کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو بارش کے نام پر ملتوی کردیا گیا۔ اگر شہر کو ایک منظم بلدیاتی نظام میسر ہوتا تو بارش
رحمت کے بجائے زحمت نہ بنتی۔ نہ شہر کی سڑکیں تالاب بنتیں، نہ نشیبی بستیاں زیرآب آتیں۔ بارش کے باوجود معمولی سے کمی
بیشی کے ساتھ معمولات زندگی چلتے رہتے اور بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی نوبت بھی نہ آتی۔ بلدیاتی انتخابات پیپل
ز پارٹی نے پھربارشوں کا بہانہ بنا کر ملتوی کر دئے گئے ہیں -24 جولائی کو منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات شہریوں کے لیے
روشنی کی کرن تھے، جس سے اس بات کی امید کی جاتی تھی کہ شہریوں کو یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے شہر کے مسائل کے
بارے میں کس سے سوال کریں، لیکن اچانک بلدیاتی انتخابات کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو کم از کم
ڈھائی سال قبل ہونا تھا، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر ان انتخابات کو ٹالا جاتا رہا۔ صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے
ہوئے بیشتر بلدیاتی اور شہری اداروں پر اپنا کنٹرول بھی حاصل کرلیا، صوبائی حکومت کے ہاتھ میں بلدیاتی اور شہری اداروں کے
جانے کے بعد ان اداروں کی کارکردگی میں بہتری ہونے کے بجائے اور خرابی پیدا ہوگئی۔ عملاً یہ شہر ناقابل رہائش بن چکا ہے۔
ایک وقت یہ تھا کہ اس شہر کو دہشت گردوں کے حوالے کردیا گیا تھا، امن وامان سب سے بڑا مسئلہ تھا، اس شہر کی بے امنی کی
ذمے دار سیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے تھے، اسی دوران شہری اور بلدیاتی اداروں کی تباہی کے عمل کا
آغاز ہوا، اس تباہی کی رفتار کو سندھ حکومت نے تیز کردیا۔ اس وجہ سے بااختیار شہری اور بلدیاتی حکومت کا قیام لازمی اور
ضروری ہوگیا ہے، لیکن جب سے ملک پر بڑی سیاسی جماعتوں کا کنٹرول ہوا ہے انہیں بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے سے کوئی
دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی اور صوبے پر ماضی میں اپنے پورے اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے والی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی
اور ایم کیو ایم نے ثابت کردیا ہے کہ ان کی ناقص کارکردگی شہر کی تباہی کی ذمے دار ہے۔ اس پس منظر میں کراچی میں ہونے
والے بلدیاتی انتخابات اور اس کے نتائج پر پورے ملک کی نظر تھی۔ یہ صاف نظر آرہا تھا کہ صوبائی حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اور
اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ رہے ہیں، ایم کیو ایم عدالت میں بلدیاتی
انتخابات کے التوا کی درخواست لے کر گئی لیکن اسے عدالت سے یہ سہولت نہیں ملی۔ ایم کیو ایم کے وکیل اپنی درخواست کو لے
کر عدالت عظمیٰ میں گئے ہوئے ہیں، وہاں سے بھی اس بات کی امید نہیں رہ گئی تھی کہ انہیں سہولت ملے گی۔ اچانک اس سلسلے
میں الیکشن کمیشن متحرک ہوگیا، چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے ایک درخواست آ گئی۔ محکمہ موسمیات سے موسم کے بارے
میں رپورٹ منگوالی گئی اور بارش کی پیش بینی کا بہانہ کرتے ہوئے
الیکشن سے محض تین دن قبل بلدیاتی انتخابات
کو ملتوی کردیا گیا
ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کو سات دہائیاں پوری ہوچکی ہیں اورہماری تقریباً،ہر جمہوری حکومت نے گلے میں
سازش کا طوق پہنا ہوا ہے کہ اس نے عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب کرنے کے بجائے اپنی اپنی من پسند شخصیات کو
نوازنے کی خاطر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کروانے
سے حتّی الامکان گریز کیا ۔
ہمارے ہی وطن میں یہ سازش تسلسل سے کیوں جاری و ساری ہے ،،اس کی وجہ بلکل صاف ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں اب تک
موروثی سیاست کے مہرے ہی ہر بار الٹ کر اور پلٹ کر اپنی خاندانی سیاست کو جاگیر کی طرح استعمال کر رہے ہیں ان سیاسی
باشاہوں کے پاس عوام کی بہبود کا کوئ پروگرام ہوتا ہی نہیں ہے یہ صرف اپنے خزانوں کو مذ ید بڑھاوا دینے کے لِئے آتے ہیں اور
پہلے سے بچھائ ہوئ اپنی سیاسی بساط اپنے موروثی جان نشینوں کے سپرد کر کےچلے جاتے ہیں
چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی
حکمرانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ لہٰذہ عوام کے سروں پر مسلّط سیاسی وڈیرے چند کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو خوش
رکھ کراور اپنے عوام
کو ہر سہولت سے محروم رکھ کر طویل ،طویل عرصے تک خوش اسلوبی سے بر سر اقتدار رہتے
ہیں ۔
کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر ،اور ان عہدے
داروں تک عوام کی رسائ نہیں ہوتی ہے وہ مارے مارے پھرتے رہتے ہیں جبکہ بلدیاتی
انتخابات کسی بھی ملک کے عوام کے درمیان اختیارات کی تقسیم کےعلاوہ سیاسی شراکت کے
ساتھ ساتھ ۔ بلدیاتی
نمائندے عوام کے مقامی مسائل حل کرنے کرنے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ،دوسرا بڑا
فائدہ یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے ہی سیاسی نرسری کی پنیریاں تیار کر کے اگلی نسل کے
لئے سیاسی نمائندے فراہم کرتے ہیں ۔ نچلی
بلدیاتی سطح سے سیاسی قیادت کے سامنے آنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو نمائندہ جس
سطح سے آتا ہے وہ اپنے گرد کے مسائل سے باخبر ہوتا ہے اس لئے اس کی گرفت بھی اچھّی
ہوتی ہے ،
یہاں سے عوامی خدمات کی بنیاد بناتے ہوئے جو بلدیاتی نمائندہ جتنا ہر دلعزیز ہوتا ہے وہ آگے چل کر سیاستدان بننے کا استحقاق رکھتا
اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے وطن کے قوم پرست اور سیاسی جاگیردار سب اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہاتھ میں ہاتھ
ڈال کر کھڑے ہوئے کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم کو انگریز کا کمشنری نظام چاہئے س لحاظ سے تو ہمارے فوجی حکمرانون نے ہی بلدیاتی
انتخاب کرواکے عوام کی بھلائ چاہی ،ویسے تو صدر ایّوب خان نے بھی بلدیاتی انتخابات کروائے تھے جس کے ثمرات عوام تک
پہنچے لیکن دوسری مرتبہ صدر پرویز مشرّف نے عوام کو بہترین نمائندوں کا سسٹم دیا ،اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر
کے عوام اپنے حقوق کی خاطر میدان عمل میں آ کر مطالبہ کریں کہ ان کو ایک شفّاف بلدیاتی
الیکشن کے زریعے بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہے۔
کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام 2001 میں متعارف کرایا گیا۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اس نظام کے تحت
پہلے ناظم منتخب ہوئے۔ مختلف فلائی اوورز کی تعمیر کا آغاز اور کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارٹ ڈیزیز بھی نعمت اللہ خان کے دور میں
بنایا گیا۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالستار افغانی وہ میئر تھے جو لیاری میں پیدا ہوئے اور میئر بننے کے بعد بھی وہیں
رہائش پذیر رہے۔ افغانی صاحب نے شہر کو لیاری جنرل اسپتال دیا، جو عام لوگوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ
ہے۔ کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے کبھی نا تھی-کاش پارٹی بلدیاتی نمائندوں سےاختیارات نا
چھینتی
تو شہر کا کم از کم یہ حال نا ہوتا
لیکن آج اس عظیم الشّان شہر کی کیفیت یہ ہے کہ بااختیار حلقے کسی طور بھی کراچی کو اس کا جائز حق اور شہریوں کو وہ سہولتیں
دینے کےلیے تیار نہیں جو پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ان کا حق ہیں۔ ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے وال
ا شہر آج اپنی بے بسی پر فریاد کناں ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں