مسجد جمکران (ایران) کیسے تعمیر ہوئی
مسجد جمکران تقریبا ایک ہزار سال قبل امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے خصوصی حکم سے تعمیر کی گئی ۔یہ مسجد صدیوں سے شیعوں کی پناہ گاہ ، منتظرین امام (ع) کا مرکز اور امام عصر ؑ (عج) کی کرامات کی جلوہ گاہ ہے ۔ مسجد جمکران کی تاسیس کے بارے میں میرزا حسین نوری نے شیخ صدوق کی ہمعصر شخصیت حسن بن محمد بن حسن قمی سے اور انہوں نے اپنی کتاب تاریخ قم میں کتاب مونس الحزین فی معرفۃ الحق و الیقین سے کچھ اس طرح نقل کیا ہے :نیک و پاکدامن بزرگ حسن بن مثلہ جمکرانی کہتے ہیں :میں ماہ مبارک رمضان کی سترہویں شب ، شب بدھ ۳۹۳ھ کو اپنے گھر میں سو رہا تھا - کہ یکایک کچھ لوگوں نے آ کر دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے بیدار کیا - اور کہا تمہیں تمہارے امام (ع) بلا رہے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ مجے اس مقام پر لے گئے - جہاں اب مسجد جمکران واقع ہے ۔ امام زمانہ علیہ السلام نے مجھے بلایا اور فرمایا حسن بن مسلم کے پاس جاؤ - اور اسے کہو کہ چند سالوں سے تم اس زمین کو آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہو - اور یہ اللہ کے حکم سے خراب ہو جاتی ہے ۔ پانچ سال تک تم نے یہاں کاشت کی - اور اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہو ۔ آج کے بعد تمہیں اجازت نہیں ہے - کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کرو ۔ اس زمین سے جو کچھ کمایا ہے - وہ واپس کرو - تاکہ یہاں مسجد تعمیر کی جائے ۔ یہ ایک مقدس زمین ہے خداوند متعال نے اس زمین کو منتخب فرمایا - دوسری زمینوں پر فضیلت دی ہے ۔ تم نے اس زمین پر قبضہ کرکے اسے اپنی زمینوں کے ساتھ ملا لیا ہے ۔ اللہ تعالی نے تم سے تمہارے دو جوان بیٹے لے لیئے - لیکن تم اب بھی متوجہ نہیں ہوئے !!
اگر تم اب بھی متوجہ نہیں ہوئے - تو خدا کی طرف سے مصیبت ایسی جگہ سے نازل ہوگی - جس کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے ۔میں نے عرض کیا - اے میرے مولا و آقا !! مجھے اس کام کے لیئے کوئی دلیل و نشانی عطا فرمائیں - کیونکہ بغیر کسی دلیل و نشانی کے لوگ میری بات پر اعتبار نہیں کریں گے ۔ امام (ع) نے فرمایا :تم اپنا فریضہ جاکر انجام دو - ہم یہاں ایک ایسی علامت نصب کر دیں گے - جس کی وجہ سے لوگ تمہاری بات پر اعتبار کریں گے ۔ اس کے علاوہ سید ابوالحسن کے پاس جاؤ - اور انہیں کہو کہ حسن بن مسلم سے اس زمین کا چند سالہ منافع لے کر لوگوں کو دیں - تاکہ مسجد کی بنیاد رکھی جائے - اور باقی رقم اردہال کے قریب واقع رہق نامی جگہ سے جو ہماری ملکیت ہے فراہم کر کے مسجد کو مکمل کیا جائے ۔ ہم نے نصف رہق کو اس مسجد کے لیے وقف کر دیا ہے - تاکہ ہرسال رہق کی نصف آمدن کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا جائے ۔امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے یہ فرما کر مجھے جانے کا اشارہ کیا ۔ ابھی روانہ ہی ہوا تھا - کہ امام (ع) نے دوبارہ مجھے آواز دی اور فرمایا :.جعفر کاشانی چرواہے کے ریوڑ سے ایک بکرا خریدو ، اگر لوگ بکرے کے پیسے دیں - تو ٹھیک ورنہ اپنے پیسوں سے خرید کر کل رات یہاں لا کر اسے ذبح کرو - اور اٹھارہ رمضان المبارک بروز بدھ کو اس بکرے کا گوشت مریضوں اور ایسے افراد کے درمیان تقسیم کرو - جو کسی سخت بیماری میں مبتلا ہیں ، اللہ تعالی سب کو شفاء عطا فرمائے گا - یاد رکھو ۔ کہ وہ بکرا سیاہ و سفید رنگ کا ہے - جس کے جسم پر بہت زیادہ بال ہیں ۔ سیاہ و سفید رنگ کے ایسے سات نشانات اس کے بدن پر ہیں - جن کی مقدار ایک درہم جتنی ہے - ان میں سے چار نشان ایک طرف اور تین نشان دوسری طرف واقع ہیں"-
میں روانہ ہوا - تو امام (ع) نے ایک مرتبہ پھر مجھے بلایا اور کہا :سات یا ستر دن تک ہم یہاں ہیں -حسن بن مثلہ کہتے ہیں : میں گھر گیا اور تمام رات اسی فکر میں ڈوبا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ نماز پڑھنے کے بعد علی منذر کے پاس چلا گیا - اور تمام واقعہ ان کے گوش گزار کیا - اس کے بعد علی منذر کے ہمراہ اسی جگہ گئے - جہاں رات کو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ملاقات کی تھی ۔علی منذر نے وہاں پہنچ کر کہا ؛ خدا کی قسم !! امام (ع) نے جس علامت و نشانی کے بارے میں فرمایا تھا - وہ یہاں موجود ہے - اور وہ یہ کہ مسجد کے حدود اربعہ کو زنجیروں اور لوھے کی میخوں کے ذریعہ معین کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ہم سید ابولحسن الرضا کی جانب روانہ ہوئے ۔ جب ان کے گھر کے قریب پہنچے - تو ان کے غلاموں اور نوکروں نے ہم سے پوچھا : کیا تم جمکران کے رہنے والے ہو؟ ہم نے اثبات میں جواب دیا - تو انہوں نے کہا کہ " سید ابوالحسن نصف شب سے تمہارے انتظار میں ہیں -"میں نے داخل ہو کر سلام کیا - تو انہوں نے اچھے طریقے سے میرا استقبال کیا - اور بہت احترام سے پیش آئے ، بہت اچھی جگہ پر مجھے بٹھایا - اور اس سے قبل کہ میں کوئی بات کرتا - انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا - اور کہا اے حسن بن مثلہ !! میں سو رہا تھا - کہ عالم خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا : "کل صبح جمکران سے حسن بن مثلہ نامی آدمی تہمارے پاس آئے گا ۔ وہ جو کہے اس پر اعتماد کرنا اور اس کی بات کی تصدیق کرنا کیونکہ اس کی بات ہماری بات ہے ۔ کسی بھی طور اس کی بات کو مسترد نہ کرنا۔یہ خواب دیکھ کر میں بیدار ہوگیا - اور اس وقت سے اب تک تمہارے انتظار میں ہوں ۔ حسن بن مثلہ نے بھی من و عن تمام واقعہ سید کو سنایا ۔ سید ابوالحسن نے حکم دیا - کہ گھوڑوں پر زین کسی جائے ۔ اس کے بعد جمکران کی طرف روانہ ہوگئے ۔
جمکران کے قریب پہنچے - تو جعفر چرواہے کو دیکھا - جو اپنے ریوڑ کو چرانے کے لیے لایا ہوا تھا حسن بن مثلہ ریوڑ میں گئے - اور گلے کے پیچھے آنے والے بکرے کو پہچان کر اس کی طرف دوڑے - اور اسے پکڑ لیا ۔ اس کی قیمت ادا کرنے لگے تو جعفر چرواہے نے کہا کہ خدا کی قسم !! میں نے آج سے پہلے اس بکرے کو اپنے ریوڑ میں نہیں دیکھا تھا - اور آج بھی جب دیکھا تو پکڑنے کی بہت کوشش کی - لیکن یہ ہاتھ نہیں آیا ۔ بکرے کو اس مخصوص جگہ لاکر ذبح کیا گیا ہت ہی اہم نکتہ جس پر توجہ رکھنی چاہئے ۔وہ یہ ہے کہ مسجد مقدس جمکران نہ صرف امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ان کی قوت کا مرکز اور روحانی و معنوی تبدیلی کا مقام نہیں ہے ۔بلکہ آنحضرت کی غیبت کے زمانہ میں بھی اس میں وہ خصوصیت موجود ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ نکتہ خود امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے فرمودات سے استفادہ کیا جاتا ہے جو بھی اس جگہ یہ نمازپڑھے ایسے ہی ہے جیسے اس نے خانۂ خدا میں نماز ادا کی ہو۔اورخانۂ خدا نہ صرف زمین کے جاذبہ کامرکز ہے جو روحی اور جسمی اعتبار سے انسان کے اوپر اثر انداز ہے اور یہ بیت معمور ،آسمانی و فضائی معنوی مقام کے مقابل ہے ۔اس بنا پر اگر انسان خانۂ خدا میں ہو اور اس میں نماز ادا کرے تو اس کے لئے ارتباط کی راہ کھل جاتی ہے اور اپنے آپ کو زمین و آسمان کے روحی و جسمی جاذبہ کے درمیان قرار دے دیتا ہے اور نا مرئی امواج انسان کے جسم و جان کے اندر مفید تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور مسجد مقدس جمکران کی اصل جگہ بھی اسی طرح کی خاصیت رکھتی ہے ۔امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا کلام بھی اس مطلب پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا۔اس مقام پر نماز خانۂ خدا میں نماز پڑہنے کی طرح ہے۔
مسجد مقدس جمکران کے اصل مقام میں بہت سے غیر معلوم اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں لوگ نہیں جانتے ۔اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ما من عِلمٍ إلّا وأنا أفتحه ، وما من سرٍّ إلّا والقائم يختمه ۔ (بحار الأنوار ۔ 269/77)کوئی بھی ایسا علم نہیں ہے مگر یہ کہ میں نے اسے برملا نہ کیا ہو- مگر یہ کہ قائم اسے اختتام تک پہنچائیں گے۔مسجد مقدس جمکران کی تعمیر اس کی عظمت اور راز کے متعلق پہلے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے خبر دی تھی اوراس کے تمام اسرار حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت لوگوں پر عیاں ہوں گے انشاء اللہ ۔ہم اس پرعظمت زمانہ کی یاد پھر سے تازہ کرتے ہیں اور پروردگارعالم سے دعا کرتے ہیں جتنی جلدی ممکن ہو اس نورانی دور کو پہنچا دے تاکہ عالم وجود کے اسرار فاش ہوجائیں اور تمام عالم لامحدود دانش اور عدل و انصاف بھرجائے ۔جو افراد اس مقدس مقام پر مشرف ہوتے ہیں انہیں جاننا چاہئے کہ وہ بہت ہی مقدس مقام پر قدم رکھ رہے ہیں جس مقام پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی توجہ ہے اورآپ آنحضرت کی نگاہوں کے سامنے ہیں اس طرح کہ جیسے آنحضرت کے گھر میں داخل ہوئے ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔لہذا یہاں دیگر مقامات سے زیادہ حضور کے شرائط کی رعایت کریں ۔اور یہ جان لیں کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سامنے ہیں اور وہ نہ صرف ہمارے اعمال ،افکار،تصورات اور خیالات سے آگاہ ہیں بلکہ ہمارے نفس و ضمیر سے بھی باخبر ہیں۔ اس لئے ہمیں ہر جگہ اپنی رفتار، گفتار اور افکار پر توجہ رکھنی چاہئے ،بالخصوص مسجد جمکران میں آنحضرت کے مہمان ہیں اور ادب اور حضور کا زیادہ خیال رکھیں ۔اس مقدس مقام کے ادب کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان مسجد مقدس جمکران شرفیاب ہونے کے اپنے مقصد کو مشخص کرے اور اپنے لئے بہترین ،عالی ترین اور اہم ترین ہدف کا انتخاب کرے اور خود کو چھوٹے مقاصد، مادی مسائل اور ذاتی فائدہ کا پابند نہ کرے اور یہ توجہ رکھے کہ اس زمانہ کا سب سے اہم مسئلہ حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل ہے ۔ کیونکہ آنحضرت کے ظہور کے زمانے میں ہی تمام انسانوں کی مادی و معنوی مشکلات دور ہوں گی اور رنج و غم کو راہ نہ ملے گی تواس سے بہتر اورکیا ہوگا کہ اس مقدس مقام پر تمام انسانوں کی مشکلات اور مصائب سے نجات کے لئے دعا کریں
مسجد جمکران (ایران) بلا شبہ جلوہ گاہ کرامات ہے -اس مقدس مسجد میں مجھے بھی مجلس امام مظلوم سننے کی دوران زیار ت کربلا سعادت ملی
جواب دیںحذف کریں