے کرتب دکھاتا ہے۔ شہر میں اب تک دو ایسے جوڑے دیکھنے میں آئے ہیں کہ جو ون ویلنگ کرتے ہیں۔ان میں ایک جوڑا تو ممی ڈیڈی گروپ سے تعلق رکھتا ہیں ، دونوں نے جین کی پینٹس اور ٹی شرٹس پہنی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے جوڑے میں لڑکی برقعہ میں ملبوس ہوتی ہے تا ہم چہرے پر نقاب ہوتی ہے۔

اس بارے میں معاشرے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ لڑکپن اور جوانی کی عمر کا تقاضا ہے کہ اس عمر میں نوجوان  کوئی اچھوتا یا نیا کام کرنے کی کوشش کر کے دنیا اپنی جانب متوجّہ کریں ون ویلنگ محض ایڈونچر ہے اور کچھ نہیں۔ جیسے پچھلی جنریشن کے افراد اپنے بچپن میں غلیل سے شکار کرتے، پتنگیں اُڑاتے تھے، درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتے تھے تو ان کا یہ ایڈونچر ہی تھا۔ اب ہم کمپیوٹر ایج سے گزر رہے ہیں چنانچہ نوجوان تھرلنگ کا شوق ون ویلنگ کے ذریعے پورا کر رہے ہیں تو حکومت کو چاہے کہ وہ نوجوانوں میں کھیلوں کی صحت مند سرگرمیوں کے فروغ  پالیسی بنائے۔

دورِ جدید کے کھیلوں اور صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کا کام ہے۔ ان کھیلوں کے فروغ کے لانفراسٹرکچر موجود ہے، ادارے قائم ہیں لیکن افسران اور عملہ تنخواہیں لے رہا ہے مگر منصوبہ بندی سرپرستی اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہو رہا اور مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے اور نوجوانوں تک اس کا ابلاغ نہیں۔ اسلام آباد میں اتنا بڑا جدید سپورٹس کمپلیکس ہے۔ اس میں کھیلوں کے لئے سہولتیں موجود ہیں۔ سپورٹس کمپلیکس میں دو سوئمنگ پولز ہیں جن کی ماہانہ فیس ہزاروں میں ہے جس سے صرف معاشرے کی ایلیٹ کلاس ہی فیضیاب ہو سکتی ہے

جمعہ، 26 اگست، 2022

اجنٹا کے غار'بدھ مت کی قدیم تہذیب

 

 

دنیا میں ایسی ہزارہاقدیم  تعمیرات ہیں جو اپنی منفرد خوصیات کی وجہ سے مشہورہیں لیکن اجنٹا کے غاروں میں ایک قدیم تہزیب کی

 مکمّل ثقافت کومحفوظ کیا گیا ہے -ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ

 تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں

 اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے

 غاربیش قیمت ورثہ اورعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور

 کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے

 مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔اس دور کے فن کاروں اور

 کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ

 مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور

 مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی

 ہے۔اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔

 اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین

 اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار

 نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے  ہیں

ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر

 سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین،

 دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور

 ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص

 کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔یہ ہندوستان کا تاریخی ورثہ ہیں

جمعرات، 25 اگست، 2022

سیلاب کی تباہ کاریاں

 

 

70فی صد پا کستا ن ڈوب چکا ہے ملک کے طول و عرض میں کھڑی تیّار فصلیں قیامت خیز سیلابی ریلوں کی

 نذر ہو چکی ہیں اور ایون اقتدار میں ہر طرف خاموشی ہے 'ماسوائے چند لوگوں جو درد مند دل رکھتے ہیں-

پورے ملک میں تباہ کن بارشوں کے بعد پورے ملک کے طول و عرض میں  سیلاب کی تباہ کاریاں جاری

 ہیں، بارشوں کے باعث منہ زور سیلابی ریلے آبادیوں کو ملیا میٹ کررہے ہیں، مکانات ، سڑکیں ، پل اور

 دیگر انفراسٹرکچر مسلسل تباہی سے دو چار ہو گئے۔کوئ شہر کوئ قریہ نہیں بچا ہے-حیدرآباد میں بارش نے

 تباہی مچادی جس سے کئی علاقے دریا کا منظر پیش کرنے لگے ہیں، مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا اور

 ہزاروں خاندان در بدر ہو چکے ہیں، کئی متاثرہ خاندانوں کو ابھی تک ٹینٹ اور راشن بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

ادھر سندھ میں بارشوں سے منچھر جھیل میں پانی کی سطح 19 فٹ تک پہنچ گئی، حکام نے جھیل پر ایمرجنسی

 نافذ کر کے پشتوں کی نگرانی کا عمل شروع کردیا ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیلابی ریلے کی نذر ہو کر خاتون اور بچہ جاں بحق ہوگئے،

 20 سے زائد آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں، ضلع بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے ہیں،

 بجلی، انٹرنیٹ سروسز اور موبائل سگنل غائب ہیں، پاک فوج اور ریسکیو ٹیموں کا آپریشن جاری ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی کئی مقامات پر تباہی کے مناظر ہیں، تحصیل پروا کے علاقہ چاندنہ میں سیلابی ریل

ہ داخل ہونے سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں، بڈھ کے چاروں طرف پانی آنے سے گاؤں کے لوگ

 محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

نوشہرو فیروز میں گھر کی چھت گر گئی جس کے نتیجے میں 2 بچوں سمیت 4 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں،

 ملبے تلے دب جانے کے باعث 6 افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں میں 2 بچوں سمیت 2

 خواتین بھی شامل ہیں۔ادھر جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور میں سیلاب متاثرین تاحال حکومتی امداد کے

 منتظر ہیں، گھروں اور علاقے میں بدستور سیلابی پانی موجود ہے اور لوگوں کے کھانے پینے کے لیے کچھ بھی

 دستیاب نہیں۔

دوسری جانب بلوچستان میں بارش برسانے والا ایک اور سسٹم داخل ہوگیا جس کے باعث ندی نالوں

 میں طغیانی، رابطہ سٹرکیں اور پل ٹوٹنے کے سبب صوبے کا ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع

 ہوگیا ہے۔

ضلع چمن میں مسلسل بارشوں کے باعث برساتی نالوں میں طغیانی سے سڑکیں بند ہیں جبکہ شہر میں

 موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

لیویز ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں میں رابطہ سڑکیں بہہ گئی ہیں جس کے باعث سپینہ تیزہ اور غوژئی

 کے دیہات کا چمن سے رابطہ منقطع ہے جبکہ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ مضبوط سسٹم جنوب

 وسطی اور مغربی بلوچستان تک پھیل رہا ہے، جس سے نواحی علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار

 بارشیں متوقع ہیں۔

ادھر کراچی میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث ملیر ندی میں طغیانی کی وجہ سے کئی

 بار کورنگی کازوے زیر آب آچکی ہے جس کی وجہ سے کازوے کی سڑک خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار

 ہے۔ملیر ندی میں طغیانی کی وجہ سے کورنگی کازوے ایک بار پھر زیر آب آگئی ہے جس کی وجہ سے

 کازوے کو پھر ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے، ٹریفک پولیس نے رکاوٹیں لگا کر کازوے کو بند کردیا۔

تفصیلات کے مطابق ملک بھر کے دیگر صوبوں سمیت خیبر پختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے حالات کو

 تبدیل کردیا ،بالائی علاقے چترال ،گلگت بلتستان کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود برف اور منجمد گلیشئیر

 تیزی سے پگھلنے لگے، صوبہ بھر میں حالیہ بارشوں سے مختلف اضلاع میں جانی ومالی نقصانات ہوئے ہیں۔

پی ڈی ایم اے نے صوبے میں سیلاب سے متاثرہ 23 اضلاع کومون سون کے لیے مزید 30 کروڑ 50

 لاکھ روپے جاری کیے ہیں، جن میں ٹانک کےلیے 3 کروڑ، نوشہرہ 3 کروڑ،ڈی آئی خان 2 کروڑ،کرک

 2 کروڑ، مانسہرہ 2، بونیر، کوہاٹ ، دیرلوئر کو 1کروڑ 50 لاکھ، دیراپر،لکی مروت،چترال اپر،شانگلہ،

 صوابی، سوات،بنوں،جنوبی وزیرستان،ابیٹ آباد،پشاور اورچارسدہ کو ایک ایک کروڑ روپے جاری کئے

 گئے ہیں

ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی کئی مقامات پر تباہی کے مناظر ہیں، تحصیل پروا کے علاقہ چاندنہ میں سیلابی ریلہ

 داخل ہونے سے لوگ نقل مکانی کررہے ہیں، بڈھ کے چاروں طرف پانی آنے سے گاؤں کے لوگ

 محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

 حمان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے ملک

 بھر میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ حکومت سیلاب زدگان کی امداد کے لئے تمام دستیاب وسائل کو

 بروئے کار لا رہی ہے۔ انسانی بحران سے نمٹنے کی لئے مقامی انتظامیہ اور صوبوں کو مزید وسائل درکار

 ہیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہمیں قومی اور عالمی سطح پر شراکت داروں اور ڈونرز

 کو متوجہ کرنا ہو گا۔ سیلاب میں پھنسے ہزاروں لوگ ریسکیو اور ریلیف کے منتظر ہیں۔

منگل، 23 اگست، 2022

شہادت اما م زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 

شہادت اما م زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت کا پرسہ  حضرت رسول خداصلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں امام حسین علیہ السّلام اور حضرت علی علیہ السّلام اور حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی اور خاندان بنو ہاشم کی خدمت میں پیش کرتی ہوں -امام سجادعلیہ السّلام کی شہادت بد بخت عبّاسی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے حکم پر زہر مسموم   کے ذریعے واقع ہوئی۔ 

حدیث امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: "اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر"۔

بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو

علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ

علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں،  اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں

غربا و مساکین کی سرپرستی

ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن الحسینؑ راتوں کو کھانے پینے کی چیزوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ طور پر غربا اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: "جو صدقہ اندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے"

محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے کئے جاتے ہیں، علی ابن الحسینؑ کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔ 

راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے بدن پر دیکھئے گئے۔ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ فرماتے: "صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے"۔

 غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک

امام سجادؑ کے تمام تر اقدامات دینی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔امام سجادؑ نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے خالص  اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجادؑ ـ جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا تھا۔ غلاموں کا طبقہ امامؑ کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امامؑ کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ آپ انہیں خرید لیں۔ امامؑ ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہ سب امام سجادؑ کے آزاد کردہ تھے۔

اسیری کے بعد

امام سجادؑ واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی ہر کوشش کی۔آپ علیہ السّلام پانی پیتے وقت  شہیدان کربلا  کو یاد کرکے روتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔ آ پ  دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے،

آپ علیہ السلام نے بعد از کربلا اپنی تمام تر توجّہ اپنی تصانیف اور دعاوں  کے زریعہ عوام النّاس تک پہنچانے کی سعئ پر رکھّی۔

صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔

  25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے- شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی- آپ  قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبی علیہ السّلام ا مام محمد باقرعلیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ساتھ محو آرام ہیں۔

پیر، 22 اگست، 2022

حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ

<

 

 

حضرت لقمان اللہ تعالیٰ کے ایک پسندیدہ انسان تھے -ان میں ایسی خوبیاں موجود تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوّت سونپنے کا ارادہ کیا -لیکن پہلے حضرت لقمان سے ان کی مرضی دریافت کرنے کے لئے فرشتہ بھیجا -حضرت لقمان اس وقت قیلولہ کر رہے تھے کہ ندائے غیبی آئ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو منصب نبوّت عطا کرنا چاہتا ہے جس کے لئے آپ کی مرضی معلوم کروائ ہے حضرت لقمان فرشتہ کی آواز سن کر چوکنّا ہو گئے

ادھر ادھر دیکھا لیکن فرشتہ نظر نہیں آیا لیکن فرشتہ کی اپنے قریب موجودگی کو انہوں نے محسوس کر کے جواب دیا کہ اللہ نے میری مرضی طلب کی ہے یا مجھے حکم دیا ہے ،فرشتے نے کہا آ پ کی رضا طلب کی ہے،حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالٰی سے کہنا کہ میں اپنے آپ کو نبوّت کا گراں بار منصب اٹھا نے کا اہل نہیں پاتا ہوں   چنانچہ فرشتے حضرت لقمان کا جواب لے کر واپس چلے گئے ،اور پھر اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام سے علم حکمت واپس لے کر وہ علم حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو دیا اور منصب نبوّت پر حضرت موسٰی علیہ السّلام کو سرفراز کیا۔اس سے پہلے علم حکمت حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس تھا-یاد رہے کہ دنیا کے پہلے حکیم و طبیب حضرت موسٰی علیہ السّلام تھے

"محسن کے احسان کا بدلہ "

حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ ایک پاک نفس انسان تھے۔وہ  دن رات اپنے آقا کی خدمت میں کمر بستہ رہتے۔ ان کا آقا بھی ان کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کرتا۔ وہ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ محض نام کے غلام تھے۔ درحقیقت ان کے آقا نے ان کے مرتبہ کو پہچان لیا تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ کمال محبت کا سلوک کرتا تھا۔ یہاں تک کہ جو کھانا بھی اس کے لیے لایا جاتا وہ حضرت لقمان وہ کے بغیر نہ کھاتا۔ وہ ان کا چھوڑا ہوا کھانا ،کھانا فخر سمجھتا تھا۔ جس کھانے کو حضرت لقمان نہ کھاتے ،وہ اسے مکروہ سمجھ کر نہ کھاتا اور اگر کھاتا تو بہت بے دلی کے ساتھ کھاتا۔ ایک دن اتفاقاً کہیں سے ایک خربوزہ بطور تحفہ آیا۔

آقا نے لقمان رحمۃ اللہ علیہ کو کھلانا چاہا، مگر وہ وہاں موجود نہ تھے۔ کسی کو بھیج کر فوراً بلایا۔ جب حضرت لقمان آگئے تو مالک نے چھری لے کر خربوزے کی ایک پھانک کاٹ کر انہیں دی۔ حضرت لقمان نے بڑے مزے سے چٹخارے لے لے کر کھائی۔ آقا نے انہیں خوش دیکھ کر دوسری پھانک دی، جسے انہوں نے اور بھی رغبت اور خوشی سے کھایا حتیٰ کہ نوبت سترھویں پھانک تک جاپہنچی۔ جب صرف ایک پھانک باقی رہ گئی تو آقا نے کہا؛ اب میں بھی تو دیکھوں کہ یہ خربوزہ کس قدر مزے دار ہے جسے حضرت لقمان نے اتنے مزے سے کھایا ہے۔ جونہی اس نے اس قاش کو منہ لگایا اس کی کڑواہٹ سے منہ کے اندر آگ ہی لگ گئی۔ زبان پر آبلے پڑ گئے۔ اور حلق جلنے لگا۔ کچھ دیر تو اس کی تلخی سے بے خود رہا۔ ذرا سنبھلا تو کہنے لگا ؛اے عزیز، ایسی کڑوی چیز کو تم نے کیسے کھایا؟ تمہارے صبر کی بھی حد ہوگئی۔ اگر انکار کرتے شرم آتی تھی تو کوئی حیلہ بہانہ ہی کردیا ہوتا۔ حضرت لقمانرحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا؛میں نے آپ کے نعمتیں بخشنے والے ہاتھوں سے اس قدر لذیذ نعمتیں کھائیں ایک اگر کڑوی مل گئی تو انکار کیسے کرتا۔ محسن کے احسان کا لحاظ نہایت ضروری ہے۔ میں تو آپ کے احسانات سے پرورش ہوا ہوں، پھر ایک تلخ چیز آپ کے ہاتھ سے مجھے ناگوار کیوں گزرتی

حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں-یہ حکیمانہ اقوال قرآن کریم میں نقل کئے گئے تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی خوب سے خوب تر بنا سکیں-اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی اُن قیمتی نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے بیان فرمائی تھیں۔ یہ حکیمانہ اقوال اللہ تعالیٰ نے اس لئے قرآن کریم میں نقل کئے ہیں تاکہ قیامت تک آنے والے انسان ان سے فائدہ اٹھاکر اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر