بدھ، 27 جولائی، 2022

اجمیر کے راجہ 'خواجہ معین الدّین چشتی

اجمیر کے راجہ 'خواجہ معین الدّین چشتی <

 

 

ہزاروں برس قبل کرّہ ء ارض پر  خطّہ ء برِّ صغیر میں ہندوستان  کے آباد ہونے کی روائت  یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السّلام  کی نسل

 میں ایک بیٹے کا نام  سام تھا سام کی نسل سے   دو بیٹوں کےنام ہندو اور سندھو تھے  ہندو نے جب اپنے رہنے بسنے کے لئے  اپنی  جگہ

 منتخب کی تو اس جگہ  کانام ہندوستان رکھدیا  اور دوسرے بیٹے  سندھو نے اپنے لئے  دریائے سندھ کے کنارے پر آ باد

 ہونے کے لئے سندھ کی زرخیز سرزمین  کا نتخاب کیا  ،یاد رہے کہ دریائے  سندھ پہلے سندھو دریا کے نام سے معروف تھا جو بعد میں

 مخفّف ہو کر  دریائے سندھ رہ گیا ،جبکہ سندھ کا محلِّ وقوع بھی کافی وسیع و عریض ہوا کرتا تھا جس میں امتدادِ زمانہ کے ساتھ

 تخفیف ہوتی گئ  بہر حال  حضرت نوح علیہ السّلام کی زُرِّیت  میں ایک نبی  علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام گزرے ہیں

 ،روائت ہے کہ جب حضرت ادریس علیہ السّلام کو اللہ تعالٰی نے اپنے پاس بلا لیا تو ان کا  سب  سے بڑا

  بیٹا اپنے باپ کی جدائ کے سبب بے حد رنجیدہ اور ملول رہنے لگا  تب ایک دن شیطان اس کے پاس آیا اور اس سے بہت پیار

 بھرے لہجے میں مخاطب ہوا کہ دیکھو تم کو اپنے باپ سے کتنی محبّت تھی ،اور دیکھو اب تو وہ واپس آ نہیں سکتےہیں  لیکن میں ان کی

 ایسی مورت بنا کر تم کو دے سکتا ہوں جو تمھارے والد کی ہو بہو ہو گی جب تم اس کو دیکھو گے تو اپنے قلب میں تسکین پاؤ گے

 ،بس وہ بیٹا شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور پھر شیطان  نے  جب مورت بنا کر اس بیٹے کو دی تو    وہ اس مورت کے قدموں میں گر

 پڑا اور گریہ و زاری کرنے لگا  یہ

> ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء تھی  اس کی دیکھا دیکھاور لوگوں بھی اپنی  اپنی پسندیدہ شخصیتوں کی مورتیاں بنوائیں اور انکی

 پرستش میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ تمام قوم  بت پر ستی میں مبتلا ہو گئ  جب اللہ تعالٰی نے ان کی  گمراہی کو دیکھا تو بندگانِ 

معرفت میں سے ایک ایسی ہستی کو  اس کفرستان کی سرزمین پر بھیجا جو  مشنِ الہٰی  لے کر میدانِ عمل میں مستقیم ہو گئے  اس  پیکرِ

 معرفت کا نام خواجہ معین الدین   حسن تھا

 سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ’’  اثنا ء عشری سادا ت میں نجیب الطرفین سید‘‘

ہیں نجیب الطّرفین کے معنی  والدہ کا بھی اہلِ سادات سے تعلّق ہونا اور والد کا بھی سیّد ہونا اس طرح آپ حسنی اور حسینی سیّد

  والدین کی  اولاد ہیں ۔آپ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت پر جا کر سلطان ِ اولیاء مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی  علیہ السّلام

 سے جاملتاہے۔آپ کا سلسلہ نسب  اپنے آبائے کرام سے سے اس طر ح متوسّط ہے

 سید ابراہیم بن امام علی رضا  علیہا السّلام

 بن  حضرت امام مو سیٰ کا ظم علیہ السّلام

بن حضرت امام جعفرِصادق علیہ السّلام

بن حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام

  بن امام زین العابدین  علیہ السّلام

 بن   حضرت امام حسین  علیہ السّلام

بن حضرت علی علیہ  السّلام  سے جا ملتا ہے_

 رجب المرجب536ھ/1141ء کوپیرکے دن ایران کے ایک قصبہ سنجر یا ’’سجستان‘‘ میں متولد ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ

 آپ کے نامِ نامی کے ساتھ سنجر ی بھی لگیا جاتا ہے،،آپ کے والدمحترم حضرت سیدناخواجہ غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے

 وقت کے ایک عالم و فاضل یکتائے روزگار،اپنے عہدکے بہت برگزیدہ اور ولئ کامل  تھے۔جب کہ  والدۂ محترمہ حضرت بی بی ماہِ

 نوررحمۃ اللہ علیہابھی اپنے وقت کی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون اورولیۂ کاملہ تھیں۔ان کو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کے دنیا میں آنے سے

 پہلے ہی اپنے  شکم مبارک میں ایک ولئ کامل بچّہ محسوس ہوتا تھا  جبکہ اللہ کریم نے ان کو قبل از پیدائش بشارت سے بھی فیض یاب

 کیا تھا

- کفر کے اندھیروں میں حق پرستی کی شمع جلانے کے واسطے بحکم پروردگار عالم آپ وارد ِ ہند ہوئے اور بستی سے کچھ فاصلے پر  ایک

 ویرانے میں جھیل اناساگر کے پہلو میں ایک پہاڑ ی پر گوشہ نشین ہو گئے ،یہ ہندوستان میں راجہ پرتھوی راج کا دور تھا اور اسی کی

 سلطنت کا ہندوستان  کی عظیم الشّان حکومت میں  چار دانگ عالم ڈنکا بج رہا تھا ،ایسے میں ناجانے  کس طرح ایک درویش کی کٹیا کا

 کیونکر  شہرِ میں شہرہ ہوا کہ پرتھوی راج کے محل  مین عوام الناّ س کی حاضری کم ہونےلگی راجہ نے اپنے خدّام سے پوچھ گچھ ک

ی تو معلوم ہوا کہ شہر سے باہر ایک درویش نے اپنا فقیرانہ آشیانہ جب سے بنایا ہے عوام کا ہجوم صبح ہوتے ہی اسی درویش کی کٹیا  کی

 جانب چلا جاتا ہے  بس یہیں سے راجہ پرتھوی راج کے زوال کا وقت شروع ہو گیا کیونکہ اس نے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر

 کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو بھیجا کہ فقیر سے کٹیا خالی کروا کر اسےاس کی سلطنت بدر کیا کر کے  جنگل میں بھیجا جائے

 جب سپاہی راجہ کا حکم لے کر آئے تو خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں تمھارے راجہ کے لئے خطرہ نہیں ہوں لیکن اگر مجھے

 یہاں سے ہٹایا گیا تو یہ تمھارے راجہ کے لئے اچھّا نہیں ہو گا ،سپاہیوں نے جب خواجہ جی کا پیغام راجہ کو پہنچایا لیک اس نے

 سپاہیوں سے کہا کہ فقیر کو ہر صورت ہٹانا ہے اس بار جب سپاہی خواجہ جی  رحمۃ اللہ علیہ کے پاس راجہ کا حکم نامہ لے کر آئےتب

 خواجہ جی نے ان سے کہااچھّا مجھے جھیل سے ایک کٹوراپانی لے لینے دو آپ پہاڑی سے اتر کر جھیل تک آئے اور جونہی پا نی کا کٹوارا

 بھرا جھیل کاپانی مکمّل خشک ہو گیا یہ منظر دیکھ کر سپاہی خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئے اور راجہ پھر سے خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کو شہر

 بدر کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا اور آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرچمنستان اسلام  کی آبیاری میں لگے رہے ، آپ اپنی  مخالفت  اور

 ناسازگار ہوائے زمانہ کی پرواہ کئے بغیر،بدسے بدتراورسخت سے سخت تر حالات میں بھی مشنِ تبلیغِ اسلام سے شمّہ بھر بھی پیچھ

ے نہیں ہٹےاوربالآخر کامیابی  آپ ہی کی رکابِ قدم ہوئ۔چنانچہ کچھ ہی عرصے میں راجہ پرتھوی راج کے سب سے بڑے

 مندرکا

 سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی

 اسلام قبول کرلیااوریہ دونوں قبولِ اسلام کے ساتھ ہی خواجہ جی کے ساتھ اسلامی مشن میں ہاتھ بٹانے لگے اور پھر

 ہندوستان کے کفرستان میں سینکڑوں سال سے بڑے بڑے تاجدار  شہنشاہوں، بادشاہوں و گداؤ ں کے دلوں پر بلا تفریق  مذ ہب

 و مسلک راج کرنے والا بے تاج  بادشاہ تاجدار ہند جنہوں نے اپنے کاملہ اخلاق سے ہندوستان کے کفرستان میں علم ِ دین کا کبھی نا

 بجھنے والا ایسا چراغ جلایا کہ آج تک کوئ اس کو گل کرنے کی ہمّت بھی نہیں پیدا کر سکا

سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ یعنی علم قرآن،علم

 حدیث،علم تفسیر،علم فقہ ، علم منطق اورعلم فلسفہ اور دیگر علوم ظاہری وباطنی کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علمِ حصولی کے حصول 

کی خاطر  اپنی عمرِعزیز کے  تقریباًچونتیس برس صرف کیے،جب کہ علوم دینیہ کے حصول سے فارغ ہونے کے بعدعلم معرفت

 وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ کُشاں کشاں لے جاتی رہی۔

چنانچہ  سرزمین   عجم میں پہنچ کرعلمِ معرفت وسلوک کی تحصیل کے لیےآپ نے اپنے علم ِ معرفت کی خاطر مرشدکامل کو تلاش کیا

 اور بالآخرآپ کونیشاپورکے قصبہ ’’ہاروَن‘‘میں مل گیا۔جہاں آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمۃ اللہ علیہ ایسے عظیم

 المرتبت اورجلیل القدربزرگ کی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔

حضرت شیخ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ نے نہ صرف آپ کودولت بیعت سے نوازابلکہ آپکوخرقۂ خلافت کے ساتھ ساتھ آپ

 کواپناخاص مصلّٰی، عصااورپاپوش مبارک بھی د یا

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی زریں با

 ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کے اس دور میں جہاں ایک طرف آپ کی توجہ اور تبلیغی مسا عی سے ظلمت کدہ ہند میں شمع ِ اسلام

 کی روشنی پھیل رہی تھی ، دلوں کی تاریکیاں ایمان و یقین کی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھیں ، لو گ جو ق در جوق حلقہ اسلام میں

 داخل ہو رہے تھے۔ تودوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی غلبہ بھی بڑھ رہاتھا۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ

 علیہ کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں شامل سلطان شہاب الدین غوری اوراُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان

 شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمت اور عادل حکمران سیاسی اقتدار کو مستحکم کر رہے تھے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ اسلام ، احیائے دین و ملت ، نفاذِ شریعت اور تزکیۂ قلوب واذہان کا

 اہم ترین فریضہ جس موثر اور دل نشین انداز میں انجام دیا ، وہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کی

 تشریف آوری کے بعد تو اس ملک کی کا یا ہی پلٹ گئی ۔ لا کھوں غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام لائے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی

 تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔ آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے

 تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال

 محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کر تی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی اورزہد و قناعت کا یہ

 عالم تھا کہ آپ کی خدمت عالیہ میں جو نذرانے پیش کیے جا تے وہ آپ اسی وقت فقراء اور غرباء میں تقسیم فر ما دیتے تھے۔ سخاوت

 و غریب نوازی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ کے در سے خالی ہا تھ نہ جا تا تھا۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور

 بڑے متوا ضع تھے۔

آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔آپ کے بعض ملفوظاتِ عالیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ

 بڑے صاحب دل،وسیع المشرب اور نہایت دردمند انسان تھے۔ آپ عمیق جذبہ انسانیت کے علمبردار تھے۔ آپ اپنے مریدین 

، معتقدین اور متوسلین کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ وہ اپنے اندر دریا کی مانند سخاوت و فیاضی، سورج ایسی گرم جوشی و شفقت اور زمین 

ایسی مہمان نوازی اور تواضع پیدا کیاکریں۔اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے 

تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خد

اوند قدوس اس بندے کو اپنیرحمتِ خاص سے نواز دیتا ہے  یہاں تک کہ وہ صفات الٰہی کا خودمظہر بن جاتا ہے اور آپ حقیقت میں 

اس کا عملی نمونہ بن گئے تھے ‘۔

تبلیغ و اشاعت دین

تاجدارِ ہند حضرت خواجہ معین الدین  حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جب علم وعرفاں اورمعرفت وسلوک کے منازل طے

 کرچکے اوراپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ کے علمی وروحانی فیضان سے فیض یاب ہوئے توپھراپنے وطن واپس 

تشریف لے گئے۔وطن میں قیام کئے ابھی تھوڑی ہی مدت ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں بیت اللہ اورروضہ نبوی صلی اللہ علیہ 

وسلم کی زیارت کے لئے تڑپ پیدا ہوئی۔چنانچہ اسی وقت آپ اس مقدس سفرکے لئے چل پڑے۔حرمین طیبین پہنچنے کے

 بعداپنے دل کی مرداپائی اور قلب کوتسکین حاصل ہوئی۔ حضورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس کئی دنوں

 تک عبادت و ریاضت اورذکروفکرمیں مشغول رہے۔(آپ کی اجمیر آمد )آپ ایک دن اسی طرح عبادت اورذکرو فکر میں

 مستغرق تھے کہ روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سعادت افروزآوازآئی:

’’اے معین الدین!توہمارے دین کامعین ومددگار ہے،ہم نے تمھیں ہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکر اپناقیام

 کروکیوں کہ وہاں کفرو شرک اورگمراہی وضلالت کی تاریکیاں پھیلی ہوئی ہیں اور تمھارے وہاں ٹھہرنے سے کفروشرک کا اندھیر

ادور ہوگااوراسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی‘‘۔ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیرکس 

جگہ پر ہے کہ اچانک اونگھ آگئی اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے

 مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا۔

اجمیر شریف علم وعرفان کا مرکز

اجمیرشریف!وسطیٔ ہندکاایک مشہورشہرہے۔جس طرح یہ شہرمرکزِ سلطنت بننے کیلئے موزوں تھا،اسی طرح یہ

 شہرتوحیدورسالت کے انوارو تجلیات اور علم وعرفاں کاروحانی مرکزومنبع بننے کیلئے بھی بے حد مناسب تھا۔

حضرت ِوالانے ایک   جگہ منتخب کرکے اس کواپنامسکن بنالیااور ذکروفکراوریادخداوندی میں مشغول ہوگئے

۔لوگوں نے جب آپ کے سیرت وکردار،علم وفضل اورذکروفکر کے اندازو اطور کودیکھ

اتووہ خودبہ خودآپ کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔چنانچہ اجمیر کا جوبھی آدمی ایک مرتبہ آپ کی خدمت ِعالی

میں حاضرہوجاتاوہ اسی وقت آپ کا مریدو معتقد اور گرویدہ ہو جاتا۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں

 بلکہ لاکھوں لوگوں نے آپ کی صحبت کیمیا اثراورآپ کے عظیم اخلاق وکردارکے باعث اسلام قبول گیا

۔چنانچہ ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباًنوے لاکھ (90لاکھ) غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔

ہندوستان میں اسلام کی روشن کرنیں-حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات

 سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔آپ نے دین 

حق کی تبلیغ کا مقدس فریضہ نہایت شاندار طریقے سے سر انجام دیا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ 

اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین و معتقدین

 کو اشاعت اسلام اور رشد و ہدایت کی مشعل روشن کر نے کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں روانہ کیاتا کہ ہندوستان کا 

گوشہ گوشہ اسلام کی ضیاء پا شیوں سے روشن و  تاباں ہو جائے ۔ آپ نے اپنے عظیم کر دار اور اچھے اخلاق سے بہت جلد غیر

 مسلموں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور وہ فوج در فوج اسلام قبول کر نے لگے اور یوں انتہائی قلیل مدت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا 

عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دا نگِ عالم بجنے لگا۔ حضرت خواجہ معین الدین چش

تی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اثر آفرین جدو جہد سے اس وسیع و عریض ملک کے باشندوں کو کفر و شرک اور گمراہی و ضلالت 

کے زنداں سے آزاد فر ما یا ۔ تبلیغ دین حق کے لئے آپ سراپا عمل بن کر میں میدان میں آئے اور استقامت کا بے نظیر ثبوت دیا ا

ور لو گوں کو اسلام ، حق و صداقت اور علم و عمل کی دعوت دی ، لا کھوں افراد آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و 

کرم سے اُن کے دل درست عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق  سے سیراب ہو  گئے اور اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کو روز افزوں استح

کام نصیب ہوا۔ یوں تو ہزاروں کرامتیں آپ سے ظہور پذیر ہوئیں اور آفتاب و مہتاب بن کر نمایاں ہوئیں لیکن آپ کی سب

 سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کے انقلاب آفرین جدو جہد اور اثر آفرین تبلیغ اسلام کے طفیل ہندوستان میں دین ِ اسلام کی حقانیت 

و صداقت کا بو ل با لا ہوا۔سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ  نے عوام النّاس کے قلوب کو اپنی اخلا ق اور

 حلم سے سنوارا   اور شہر اجمیر کو  اجمیر  شریف کا لقب دے کر  جنت ِمعرفت بنا دیا۔ آپ کے فیضِ با طنی سے اسلام کا آفتاب

 ہندوستان میں طلوع ہوا تو لاکھوں غیر مسلم آپ کی توجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔تقریباً 45برس تک آپ اجمیر شریف

 میں حیات ظاہری کے ساتھ مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر ما تے رہے ۔ہندوستان میں اشاعتِ اسلام اور رشد وہدایت کی شمع روشن کر

 نا آپ کا سب سے تاریخی او ر عظیم کا ر نا مہ ہے  آپ فرماتے تھےجس نے اسلام میں کسی نیک کا م کی ابتداء کی اوراس کے بعد اس پر

 عمل کیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں بھی اس طرح اجر لکھ دیا جائے گا جیسا کہ عمل کرنے والے کے اعمال نامہ میں لکھاجائے

 گا‘‘)چنانچہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق آپ کی دعوت وتبلیغ، سیرت و کردار کی برکت سے دنیامیں جس قدر

 مسلمان ہو ئے اور آئندہ قیامت تک جتنے مسلمان ہوں گے اور اُن مسلمانوں کے ہاں جو مسلمان اولاد پیدا ہو گی، اُن سب کا اجر و

 ثواب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پر انوار کو پہنچتا رہے گا،کیونکہ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ

 جس کا اجروثواب قیامت تک ملتا رہے گا۔

   راجہ پرتھوی راج کاستانا اور اس کا بد انجام

اجمیرکاراجہ پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوں سے خواجہ جی کو تکلیف پہنچانے اور پریشان کرنے کی کوششیں کرتا رہتا  تھا لیک

ن اللہ تعالٰی  کے فضل و کرم اور عنائت سے اس کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی اکبر بادشاہ نے اپنے یہاں اولادِ نرینہ کی دعاء حضرت

 خواجہ معین الدّین سے کروائ تھی اور ساتھ ہی منّت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہو گیا تو وہ م آستانہ پر ننگے پاؤں حاضری دے گا اور چار من 

چاول کی دیگ چڑھائے گا جب اس کی منّت پوری ہوئ تب وہ پاپیادہ دیگ لے حاضر آستانہ ہوا اور آستانہ ء مبارک پر اس دیگ

 میں چاول پکائے جانے لگے اللہ کی مخلوق ان چاولوں سے فیضیاب ہونے لگی راجہ پرتھوی راج نے اپنے سپاہی بھیج کر خواجہ جی کو

 پیغام بھیجا کہ اس طرح رعایا کی عادتیں خراب ہوتی ہیں اور آستانے پر چاول پکانے اور کھلانے کا ،سلسلہ موقوف کیا جائے

خواجہ جی نے راجہ کو جواب میں کہلوایا کہ جس روز میرا اللہ مجھ کو چاول دینا بند کر دے گا میں اس کی مخلوق کو کھلانا بند کر دوں گا

-پھر ایک دن خواجہ جی نے اپنے مریدین سے با اطمینان کہا

’’میں نے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکراسلام کے سپردکردیا‘‘۔

چنانچہ آپ کافرمان درست ثابت ہوااورتیسرے ہی روزفاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کوفتح

 کرنے کی غرض سے دہلی پرزبردست لشکرکشی کی۔راجہ پرتھوی راج لاکھوں کا لشکر لے کرمیدان جنگ میں پہنچا اور معرکہ

 کارزارگرم کردیا۔کفرواسلام اورحق وباطل کے درمیان زبردست معرکہ جاری تھا اوردست بہ دست لڑائی اپنے عروج پرتھ

ی کہ سلطان غوری نے پرتھوی راج اوراس کے لشکرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کوزندہ گرفتارکرلیا اوربعدازاں وہ قتل

 ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ راجہ پرتھوی کے عبرت ناک قتل اور ذلت آمیزشکست اور سلطان شہاب الدّین غوری کے لشکراسلام

 کی عظیم الشان اور تاریخی فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ فوج درفوج اسلام قبول کرنے لگے۔یوں اجمیر شریف میں سب سے

 پہلے پرچم  اسلام سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  کے دستِ حق پرست سے بلند ہو ا۔

شہر کراچی آج اپنی بے بسی پر فریاد کناں ہے

  

 

کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو بارش کے نام پر ملتوی کردیا گیا۔ اگر شہر کو ایک منظم بلدیاتی نظام میسر ہوتا تو بارش

 رحمت کے بجائے زحمت نہ بنتی۔ نہ شہر کی سڑکیں تالاب بنتیں، نہ نشیبی بستیاں زیرآب آتیں۔ بارش کے باوجود معمولی سے کمی

 بیشی کے ساتھ معمولات زندگی چلتے رہتے اور بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی نوبت بھی نہ آتی۔ بلدیاتی انتخابات پیپل

ز پارٹی نے پھربارشوں کا بہانہ بنا کر ملتوی کر دئے گئے ہیں -24 جولائی کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات شہریوں کے لیے

 روشنی کی کرن تھے، جس سے اس بات کی امید کی جاتی تھی کہ شہریوں کو یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے شہر کے مسائل کے

 بارے میں کس سے سوال کریں، لیکن اچانک بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو کم از کم

 ڈھائی سال قبل ہونا تھا، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر ان انتخابات کو ٹالا جاتا رہا۔ صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے

 ہوئے بیشتر بلدیاتی اور شہری اداروں پر اپنا کنٹرول بھی حاصل کرلیا، صوبائی حکومت کے ہاتھ میں بلدیاتی اور شہری اداروں کے

 جانے کے بعد ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری ہونے کے بجائے اور خرابی پیدا ہوگئی۔ عملاً یہ شہر ناقابل رہائش بن چکا ہے۔

 ایک وقت یہ تھا کہ اس شہر کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا گیا تھا، امن وامان سب سے بڑا مسئلہ تھا، اس شہر کی بے امنی کی

 ذمے دار سیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے تھے، اسی دوران شہری اور بلدیاتی اداروں کی تباہی کے عمل کا

 آغاز ہوا، اس تباہی کی رفتار کو سندھ حکومت نے تیز کردیا۔ اس وجہ سے بااختیار شہری اور بلدیاتی حکومت کا قیام لازمی اور

 ضروری ہوگیا ہے، لیکن جب سے ملک پر بڑی سیاسی جماعتوں کا کنٹرول ہوا ہے انہیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے کوئی

 دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی اور صوبے پر ماضی میں اپنے پورے اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے والی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی

 اور ایم کیو ایم نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی ناقص کارکردگی شہر کی تباہی کی ذمے دار ہے۔ اس پس منظر میں کراچی میں ہونے

 والے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتائج پر پورے ملک کی نظر تھی۔ یہ صاف نظر آرہا تھا کہ صوبائی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اور

 اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہے ہیں، ایم کیو ایم عدالت میں بلدیاتی

 انتخابات کے التوا کی درخواست لے کر گئی لیکن اسے عدالت سے یہ سہولت نہیں ملی۔ ایم کیو ایم کے وکیل اپنی درخواست کو لے

 کر عدالت عظمیٰ میں گئے ہوئے ہیں، وہاں سے بھی اس بات کی امید نہیں رہ گئی تھی کہ انہیں سہولت ملے گی۔ اچانک اس سلسلے

 میں الیکشن کمیشن متحرک ہوگیا، چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے ایک درخواست آ گئی۔ محکمہ موسمیات سے موسم کے بارے

 میں رپورٹ منگوالی گئی اور بارش کی پیش بینی کا بہانہ کرتے ہوئے الیکشن سے محض تین دن قبل بلدیاتی انتخابات  کو ملتوی کردیا گیا

 ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی  ہے کہ قیام پاکستان کو  سات دہائیاں پوری ہوچکی  ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت نے گلے میں

سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو

 نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے حتّی الامکان گریز کیا ۔

ہمارے ہی وطن  میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک

 موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی

 باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور

 پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط  اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں

چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی

   حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے  چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش

 رکھ کراور اپنے عوام کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے ہیں ۔

 کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے ساتھ ساتھ   ۔ بلدیاتی نمائندے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے  ہیں ۔ نچلی بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی ہوتی ہے ،

 یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا

 اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ

 ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے  س لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی

 انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک

 پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو  بہترین نمائندوں  کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر

 کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔

کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام 2001 میں متعارف کرایا گیا۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اس نظام کے تحت

 پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ مختلف فلائی اوورز کی تعمیر کا آغاز اور کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارٹ ڈیزیز بھی نعمت اللہ خان کے دور میں

 بنایا گیا۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالستار افغانی وہ میئر تھے جو لیاری میں پیدا ہوئے اور میئر بننے کے بعد بھی وہیں

 رہائش پذیر رہے۔ افغانی صاحب نے شہر کو لیاری جنرل اسپتال دیا، جو عام لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ

 ہے۔ کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نا تھی-کاش   پارٹی    بلدیاتی  نمائندوں سےاختیارات نا

 چھینتی تو شہر کا کم از کم یہ حال نا ہوتا

لیکن آج اس عظیم الشّان شہر کی کیفیت یہ ہے کہ بااختیار حلقے کسی طور بھی کراچی کو اس کا جائز حق اور شہریوں کو وہ سہولتیں

 دینے کےلیے تیار نہیں جو پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ان کا حق ہیں۔ ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے وال

ا شہر آج اپنی بے بسی پر فریاد کناں ہے


اتوار، 24 جولائی، 2022

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو

تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو عید مباہلہ مبارک ہو


تمام عالم اسلام کے مومنین جن و انس کو 

عید مباہلہ مبارک ہو

یہ ۹ ھجری تھا جب  عیسائی صرف چہرے دیکھ کر کسی پس و پیش کے بغیر مباہلہ سے ہٹ گئے تھے اور ثابت کر دیا کہ حضور او

ر حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  اور ان کے اہلبیت علیہم السّلام حق پر ہیں اور ان کے مقابلے پر آنے والے باطل ہیں-

24ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہےاس دن رسول خدا

حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی عطا کی۔فتح مکہ کے بعد پیغمبر

 اسلام  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے نجران کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

 نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو

 حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے  مسجد میں داخل ہوتا

 ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے

کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی

 لباس میں آنحضرت  حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں، آپ کا استقبال ہو گا۔اب کارواں عادی

 لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور

 انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر

 ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔

-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں

 مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔

اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔

اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔

اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان

 سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے

 عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے-پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں

 میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :

عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو

 اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ

 كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}

اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود

 شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔

آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس

 لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔

مشہور محدّثین نے اپنی کتابں میں مستند روایات کے مطابق تحریر کیا ہے کہ مباہلہ کا دن وہ  دن ہے جب بی بی فاطمہ زہرا  کو جنگ

 کے علاوہ گھر سے نکلنا پڑا۔ نجران کے عیسائی جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آئے اور بحث کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ

 السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور کسی طرح نہ مانے تو اللہ نے قرآن میں درج ذیل آیت نازل کی:


فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ

 عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}

ترجمہ

اے پیغمبر! علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی

 عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ سورۃ آل عمران آیۃ 61

اس کے بعد مباہلہ کا فیصلہ ہوا کہ عیسائی اپنے برگزیدہ لوگوں کو لائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آیۂ مباہلہ پر عمل

 کریں گے اور اسی طریقہ سے فیصلہ ہوگا.

اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر

 سارے شہر میں پھیل گئ ۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے

 کہ : اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پ

ر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔

ہر ایک کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں اور پھر سورج کی پہلی سنہری کرنوں میں نجران کے داخلی درّہ پر عیسائ راہبوں نے

 دیکھا کہ کُل پانچ نفوس نجران کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں ان میں تین بڑے ہیں اور دو معصوم ہیں جنمیں سے ایک ہادئ

 دوجہاں کی آغوش مبارک میں ہے اور دوسرا آپ کی انگلی تھامے ہوئے ہے اس منظرنے جس سے دیکھنے والوں کی حیرت میں

 اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے  ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین

 حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کے عم زاد بھائی ، حسنین امامین کریمین کے والد اور

 خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

ان لوگوں کو دیکھتے ہی عیسائی مغلوب ہو گئے اور ان کے سردار نے کہا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے بد دعا کریں

 تو روئے زمین پر ایک بھی عیسائی سلامت نہ رہ جائے گا

پھر ہادئ دوجہاں اور عیسائیوں کے درمیان  جزیہ کی بابت ایک باقاعدہ دستاویزی معاہدہ ہوا-یہ جیت ہر مسلمان کی جیت ہے اور

 رہتی دنیا تک آیت مباہلہ فتح ونصرت کی نشانی ہے .

ہفتہ، 23 جولائی، 2022

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر 'درویش قلندر صادقین

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر'درویش قلندر صادقین  

پاکستان کا مایہءناز مصوّر'شاعر 'درویش, قلندر صادقین اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو 

اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے   -

ان کے ہاتھوں کی انگلیاں اللہ کے نام کے سانچے میں ڈھل گئیں تھیں ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے

انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے

بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں

اور انکی درویشی کا یہ عالم تھا کہ ایک دن ایک شخص ان کے پاس آیا اور نہائت عاجزانہ لہجے  میں کہنے لگا بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو

 گئ ہے اور ہاتھ بلکل خالی ہے-صادقین اپنی جگہ سے اٹھے اور اندر اپنی والدہ کے پاس جاکر بولے امّاں کچھ ہو تو دے دیجئے ماں نے

 اپنی پان کی پٹاری کھولی اور پاندان کے پیندے میں موجود سو روپے کا نوٹ نکال  کر بیٹے کے ہاتھ پر رکھّا اور بولیں بیٹا بس یہی ہے

 -صادقین نے وہی سو روپے کا نوٹ لے جا کرمجبور باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا -وہ شخص گیا نہیں بیٹھا رہا اتنے میں صادقین کے پاس

 ایک نوجوان آیا اور اس نے ایک بھاری رقم کا سربند لفافہ صادقین کو دیتے ہوئے بولا بریگیڈئر صاحب نے بھجوایا ہےصادقین

 اپنی جگہ سے اٹھے اور بند لفافہ جوں کا توں اس سوالی باپ کے ہاتھ پر رکھ دیا -وہ شخص خوشی سے سرشار اپنے گھر واپس چلا گیا -یہ

 ان کی درویشی کی بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے

 صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے جہاں انھیں تخلیقی شاہکار بنا دیا ،وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال

 حاصل تھا - رباعیات کو انہون نے فن کے طور پر لیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے-

کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و

 نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

 پاکستان میں جہاں انہیں اعزازات سے نوازا گیا ، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے

 بھی انہیں اعزاز بخشا تھا، لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے

۔اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے

 سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے

 اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی

 زینت بن جایا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی

 اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے

 کمائے ۔

قیام پاکستان سے قبل امروہہ میں جنم لینے والے سید صادق احمد نقوی ” صادقین“ کے نام سے معروف ہوئے ،پاکستان کی بہت

 سی سرکاری اور اہم ترین تاریخی و ثقافتی عمارتوں میں انکی مصوری و خطاطی کے نمونے آویزاں ہیں ۔سابق جنرل ضیا الحق انکے فن

 کےعاشق تھے ۔ان کے گھر میں صادقین کی خطاطی کے نمونے بطور تبرکاً موجود تھے۔ ۔گزشتہ سال بھی صادقین کی خطاطی کا

 ایک ایسا نادر نمونہ ڈیڑھ کروڑڈالر میں فروخت ہواتھا ۔

اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ

 رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے

انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں

 کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے ۔مصوری کے علاوہ

 انھوں نے غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام اور آیات ِ قرآنی کو بھی خطاطی کے قالب میں ڈھالا۔ اُن کا فن، ماورائے عصر تھا اور ہمیشہ رہے

 گا۔صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا۔

انہوں نے شادی اس لئے نہیں کی تھی کیونکہ جب انکی شادی کا وقت آیا تھا انہی

 دنوں میں ان کی ایک بہن اپنے چھوٹے بچّو ں کے ساتھ بیوہ ہو کر اپنی والدہ کے پاس آ گئیں تھیں بس صادقین اپنے آپ کو خدا کی

 راہوں میں وقف کر دیا ان کو حکومت وقت نے آرٹ گیلری کے لئے جو زمین دی انہوں نے وہ زمین شادی ہال بنا کرخدا کی بے

 سہارا مجبور مخلوق کے لئے وقف کر دی

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

جمعہ، 15 جولائی، 2022

بی بی امّ البنین سلام للہ علیہا

 

 

 

بی  بی  امّ    البنین سلام للہ علیہا  

روایت  ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السّلام بی بی سیّدہ کے وصال کے بعد مغموم رہا کرتےتھے اس لئے ان کے بھائ جناب عقیل نے آپ علیہ السّلام کو عقد ثانی کا مشورہ دیا جس کو مولائے کائنا ت نےاس شرط سے مشروط کر دیا کہ میرے لئے ایسی ہمسر دیکھیں جس کے تعلّق بہادر اور دلاور قبیلے سے ہوآپ علیہ السّلام کے بھائی عقیل ماہر انساب عرب تھےآپ کے بھائ نے کہا میری نظر میں ایک بہادر اور شجاع قبیلےکی دختر ہے جو اس قبیلے کے سردار کی بیٹی ہے اور وہ قبیلہ بنی کلاب ہے جس کا سردار حزام بن خالد ہے اوراس کی دختر فاطمہ بنت کلابیہ ہے اور جناب عقیل نے رشتہ دیا جو انتہائ مسرّت کے ساتھ قبول کیا گیا اور بی  بی  امّ    البنین سلام للہ علیہا بیت الشّرف میں بیاہ کر تشریف لائیں-  یہ جلیل القدر ہستی خداوندمتعال، خاندان نبوت و اہلبیت کے نزدیک ایک عظیم مقام و منزلت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ان کے وسیلہ سے خدا کے حضور کوئی دعا کرے تو وہ مستجاب ہوتی ہےاور مومنین

 آپ سے خاص محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔جناب بی  بی ام البنین، رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسّم کی دختر کے بچوںکو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئےفریضہ جانتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی اہل بیت علیہ السلام اور اولاد حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا سے غیرمشروط محبت، اخلاص، عقیدت اور جان نثاری کی تعلیم دی تھی۔ حضرت بی  بی ام ‏البنین بامعرفت اور پر فضیلت خواتین میں سے تھیں۔ آپ اہل بیت کی حقانیت سے خوب واقف تھیں۔ خاندان نبوت سےخاص محبت اور شدید و خالص دلبستگی رکھتی تھیں اور اپنے آپ کو ان کی خدمت کیلئے وقف کئے ہوئے تھیں۔

حضرت ام ‏البنین شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات،ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیاتھا۔ نسب شریف: آپ فاطمہ بنت حزام تھیں آپ کے والد کی کنیت ابو المحل تھی،وہ خالد بن ربیعۃ بن الوحید بن کعب بن عامر بن کلاب کے بیٹے تھے،آپ کی والدہ ثمامۃ بنت سھل بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھیں ،آپ ماںاور باپ دونوں کی جانب سے بنی کلاب سے تعلق رکھتی تھیں ،جو کہ عرب کے خالص قبائل بنی عامر بن صعصہ سے تھے جن کی شجاعت اور گھڑ سواری زمانے میں معروف تھیں ۔ نیک خاتون وشریف قبیلہ کی دختراور فہمیدہ خاندان کی خاتون بی  بی ام البنین تھیں ان کا تعلق عرب کے شریف ترین قبیلہ سے تھا،جس میں سب کہ سب کرامت اور شرافت کے لئے مشہور تھے،ان کے خاندان والے عرب کے سردار ،سید اور قائدین میں سے تھے ،وہ سب نامور ابطال تھے،انہی میں عامر بن طفیل جو کرم و سخاوت ،سب کی مدد کرنے،اورگھڑ سواری میں یکتا

تھے،اسی طرح ان میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھے جو بی  بی ام البنین علیہ السّلام کی والدہ کے جدتھے ان کے لئے کہا جاتا تھا -۔جناب ام البنین میں آپ کے نانا اور داداکی تمام صفات ِجلیلہ پائی جاتی تھی ،اسی طرح اللہ نے انہیں بزرگی اور شرف بھی عطا کی تھیں ،

جب ان کی شادی شیر خدا و رسول امام علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اس طرح وہ رسول کے گھر کے علاوہ سب خواتین میں بہترین خاتون قرار پائی،ان میں شرافت ،بزرگی و بلندی ہر جانب سے پائی جاتی تھیں ۔ بی  بی ام البنین ان با فضیلت عورتوں میں سے تھی جو اہلبیت کی حقیقی معرفت رکھتی تھیں اور ان کی ولایت و محبت و مودت میں خالص اور ڈوبی ہوئی تھیں،اہلبیت علیہ السّلام کے نزدیک ان کا بہت بڑا مقام تھا،میدان کربلا میں آپکی عظیم قربانیاں بے مثال تھی اسی طرح آپ کی امیر المومنین کی خدمت اور ان کے بچوں کی بی بی کونین

 فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا-کی وفات کے بعد دیکھ بھال دنیا کے سامنے عظیم مثال تھی ،امیر المومنین علیہ السّلام ے آپ سے شادی ہجرت کے چوبیسویں سال کی۔ مؤرخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں بی  بی ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجےگئے تھے، ام البنینسلام للہ علیہا نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین علیہ بارے میں کیا خبر لائے ہو؟

بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنینسلام للہ علیہا نے فرمایا:" مجھے حسین علیہ السلام کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین علیہ السّلام کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: "اے بشیر!مجھے ابی عبدا للہ الحسین کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین علیہ السّلام پر قربان ہو۔" جب بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی تو بی  بی ام البنین سلام للہ علیہا نے ایک آہ بھری آواز میں فرمایا: " اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔۔آپ سلام اللہ علیہا معرکہء کربلا کے بعد کبھی چھا وں میں نہیں بیٹھیں ہمیشہ دھوپ میں ہی رہتی تھیں پھر ایک جناب سیّد سجّاد آپ کے پاس تشریف لاءے اور آپ سے فرمایا یا جدّاہ دھوپ میں تمازت بہت  ہے حجرے میں تشریف لےچلئے 'بی بی نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور اللہ سے گویا ہوئیں 'ائے اللہ ایک امام سے وعدہ ہے

 آخری سانس تک چھاوں میں نہیں بیٹھوں گی دوسرے کا حکم ہے 'میں کس کا کہا مانوں یہ کہ اپنی جگہ سے اٹھِیں اور حجرے میں جانے کے بجائے امام مظلوم سے کیا گیا وعدہ ایفاء ہوا اور آپ سلام للہ علیہا کی روح عالم جاودانی کو کوچ کر گئ

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

بدھ، 29 جون، 2022

کارو کاری یا صحیفہ سے نکاح -

>  


پاکستان میں رسم کارو کاری یا صحیفہ سے نکاح کا پس منظر

عورت بھی کتنی مجبور اور مظلوم ہے  ،خدا کا نائب انسان ، عورت کی  صنف کے

 بارے میں خدا کا قانون بھلا کراس کو کہاں کہاں اور کس طرح اپنے مفاد کے لئے

 استعمال کرتا ہے  کہیں وہ دیوداسی ہے تو کہیں  کنواری راہبہ ہے تو کہیں قران سے

 اور اپنے دیکھے پیشواؤں سے بیاہنے کے بعد کہلائ جانے والی مقدّس ہتھنی ہے 

 جس سے کوئ مرد شادی نہیں کر سکتا ہے

دنیا میں پیدا ہونے والی ہر لڑکی جب جوان ہوتی ہے اس کو چاہ ہوتی ہے اپنا شوہر

 اپنے بچّے اپنا گھر آنگن  اور یہ نہیں  تو نفسیاتی  امراض یا گناہ   کی رغبت   پیدا

 ہونا  ایک فطری امر ہے مجھے  نہیں معلوم  کہ پاکستان کے کسی اور علاقہ میں یہ 

 قبیح رسم رائج ہے کہ نہیں لیکن صوبہ سندھ میں  لڑکیوں کے قران سے نکاح کی

 رسم  زمینین بچا نے کے لئے صدیوں سے چلی آرہی ہے  یہ بڑی ہی ظالمانہ اور

 قبیح رسم ہے جس میں ایک اُس ہستی کے فطری جذبات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جو

 پروردگارِعالم نے  انسانی مزاج کے مطابق  ودیعت کئے ہوتے ہیں  ،،ابھی حال ہی

 میں  ایک  مخدوم  صاحب کا انتقا ل ہوا ان کی تین بہنیں قران سے

 نکاحی ہوئی ہیں  ۔۔ یعنی اس  رسمِ بد کا چلن  زمینیں رکھنے والی  ہر قوم ہر قبیلے

 میں بلا تخصیص پایا جاتا ہے ،

قران کریم تو سراسر رحمتِ کامل ہے  اس رحمِت کامل اور بہترین دستور العالمین ہے

 اس اعلٰی اور مقدّس ترین دستور  کو اتنی ظالمانہ اور رسم کے لئے استعمال کرنا

 سراسر عتابِ الٰہی کو دعوت  دینا ہوا ناں!اس رسمِ بد میں تمام  انتظامات اصلی شادی

 جیسے ہوتے ہیں لڑکی دلہن بنائ جاتی ہے  پورے پورے گاؤں دعوت ِ نکاح میں مدعو

 کئے جاتے ہیں   پھر قران کریم کی مقدّس صحیفے کے ساتھ مولوی صاحب نکاح  رسم انجام دیتے ہیں۔

ہمارے  وطنِ عزیز کے  صوبہ سندھ میں ایک اور رسم میں  روحانی پیشواؤں سے

 نکاح کر دیا جاتا ہے اس نکاح کا علم اس روحانی پیشوا کو خود بھی نہیں ہوتا ہے پھر

 اس فرضی نکاح کے عوض وہ بد قسمت لڑکی  تمام عمر کنواری بٹھائی جاتی ہیں

 کیونکہ اب وہ اپنے پیر کی امانت ہوتی ہیں ۔۔ چاہے پیر ان کو تمام عمر  پوچھنے کی

 بھی زحمت نا کریں لیکن لڑکیاں انہی کے نام پر جیتی اورمرتی ہیں یہ بھی زمین

 بچانے کی منحوس رسم  ہے پیشواؤں سے نکاح کے بعد لڑکی کا نام ہتھنی ہو جاتا ہے

 اور گاؤں کا کوئ لڑکا اس مقدّس  ہتھنی کے لئے  شادی کرنے کا   سوچ بھی نہیںن سکتا ہے۔۔ یہ بھی زمینیں بچانے کے لئے ایک رسمِ قبیح ہے-دوسری جانب زمینیں  بچانے کے لئے بیٹی یا بہن کاری کا الزام لگا  کر قتل کی جاتی ہے  اس قتل عمد کو عزت کی خاطر قتل کہا جاتا اور کوئ قانونی کارروائ بھی نہیں کی جاتی ہے

جب  میں نے اپنے وطن میں عورت کی اس بے توقیری کا عالم   دیکھا تو دل سے بے اختیار کچھ الفاظ اس  طرح  موزوں ہوئے

میرے قریب مت آؤ

کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

جھلس نا جاؤ کہیں آنچ میں تم بھی

 مجھے تو گرم فضاؤں میں جیتے جانا ہے

بڑی ہی تلخ حقیقت ہے میری دنیا کی

کسے بتاؤں سہاگن ہوں میں صحیفے کی

مگر !

یہ کیا ہے؟

جسم پیاسا ہے روح جلتی ہے

ایک آرزو ازل سے حوّا کی

کوکھ خالی میری پھڑکتی ہے

میرے قریب مت آؤ کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

کسے خبر ہے  ؟

ان کی جاگیر کے خزینوں میں

میرے کنوارے سپنوں کے دفن ارماں ہیں

ان کا رشتہ زمین کا رشتہ

ان کی چاہت ہے بس دفینوں میں

شائد اسی لئے پاک رشتہء محبّت کو

نام دیتے ہیں کارو کاری کا

اور قتل کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے

پریم کے ان دیوانوں کا

جن کے دل میں امنگ ہوتی ہے گھر بسانے کی

میرے قریب مت آؤ

کہ آگ جلتی ہے

قبیح رسموں کی اور رواجوں کی

 سیدہ زائرہ عابدی    

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر