پاکستان میں رسم کارو کاری یا صحیفہ سے نکاح کا پس منظر
عورت بھی کتنی مجبور اور مظلوم ہے ،خدا کا نائب انسان ، عورت کی صنف کے
بارے میں خدا کا قانون بھلا کراس کو کہاں کہاں اور کس طرح اپنے مفاد کے لئے
استعمال کرتا ہے کہیں وہ دیوداسی ہے تو کہیں کنواری راہبہ ہے تو کہیں قران سے
اور اپنے دیکھے پیشواؤں سے بیاہنے کے بعد کہلائ جانے والی مقدّس ہتھنی ہے
جس سے کوئ مرد شادی نہیں کر سکتا ہے
دنیا میں پیدا ہونے والی ہر لڑکی جب جوان ہوتی ہے اس کو چاہ ہوتی ہے اپنا شوہر
اپنے بچّے اپنا گھر آنگن اور یہ نہیں تو نفسیاتی امراض یا گناہ کی رغبت پیدا
ہونا ایک فطری امر ہے مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے کسی اور علاقہ میں یہ
قبیح رسم رائج ہے کہ نہیں لیکن صوبہ سندھ میں لڑکیوں کے قران سے نکاح کی
رسم زمینین بچا نے کے لئے صدیوں سے چلی آرہی ہے یہ بڑی ہی ظالمانہ اور
قبیح رسم ہے جس میں ایک اُس ہستی کے فطری جذبات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے جو
پروردگارِعالم نے انسانی مزاج کے مطابق ودیعت کئے ہوتے ہیں ،،ابھی حال ہی
میں ایک مخدوم صاحب کا انتقا ل ہوا ان کی تین بہنیں قران سے
نکاحی ہوئی ہیں ۔۔ یعنی اس رسمِ بد کا چلن زمینیں رکھنے والی ہر قوم ہر قبیلے
میں بلا تخصیص پایا جاتا ہے ،
قران کریم تو سراسر رحمتِ کامل ہے اس رحمِت کامل اور بہترین دستور العالمین ہے
اس اعلٰی اور مقدّس ترین دستور کو اتنی ظالمانہ اور رسم کے لئے استعمال کرنا
سراسر عتابِ الٰہی کو دعوت دینا ہوا ناں!اس رسمِ بد میں تمام انتظامات اصلی شادی
جیسے ہوتے ہیں لڑکی دلہن بنائ جاتی ہے پورے پورے گاؤں دعوت ِ نکاح میں مدعو
کئے جاتے ہیں پھر قران کریم کی مقدّس صحیفے کے ساتھ مولوی صاحب نکاح رسم انجام دیتے ہیں۔
ہمارے وطنِ عزیز کے صوبہ سندھ میں ایک اور رسم میں روحانی پیشواؤں سے
نکاح کر دیا جاتا ہے اس نکاح کا علم اس روحانی پیشوا کو خود بھی نہیں ہوتا ہے پھر
اس فرضی نکاح کے عوض وہ بد قسمت لڑکی تمام عمر کنواری بٹھائی جاتی ہیں
کیونکہ اب وہ اپنے پیر کی امانت ہوتی ہیں ۔۔ چاہے پیر ان کو تمام عمر پوچھنے کی
بھی زحمت نا کریں لیکن لڑکیاں انہی کے نام پر جیتی اورمرتی ہیں یہ بھی زمین
بچانے کی منحوس رسم ہے پیشواؤں سے نکاح کے بعد لڑکی کا نام ہتھنی ہو جاتا ہے
اور گاؤں کا کوئ لڑکا اس مقدّس ہتھنی کے لئے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیںن سکتا ہے۔۔ یہ بھی زمینیں بچانے کے لئے ایک رسمِ قبیح ہے-دوسری جانب زمینیں بچانے کے لئے بیٹی یا بہن کاری کا الزام لگا کر قتل کی جاتی ہے اس قتل عمد کو عزت کی خاطر قتل کہا جاتا اور کوئ قانونی کارروائ بھی نہیں کی جاتی ہے
جب میں نے اپنے وطن میں عورت کی اس بے توقیری کا عالم دیکھا تو دل سے بے اختیار کچھ الفاظ اس طرح موزوں ہوئے
میرے قریب مت آؤ
کہ آگ جلتی ہے
قبیح رسموں کی اور رواجوں کی
جھلس نا جاؤ کہیں آنچ میں تم بھی
مجھے تو گرم فضاؤں میں جیتے جانا ہے
بڑی ہی تلخ حقیقت ہے میری دنیا کی
کسے بتاؤں سہاگن ہوں میں صحیفے کی
مگر !
یہ کیا ہے؟
جسم پیاسا ہے روح جلتی ہے
ایک آرزو ازل سے حوّا کی
کوکھ خالی میری پھڑکتی ہے
میرے قریب مت آؤ کہ آگ جلتی ہے
قبیح رسموں کی اور رواجوں کی
کسے خبر ہے ؟
ان کی جاگیر کے خزینوں میں
میرے کنوارے سپنوں کے دفن ارماں ہیں
ان کا رشتہ زمین کا رشتہ
ان کی چاہت ہے بس دفینوں میں
شائد اسی لئے پاک رشتہء محبّت کو
نام دیتے ہیں کارو کاری کا
اور قتل کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے
پریم کے ان دیوانوں کا
جن کے دل میں امنگ ہوتی ہے گھر بسانے کی
میرے قریب مت آؤ
کہ آگ جلتی ہے
قبیح رسموں کی اور رواجوں کی
سیدہ زائرہ عابدی
کاروکاری کی رسم ہو یا صحیفہ سے نکاح کی ہر دو صورتوں میں معصوم عورت کا ہی استحصال کیا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںکاروکاری کی رسم ہو یا صحیفہ سے نکاح کی ہر دو صورتوں میں معصوم عورت کا ہی استحصال کیا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریں