بدھ، 19 جون، 2024

حاتم طائی کی سخاوت

 


  اہل عرب میں سب سے مشہور سخی افراد میں سے ایک حاتم طائی تھا۔اس کی یہ سخاوت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے جو نسل در نسل یاد رکھی جاتی ہے ۔ اس کی بابت نبی کریمﷺسے ایک حدیث مبارکہ بھی منقول ہے کہ حاتم طائی کے بیٹے عدی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ! میرا باپ بڑا سخی اور بڑا بامروت تھا کیا اس کا اجر قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی سے اس کو ملے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ نے ایک مقصد کے لیے سخاوتیں کی تھیں، مقصد یہ تھا کہ دنیا میں اس کی سخاوت کا چرچا ہو، اس نے یہ مقصد دنیا میں پالیا چنانچہ قیامت تک اس کا ذکر رہے گا اور سخاوت کے باعث لوگ اس کی توصیف کرتے رہیں گے۔29 اسی لیےحاتم طائی نے سخاوت ودریادلی میں عربوں کے ہاں تو نام کما یا ہی ساتھ ہی ساتھ اہل عرب کی تاریخ جاننے والی اقوا م میں بھی نام کمایا۔عرب کے جاہلی دور کا نامور شاعر۔ غیر معمولی شجاعت و سخاوت کی وجہ سے مشہور ہے۔عہد اسلام سے کچھ عرصہ قبل مرا۔ اس کی بیٹی سفانہ عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش ہوئی۔ تو اس نے نبی اکرم صلی الله عليه وآلہ وسلّم کے سامنے اپنے باپ کی فیاضیوں اور جود و کرم کا تذکرہ کیا۔ رسول اللہ صلی الله عليه وآلہ وسلّم نے اس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ حاتم اسلامی اخلاق کا حامل تھا۔ حاتم کا دیوان پہلی بار رزق اللہ حسون نے لندن سے 1876ء میں شائع کیا۔ 1897ء میں دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں چھپا۔ حاتم کے بیٹے عدی بن حاتم نے اسلام قبول کر لیا تھا۔


حالات زندگی

حاتم ابن عبد اللہ بن سعد بن أخزم بن أبي أخزم الطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی۔ اپنی تمام ملکیتی چیز سخاوت کردیتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا۔ انھوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی ۔اس سخی ماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا اور اسے سخاوت کا دودھ پلایا۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا، چھوٹی سی عمر تھی، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا۔ چنانچہ دادا نے اسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا۔ ایک دن عبید بن الا برص، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گذرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا۔


 اس نے ہر ایک کے لیے ایک ایک اونٹ ذبح کیا، حالانکہ وہ انھیں جانتا بھی نہیں تھا۔ جب انھوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیے، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا اور دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے ۔ میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتھ مل جل کر سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں ۔حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہو گئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لیے بڑھا چڑھا دیے گئے ہیں۔۔ پہلے وہ کسی مقصد کے لیے شعر کہتے ہیں پھر وہ جس کے مضامین اور اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے اس شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں ۔


ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے، جب وہ جوا کھیلتا ہے تو وہی جیتا ہے، جب ماہ رجب کا چاند نظر آتا (زمانہ جاہلیت میں خاندان مضر رجب کے مہینہ کو بہت باعزت اور محترم گردانے تھے) حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے ۔حاتم نے نوار نامی عورت سے شادی کی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے نکاح کیا۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے عبد اللہ، سفانہ اور عدی پیدا ہوئے۔ آخری دونوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام سے فیض یاب ہوئے ۔۔سخاوت میں حاتم طائی کی مثال دی جاتی اور کہا جاتا کہ"اکرم من حاتم طئی"یعنی فلاں شخص حاتم طائی سے بھی بڑا سخی ہے کیونکہ حاتم بڑا سخی اور خرچ کرنےوالاتھا ۔حاتم طائی زمانہ جاہلیت میں سب سے بڑا فراخ دل، کشادہ دست اور سخی مانا جاتا تھا اور اس کی سخاوت کے ہر طرف چرچے تھے نیز لوگ ہر وقت اس کی مدح میں رطب ا للسان رہتے تھے۔ حاتم کے بیٹے عدی نے بھی زمانہ اسلام میں سخاوت میں بڑا نام پیدا کیا تھا۔ حاتم طائی کی سخاوت اور دریا دلی کے سینکڑوں طویل اور عجیب و غریب قصے مشہور ہیں تاہم ان میں سے ثقہ راویوں کے حوالے سے جو قصے کتبِ تاریخ میں درج کیے گئے ان میں سے چند پیش کئے ہیں 

حاتم اس طرح لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور مال لٹاتا رہا اور وہ 578 عیسوی میں اس دار فانی سے رخصت ہو گیا


1 تبصرہ:

  1. حاتم کا تعلق”طے“نامی ایک قبیلے سے تھا۔اِسی کی نسبت سے اْسے حاتم طائی کہا جاتا ہے۔وہ یمن کا حکمران تھا۔یمن کا علاقہ عرب سے جڑا ہوا تھا۔عرب پر اْن دنوں نوفل نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔وہ حاتم کی سخاوت اور علاقے میں مقبولیت سے بہت پریشان تھا۔اْس کی سخاوت سے محض یمن کے لوگ ہی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اْس تک پہنچ جانے والا ہر شخص اْس کی سخاوت سے فائدہ اٹھاسکتا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر