امین کے قتل کئے جانے کے بعد مامون نے حالات کے تقاضوں کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ امام رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیشکش کی جائے۔ یہ ایک سیاسی چال تھی، جو شخص جاہ و اقتدار کے لئے اپنے بھائی کو قتل کردے یکایک اتنا انصاف پسند کیسے ہو گیا کہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگا۔ سمجھدار لوگوں نے مامون کے اس رویہ اور شیعیت کی طرف جھکاؤ کو ایک بناوٹی اور غیر فطری عمل قرار دیا ہے۔ اس فیصلہ میں مامون رشید کی نیت یہ تھی کہ امام علیہ السلام کو اپنے رنگ میں رنگ لے اور دامن تقویٰ اور فضیلت کو داغدار کردے۔ اگر امام خلافت قبول کرلیں تو وہ اپنے لئے ولی عہد کی شرط پیش کرتا اور اس طرح اپنا استحقاق ثابت کرتا۔ امام رضا علیہ السلام کو خلافت تفویض کرنے کے منصوبہ کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون چاہتا تھا کہ امام کو مرو بلایا جائے جو اس زمانہ میں خراسان کا مرکزی شہر تھا۔ شیخ مفید، شیخ صدوق، مسعودی اور کلینی جیسے مستند حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مامون نے امام رضا علیہ السلام کے نام خط بھیجا اور مرو آنے کی دعوت دی۔ امام علیہ السلام نے عذر ظاہر کیا لیکن مامون کے مسلسل خطوط کے نتیجہ میں امام علیہ السلام نے محسوس کیا کہ مامون اس امر سے دستبردار نہ ہوگا اور آپ نے مدینہ سے مرو سفر کا ارادہ کرلیا۔
امام رضا کی دار الحکومت میں آمد :-امام رضا علیہ السلام کا قافلہ دس شوال المکرم 201 ہجری کو ماموں کے دارالحکومت مرو میں پہنچا، مامون، اس کے وزیر فضل بن سهل اور بنی عباس کے امراء و بزرگوں نے آپ کا استقبال کیا اور عزت و احترام کے ساتھ شهر میں لے آئے، چند روز گزرنے کے بعد امام عالی مقام اور مامون کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا، ابو صلت ہروی کہتے ہیں کہ ماموں رشید نے امام رضا علیہ السلام سے کہا : اے فرزندِ رسول ! میں آپکے علم و فضل، زہد و تقوی اور آپ کی عبادت و بندگی کا معترف ہوگیا ہوں اور میری رائے میں آپ مجھ سے زیادہ اس خلافت کے حق دار ہیں، لہذا اس بار خلافت کو آپ اپنے ذمے لے لیں ۔حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : اگر یہ خلافت تمہارا حق ہے اور پھر خدا نے تمہیں دی ہے تو یہ جائز نہیں کہ جو خلعتِ خلافت خدا نے تمہیں پہنائی ہے تم اس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دو اور اگر یہ تمہارا حق نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ جو چیز تمہاری نہیں ہے تم وہ مجھے بخش دو، مامون نے کہا یا ابن رسول ! آپ کو یہ خلافت کسی بھی صورت قبول کرنی ہی پڑے گی، امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : زبردستی کی اور بات ہے ورنہ اپنی خوشی سے تو میں اسے کبھی بھی قبول نہ کرونگا۔
امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے آخری ١٠ سال جو کہ عہد مامون کے ہم زمانہ تھے تاریخی لحاظ سے اہم ہیں۔ ۔کیونکہ واقعہ کربلا کے بعد خاندان رسول اور عام مسلمانوں کے درمیان جو رابطہ منقطع ہو گیا تھا ائمہ صادقین علیہ السلام نے اپنے دور مدینہ میں اسلامی درسگاہ قائم کر کے اس کو بحال کر دیا تھا جس میں یہاں ایک وقت میں ہزاروں طالبِ علم جمع ہوتے تھے۔ لیکن بہت جلد حالات بدل گئے۔ دوسری صدی ہجری کے وسط تک ہارون رشید نے بنی عباس کی سلطنت کو عروج کمال تک پہنچا یا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ایک طویل عرضہ کی قید تنہائی کے سبب تشیع کی دنیا میں ایک خاموشی چھانے لگی اور ملوکیت نے واقعہ کربلا کو عوام کے ذہنوں سے مٹانے کی اپنی ممکنہ کوششوں کو تیز کردیا۔ صرف مدینہ اور حجاز کے کچھ حصوں میں فقہا اور دانشوروں کی حد تک اہلبیت کا ذکر محدود ہو گیا۔ان حالات میں ١٨٣ھ میں امام علیہ السلام ہفتم کی شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام نے اپنی امامت کا اعلان کردیا تھا۔ امین کے قتل کے بعد امام رضا علیہ السلام کے حوالہ سے مامون رشید کے لئے تین راستے تھے۔ (١) اپنے آباء کی پیروی میں امام کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو امام کے والد کے ساتھ روا رکھا گیا یعنی قتل کردینا ، لیکن اس میں عوام کے غم وغصہ کا امکان تھا۔ ( ٢) امام علیہ السلام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا مگر اس میں وہ اپنی سلطنت کے لئے خطرہ سمجھتا تھا یا (٣) پھر امام کو اپنے سیاسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنالیتا، مورخین نے مامون رشید کو خلفائے عباسی میں بطور ایک طاقتور ترین، باہوش، دانشمند اور میانہ رو فرد کے طور پر پیش کیا ہے۔
شہید مرتضی مطہری نے اپنی کتاب سیرت ائمہ اطہار میں لکھا ہے کہ شیعہ سنی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے ولایت عہدی کو قبول کرنے کے بعد مامون کے اجلاس میں مخصوص خطبہ دیا۔ مختصر خطبے میں آپ نے اپنی پوزیشن واضح کردی۔ اس خطبے میں نہ مامون کا نام لیا اور نہ اس کا شکریہ ادا کیا جبکہ رسم یہ تھا کہ اس کا نام لیا جاتا یا شکریہ ادا کیا جاتا۔ ابوالفرج کہتا ہے کہ امام رضا کی بیعت کے لئے ایک دن مقرر ہوا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ مامون نے اپنے ساتھ امام رضاعلیہ السلام کے لئے ایک نشست رکھی۔ سب سے پہلے اپنے بیٹے عباس بن مامون کو بیعت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ایک علوی سید نے بیعت کی اسی ترتیب کے ساتھ علوی اور عباسی بیعت کرتے گئے۔ ہر بیعت کرنے والے کو مخصوص انعام بھی دیا گیا۔ اس کے بعد عوام کی بیعت کا موقع آیا تو مامون نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ لوگ بیعت کریں۔ اما م علیہ السلام نے نبئ آخر زماں صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کی کی مانند لوگوں سے بیعت لی-
واضح رہے کہ دربار خلافت میں امام رضا علیہ السلام اور مختلف ادیان و مذاہب کے علماء کے درمیان ہونے والے ان مناظروں کے پیچھے مامون کے سیاسی مقاصد بھی تھے، علمی مباحث سے طبعا دلچسپی کے باوجود مامون یہ نہیں چاہتا تھا کہ ان مناظروں کے ذریعہ امام کی شخصیت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے بلکہ وہ اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی وقت امام جواب دینے سے عاجز ہو جائیں اور اس کو لیکر امام عالی مقام کے فضائل و کمالات کو گھٹایا جا سکے جو ناممکن تھا بلکہ مامون کی خواہش کے برعکس یہ مناظرے امام عالی مقام کے علمی تفوق اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت اور برتری منوانے کا ذریعہ بن گئے، اس مختصر سے مقالے میں ان علمی مناظرون کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں اس لیے صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا ہے المختصر ان مناظروں کے ذریعہ امام عالی مقام کو جید علما اور فقہا کی موجودگی میں اپنے علم و فضیلت کے اظہار کا موقع ملا جو آپ کی حکمت عملی سے ہی ممکن ہوا جس سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔
جواب دیںحذف کریںمامون نے امتحان لیتے ہوئے امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ نماز عید کی امامت کریں۔ امام نے شروع میں معذرت کی لیکن جب مامون نے اصرار کیا تو فرمایا کہ اس شرط پر قبول کرتا ہوں کہ رسول خدا کی طرح نماز پڑھاوں گا۔ مامون نے قبول کرلیا۔ اعلان کیا کہ شہر کے باہر نماز عید ادا کی جائے گی۔سپاہیوں نے زمانے کے رسم کے مطابق وردیوں کے ساتھ نماز میں شرکت کی تیاری کی اور قیمتی لباس پہن لئے اور امام کی رہائش گاہ کے باہر انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ امام علیہ السلام گھر سے نکلے ہیں۔ غلاموں کے آگے خضوع و خشوع کے ساتھ حرکت کررہے ہیں۔ امام اللہ اکبر پڑھتے تو لوگ جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے۔ جب امام علیہ السلام کی یہ حالت دیکھی تو سپاہی بھی سواریوں سے اتر گئے اور پابرہنہ امام علیہ السلام کے پیچھے چلنے لگے۔ راوی کہتا ہے کہ گویا زمین، آسمان، پہاڑ اور دریا سب ہم صدا ہوکر اللہ اکبر کہہ رہے تھے