اتوار، 8 دسمبر، 2024

زار شاہی کے دور حکومت میں انقلاب روس

 

23 فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔جب خواتین لائنوں میں لگ کر  کئی  گھنٹے انتظار کر چکیں تب ان سے کہا گیا کہ گودام خوراک سے خالی ہو چکے ہیں  مزید انتظار فضول ہو گا اس لئے گھروں کو لوٹ جائے،  ۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش  ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے   ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔


 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔   اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انھیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔


 پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔   آمرانہ طرز حکومت، اقتصادی کمزوری، بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ و غضب بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں ڈھل گیاجس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر قیادت اقتدار سنبھالا۔ جولائی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا، جو سیاسی اصلاحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس (اسمبلی) سامنے لانا چاہتی تھی۔یہ انقلاب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔  جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں اب بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی  نہیں چاہتی  تھی۔روس کی پارلیمنٹ  میں   امراء اورجاگیردار اپنا   غلبہ  اور بالادستی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی، ریلوے اسٹیشن پر روسی انقلاب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔ 


اپریلکی 4 تاریخ تھی 1917ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں (پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجلاسوں میں لینن نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا، اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے  اسے سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔  -25 اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگھر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہو چکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے لائی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا ہم مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ”  لینن کا کہنا تھا ”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔


لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھیاس کے بعد سے اس کے اراکین کمیونسٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن کمیون ازم کو پوری دنیا تک پھیلانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔روفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’کمیون ازم کی ترویج کا عمل سنہ 1918، 1919 اور 1920 میں جاری رہا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری میں بغاوت ہوئی۔ لیکن بالشویک کہیں اور زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکے۔‘بلا کون ہنگری کے ایک کمیونسٹ سیاستدان تھے جو 1919 میں کچھ عرصے کے لیے اقتدار میں آئے۔روفیسر جولین کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ تمام انقلاب خون خرابے کی نذر ہو گئے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ممالک میں ایسے بہت سارے مسلح گروہ تھے جو کہ لینن کے گروہ اور نظریات کے مخالف تھے۔ن تمام وجوہات کے سبب لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کاخواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں  کا ناک میں دم کئے رکھا  


1 تبصرہ:


  1. زار کا روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا جو جنگ و جدل کے باعث زوال اور انحاط کا شکار تھا۔ زارِ روس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ وہ افسر شاہی کے ذریعے زراعت، تجارت اور ہر قسم کے ذرائع کا مختارِ کل تھا۔ اِس جگہ تجارت اور صنعت کا بہت زیادہ ذکر کرنے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ سن 1900 میں روس میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ صنعتی ورکنگ کلاس سے تعلق ر کھتے تھے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر