کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے جب میرے وطن کی دھرتی پر کرپشن کی آکاس بیل نے سر نہیں اُٹھایا تھا تب میرے وطن کا گوشہ گوشہ اُن چہروں سے منور تھا جو اس دھرتی کے حقیقی خدمت گار تھے وہ اس دھرتی کی وہ خدمت کرتے تھے جو اپنی جنم دی ماں کی'کی جاتی ہے ان خدمت گاروں میں بے شمار نام ہیں لیکن میں اس وقت بات کروں گی ایک ہونہار سپوت کی جس نے پی آئ اے کو دنیا کی صف اول کی ائر لائینز میں بہت کم عرصے میں لا کھڑا کیا تھا اور وہ نام ہے ایئر کموڈور ملک نور خان ؎؎ملک نور خا ن نے 1959 میں پی آئی اے کی قیادت سنبھالی۔ پی آئی اے کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ارشاد غنی کا کہنا ہےکہ ملک نور خان1959 ء کا دور شروع ہوا جسے اکثر پی آئی اے کا گولڈن ایرا (یعنی سنہری دور) کہا جاتا ہے۔ پی آئ اے دن بدن ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھتا چلا گیا -یاد رہے کہ انہوں نے 1978 سے 2013 تک فلائٹ آپریشنز، آئی ٹی، کارپوریٹ پلاننگ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں اہم ذمہ داریو ں پر فائض رہے-جناب ارشاد غنی نے بتایا کہ نور خان کی پی آئ اے کی سربراہی کے عرصے میں پی آئی اے نے بے پناہ ترقی کی۔’
سنہ 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان پہلی بار بوئنگ 707 سے فلائٹ شروع کی گئی۔پاکستان فضائیہ کے ائیر مارشل نور خان 1941ء سے 1971ء تک فوج میں خدمت انجام دی اور فضائیہ کے سربراہ رہے۔ 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت دی۔ بعد میں کئی انتظامی عہدوں پر فائز رہ کر ان شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔’نور خان کی دیانت داری کا یہ حال تھا کہ وہ مسافروں کے تبصرے خود پڑھتے اور ہر ایک کا دستخط شدہ جواب بھیجتے۔‘سمیر طارق ’ایکسپریس ٹریبیون‘ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ٹریول اور ایئر لائن انڈسٹری کا حصہ تھے اور ان کے مطابق نور خان اکثر رات یا صبح کے وقت سرپرائز چیک کرتے اور صرف ہوائی جہاز کے حالات ہی نہیں بلکہ عملے کے یونیفارم کی صفائی اور چیک اِن کاؤنٹرز کی حالت بھی ذاتی طور پر چیک کرتے تھے۔نور خان کے انقلابی اقدامات کی بدولت پی آئی اے ایک بین الاقوامی معیار کی ایئرلائن بن گئی، جو پاکستان کے لیے فخر کا باعث تھی۔ اس دور میں نور خان نے دلیرانہ فیصلے کیے اور پی آئی اے کو ایشیا کی صفِ اول کی ایئر لائن اور دنیا کی پانچ بہترین ایئر لائنز میں شامل کر دیا
نور خان نے پی آئی اے فضائیہ کو اپنی خدمات سے قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہترین مقام دیا ۔جہاں پاکستان کے سفارتی مشنز موجود تھے، وہاں پی آئی اے ان کی معاونت کرتی تھی اور جہاں سفارتی مشنز موجود نہیں تھے، وہاں پی آئی اے کی موجودگی نے پاکستان کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ ادارہ کئی ممالک میں پاکستان کے غیر رسمی سفیر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔‘ان دنوں پی آئی اے کے اشتہاری الفاظ تھے کہ ’ہر ساتویں منٹ میں پی آئی اے کی ایک پرواز دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر اُترتی یا روانہ ہوتی ہے۔‘پاکستان ائر فورس کے مایہء ناز سربراہ ائیر مارشل نور خان نے کافی عرصے فوج میں خدمت انجام دیں ۔ 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت دی۔ملک نور خان کا تعلق ضلع تلہ گنگ کے گاؤں ٹمن سے تھا جنہوں نے فضائیہ کا عہدہ چھوڑنے کے بعد میں کئی انتظامی عہدوں پر فائز رہ کر ان شعبوں کو چار چاند لگا دئیے
پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے جیٹ ایئرکرافٹ آپریٹ کیا۔ مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے چھوٹے شہروں کو ڈھاکہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی سات، آٹھ چھوٹے سٹیشنز کو بڑے شہروں کے ساتھ منسلک کیا گیا ساتھ اسی دور میں پی آئی اے کے دو پائلٹس، کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔سنہ 1965 کی انڈیا، پاکستان جنگ سے کچھ عرصہ قبل، نور خان کو ایئر فورس اور ایئر مارشل اصغر خان کو پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا گیا۔اصغر خان ہی کے دور میں پی آئی اے کے کیبن کریو یعنی عملے کا یونیفارم عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی ڈیزائنر پیئر کارڈین نے تیار کیا۔ یہ ڈیزائن پاکستان میں فیشن پر خوب اثرانداز ہوا۔سنہ ء 1962 میں مارچ کی اُس رات، لندن کی سرد ہواؤں کی سلامی لیتی، امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے کراچی سے پرواز بھرنے والے جہاز کی سیڑھیاں اُتریں تو وہ پرواز سے اس قدر خوش تھیں کہ گرم جوشی سے پائلٹ کو گلے لگایا اور پُکار اٹھیں ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔‘پاکستان کی قومی ایئرلائن کو انگریزی میں یہ سلوگن کرکٹ مبصر اور مصنف عمر قریشی نے دیا تھا۔یہی نعرہ صحافی اور شاعر فیض احمد فیض نے اُردو میں یوں لکھا: ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘۔جیکولین کینیڈی نے نہ صرف پی آئی اے کے اس دعوے پر مہر ثبت کر دی بلکہ انڈیا کے نو اور پاکستان کے پانچ دنوں کے خیر سگالی دورے کے بعد امریکا واپسی سے پہلے برطانیہ میں اُترتے ہوئے اپنے آٹوگراف کے ساتھ جہازکے کپتان ایم ایم صالح جی کو ’نیک خواہشات کے ساتھ‘ اپنی تصویر بھی دی۔یہ ایک ایسی ریاستی ایئر لائن کا سنہرا دور تھا جس نے مختصر عرصے ہی میں دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کر لیا تھا۔
میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پی آئی اے بھی آدھی رہ جائے گی ’لیکن حکومتِ پاکستان نے کاروباری شخصیت رفیق سہگل کو پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کی دعوت دی۔ انھوں نے مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اعلان کیا کہ کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا اور ادارہ مزید ترقی کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔‘’سہگل کے دور میں اور بعد کے ادوار میں پی آئی اے کا بیڑا اور نیٹ ورک بڑھتا رہا۔ 1960 کی دہائی میں بوئنگ 707 آئے، 1970 کی دہائی میں ڈی سی 10، اور بعد میں بوئنگ 747 اور ایئربس اے 300 جیسے جدید طیارے شامل کیے گئے۔ پی آئی اے ایشیا میں بوئنگ 737-300 متعارف کرانے والی پہلی ایئرلائن تھی۔‘دو سال بعد نور خان کو پھر سے پی آئی اے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے نے 1992 تک کے ’سنہری دور‘ میں خطے میں ہوا بازی کے میدان میں سبقت حاصل کی۔ ’ادارے نے اپنی سہولیات خود تیار کیں، جیسے فلائٹ کچن، ٹریننگ سینٹر اور فلائٹ سیمولیٹر، مرمت اور دیکھ بھال کی تمام سہولیات بھی خود فراہم کیں، جس سے پی آئی اے خود کفیل بن گئی۔‘
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ’پی آئی اے‘ جس کا شمار کبھی دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا اور کئی اعزازات بھی اس کے نام رہے لیکن پھر 1980 کی دہائی کے اواخر سے اس کے ’ڈاؤن فال‘ یعنی تنزلی کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔برسوں سے خسارے کے سبب اب حکومت بھی اسے چلانے سے قاصر ہے اور اسی لیے اس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے اور مناسب خریدار کی تلاش اور انتظار ہے
جواب دیںحذف کریں