بدھ، 10 جولائی، 2024

مسلم بن عوسجہ کربلا کےمیدان کارزار میں

  زیارت ناحیہ کے مطابق مسلم بن عوسجہ ان پہلے شہداء میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پیمان وفا کو پورا کیا-مسلم بن عوسجہ اسدی  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے۔  -   اسدی  قبیلے کے بہت سے افراد اہل بیت سے محبت رکھتے تھے۔ ہجرت سے 20 سال پہلے یمن میں پیدا ہوئے.  رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اصحاب نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا ان میں سے ایک جناب مسلم بن عوسجہ بھی     ہیں-واقعۂ کربلا سے پہلے جناب مسلم بن عقیل کے قیام میں قبیلہ مذحج اور بنی اسد کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی. آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے اور آپ کا بیٹا بھی کربلا کے شہیدوں میں سے ہے۔آپ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ صدر اسلام کے ان شجاعان عرب میں سے ہیں جنہوں نے آذربائیجان اور دیگر علاقوں کی فتح میں مسلمان لشکر کی ہمراہی کی۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔


مسلم بن عوسجہ کی صفاتِ کمال -مسلم بن عوسجہ شجاع ترین جنگجو اور جرأت و جوانمردی کا عظیم نمونہ تھے۔ آپ کا شمار اپنے زمانے کے معروف عابدوں زاہدوں میں ہوتا ہے۔ عبادت و زہد نے آپ کو خانقاہوں میں مقید نہیں کیا اور نہ امامؑ کی جانب سے وجود میں آنے والی سیاسی فعالیت سے غافل رکھا۔ شجاعت و عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ قاری قرآن اور عالم و فاضل تھے۔ کوفہ کے معاشرے میں آپ ان اہل شرف میں شمار ہوتے تھے جو اپنی فدا کاری اور ایثار میں نمایاں تھے۔سفیر حسینؑ مسلم بن عقیل کی جب کوفہ آمد ہوئی اور ان کے استقبال کے جو حالات تاریخی کتب میں وارد ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ امت اسلامیہ کی سیاسی و اجتماعی مسائل سے بھر پور واقف تھے اور امامت کی جانب سے برپا ہونے والے سیاسی و اجتماعی تحرکات کا باقاعدہ حصہ تھے۔بعض منابع کے مطابق جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں پہلے مسلم بن عوسجہ کے گھر مقیم ہوئے اور ان کے گھر میں لوگ جناب مسلم بن عقیل سے ملنے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرتے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے اہل خانہ بھی کربلا میں موجود تھے ۔مؤرخین کے بقول خلف بن مسلم بن عوسجہ آپ کا ہی بیٹا تھا جو اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوا۔

شیخ مفید نے نقل کیا ہے: روز عاشورا حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب نے خیام کی حفاظت کیلئے خیام کی پشت پر خندق کھود کر آگ روشن کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے آگے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا : اے حسین ! قیامت سے پہلے ہی آگ جلا لی ہے ۔امام نے فرمایا : یہ کون ہے لگتا ہے شمر ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں وہی ہے ۔امام نے سورۂ مریم کی 70ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے چرواہے کے بیٹے!تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے ۔ مسلم بن عوسجہ نے فرزند رسول سے اسے تیر مارنے کی اجازت طلب کی اور کہا وہ میرے تیر کی مار میں ہے اور میرا تیر خطا نہیں جائے گا۔ امام نے جواب میں فرمایا : میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت ماروکی قسم! تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند کے راستے میں بصیرت و آگہی کے ساتھ جام شہادت نوش کرے گا وہ اعلٰی عِلِیّین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجے لوگوں کے رتبے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہوگا" جس شخص نے سب سے پہلے حبیب کی ندا پر لبیک کہا اور وفاداری کا اعلان کیا وہ "عبد اللہ بن بشر" تھے۔ عبد اللہ اور بنی اسد کے کچھ افراد حبیب کے گرد جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرف حضور پانے کا ارادہ کیا لیکن یزیدی فوج سے ازرق بن حرب صیداوی نے 4000 افراد کا لشکر لے کر ان پر حملہ کیا اور قبیلہ بنی اسد کو منتشر کردیا-اور یہی وہ وقت تھا جب مسلم بن عوسجہ اور حبیب ابن مظاہر نے کوفہ چھوڑ دیا  اور چھپتے چھپاتے کربلا میں آ کر امام  عالی مقام سے متصل ہو گئے

 شب عاشور-شب عاشور امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنے اصحاب سے بہترین اصحاب اور اپنے اہل بیت سے بہترین اہل بیت کسی کے نہیں دیکھے اور اس کے بعد انہیں رات کی تاریکی میں  چھوڑ  کرچلے جانے کی تلقین اور یہ باور کروایا کہ دشمن فقط مجھ حسینؑ کا کو قتل کرنا چاہتا ہے اس لیے تم سب یہاں سے خاموشی کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل جاؤ۔امام حسینؑ کے اس دستور پر ان کے اہل بیت اور اصحاب نے اپنی وفاداری اور فدا کاری کا یقین دلایا اور امام حسینؑ کے بغیر زندگی کے تصور کا انکار کیا۔ ایک ایک کر اصحاب کھڑے ہوتے جاتے اور امام حسینؑ سے محبت و وفا داری کا اظہار کرتے اور جانے سے انکار کرنے لگے۔ انہی میں مسلم بن عوسجہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔اگر ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں تو آپ کا حق اداء کرنے کے وظیفہ کے بارے میں اللہ کے سامنے یا عذر پیش کریں گے؟! قسم بخدا ! جب تک میں اپنے نیزے کو ان کے سینوں میں نہ گاڑ دوں اور اپنی تلوار سے ان وار نہ کر لوں، جب تک میرے ہاتھوں گرفت اس تلوار پر قائم ہے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، اگر میرے پاس اسلحہ باقی نہ رہے تو بھی میں ان سے جنگ لڑتا رہوں گا اور پتھروں کے ساتھ ان پر حملہ کروں گا، یہاں تک کہ آپ کی سرپرستی میں آپ کے ہمراہ موت سے ہمکنار ہو جاؤں۔ قسم بخدا! ہم آپ کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ اللہ جان لے کہ نے رسول اللہؑ کی غیبت میں آپ کی حفاظت کی ہے، قسم بخدا! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ ۷۰ مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہمراہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں-

شہادت -روز عاشور عمر بن سعد نے لشکر کے دائیں حصے کا علم عمرو بن حجاج کے سپرد کیا تھا اس حصے نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب با وفا پر حملہ کیا ۔دونوں میں لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرفیں اسی دوران فرات کی طرف چلے گئے ۔ مسلم بن عوسجہ اس حملہ میں موجود تھے ۔مسلم بن عبد اللہ ضبائی اور عبدالرحمان بن ابی خشکارہ نے مسلم بن عوسجہ پر حملہ کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا۔ حضرت مسلم بن عوسجہ جب خون میں غلطان تھے تو حضرت امام حسین اور حبیب بن مظاہر آپ کے سرہانے پہنچے ۔امام نے اسے کہا:اے مسلم! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ اور پھر اس آیتفَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ و مِنهُم مَن یَنتَظِر و ما بَدّلوا تَبدیلاًکی تلاوت فرمائی۔ حبیب بن مظاہر اسکے قریب ہوئے اور کہا :تمہارا قتل ہونا میرے لئے نہایت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔مسلم بن عوسجہ نہایت نحیف آواز میں کہا: میں بھی تمہیں خیر کی بشارت دیتا ہوں ۔حبیب نے کہا:اگر  اللہ کے گھر کی وداعئ  کا وقت قریب نہ ہوتا میں تم سے خواہش کرتا کہ تم مجھے وصیت کرو تاکہ میں حق دینی اور رشتہ داری کا حق ادا کرتا۔ مسلم بن عوسجہ نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حبیب سے کہا:میں تمہیں اس شخص(یعنی امام حسین علیہ السلام ) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے اس کا دفاع کرنااور اپنے قتل ہونے تک اس کی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ حبیب نے جواب میں کہا : میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں۔


 

1 تبصرہ:

  1. جن اصحاب باوفا نے کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا ان میں سے ایک جناب مسلم بن عوسجہ بھی ہیں جن کا تعلق قبیلہ "بنی اسد" سے تھا. ان کی کنیت "ابو حجل" مذکور ہوئی ہے. واقعۂ کربلا سے پہلے جناب مسلم بن عقیل کے قیام میں قبیلہ مذحج اور بنی اسد کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر