سالانہ پانچ ارب روپے دینے والی شپ بریکنگ انڈسٹری کا "خستہ "احوال
تحصیل گڈانی بلوچستان (پاکستان) کے حب ضلع کی ایک تحصیل ہے۔ یہاں دنیا کہ تیسرا بڑا جہاز توڑنے کا شپ یارڈ ہے۔ یہ پاکستان کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ لوگ دور دور سے یہاں پکنک ماننے آتے ہیں۔ شپ بریکنگ کی افتتاح سندھ کے کمیشنر نے سندھ اسٹیل کے نام سے کیا بعد میں جا کر یہ نام تبدیل ہو گیا۔ یہاں کے کچھ تاریخِ مقامات ہیں جیسا کہ ۔گڈانی بیچ دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں سے ایک ہے-گڈانی بیچ کے دلکش نظارے سیاحوں کیلئے پرکشش ہیں۔ سیاح یہاں گھڑسواری، اونٹ سواری اور پیدل سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں : لفظ گڈانی کے بارے میں کہا جاتاہے، وندر ندی سے لے کر لک بدوکے علاقے میں دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا اور اوریہاں پر آباد تمام اقوام کے لوگ ا پنے مال مویشی اسی ایریا میں چراتے تھے، خاص کر موندرہ، سیخ اور سنگھور مال داری اور مال چرائی میں مشہور تھے۔ جب ان کا کوئی مال مویشی گم ہوتا یا وہاں سے بھاگ جاتا تو اس کو پکڑنے کا بہترین جگہ گڈانی تھا کیونکہ سنا ہے کہ یہاں سے صرف ایک راستہ اوپر نکلنے کے لیے تھا یہ علاقہ لک بدوک سے گڈانی پہاڑی تک ''بند ''تھا بند کو بلوچی زبان میں گھٹ کہتے ہیں کیونکہ یہ ایریا بند تھا ہر طرح سے سیف تھا۔ اس گھٹ سے بدل کر گڈانی بن گیا-بلوچستان کا سیاحتی مقامات گڈانی بیچ، خوبصورت ساحلوں اور دلکش مناظر کے لیے جانا جاتا ہے۔گڈانی بیچ 10 کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر محیط ہے، اس بیچ پر سیاح گھڑ سواری اور اونٹ سواری کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس علاقے میں قدیم کھنڈرات اور نوادرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ گڈانی بیچ دنیا کے سب سے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں سے ایک ہے۔گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔گڈانی بیچ کا علاقہ بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہے۔**گڈانی میں جہاز توڑنے کی صنعت علاقے کی ثقافت اور تاریخ کا ایک لازمی حصہ ہے-یورپین یونین کی جانب سے ری سائیکلنگ کے نئے قواعد و ضوابط کے بعد پاکستان میں گڈانی شپ بریکنگ صنعت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کو چین اور ترکی کی جانب سے شدید مسابقت ( کمپی ٹیشن ) کا سامنا ہے کیونکہ وہاں بحری جہازوں کو توڑنے کی جدید ترین سہولیات موجود ہیں۔فی الحال گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں 68 پلاٹس پر جہازوں کو توڑنے کا کام جاری ہے۔ تقریباً 38 آپریٹر اس عمل کو انجام دے رہے ہیں اور 12,000 ملازم وہاں کام کرتے ہیں۔ اس یارڈ میں سال 2012 میں 133 جہازوں کو توڑا گیا تھا۔یہ حقائق ایک تحقیقی رپورٹ ' پاکستان شپ بریکنگ آؤٹ لک، دی وے فارورڈ فور اے گرین شپ ری سائیکلنگ انڈسٹری میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ اسلام آباد میں پائیدار ترقی پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی) اور برسلز کی ایک این جی او آرگنائزیشن شپ بریکنگ پلیٹ فارم نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔
رپورٹ میں اسلام آباد کو کہا گیا ہے کہ وہ اس صنعت کومکمل تباہی سے بچانے کیلئے درست اقدامات کرے جو اسٹیل کی مقامی صنعت کو خام مال بھی فراہم کرتی ہے۔یورپین یونین کے نئے ریگولیشنز کے تحت وہ اپنے شہروں کی ان ممالک کے ساحلوں کیلئے شپ بریکنگ کی شدید حوصلہ شکنی کرتی ہے جہاں جہاز کو پرزہ پرزہ کرنے کی جدید سہولیات موجود نہیں۔یہ رپورٹ شپ بریکنگ صنعت کے جائزے اور مشاہدے کے بعد مرتب کی گئی ہے جس میں شپ بریکنگ کی جگہوں، ملازموں کے کے غیر تسلی بخش حقوق، ناکارہ مادوں کو برتنا اور اسٹوریج اور ماحولیاتی اثرات کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام معاملات گڈانی شپ بریکنگ پر جہازوں کی آمد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اگر حکومت نے مناسب اقدامات نہ اُٹھائے تو خصوصاً یورپی ممالک سے ان کی آمد کا سلسلہ رک سکتا ہے۔رپورٹ کی شریک مصنف پیٹریزیا ہائیڈیگر نے پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ ملک میں جہازوں سے خارج ہونے والے مضر مادے کو برتنے کیلئے اسٹینڈرڈآپریٹنگ پروسیجر ( ایس او پی) متعارف کرائے۔گڈانی میں ہزاروں ٹن خطرناک فضلہ جمع ہوکر ڈھیر بنتا جارہا ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ اس مادے کو ٹھکانے لگانے کے مناسب انتظامات کئے جائیں کیونکہ یہ ماحول اور مزدوروں دونوں کیلئے خطرناک ہے۔
پیٹریزیا نے اس ضمن میں چین اور ہندوستان کی مثال دی ہے جن کے ریگولیشنز پاکستان کیلئے کام آسکتے ہیں۔ اور حال ہی میں وہاں شپ بریکنگ کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے لیکن بہت سی دستاویز اب بھی مکمل کرنا باقی ہیں۔اس تناظرمیں پاکستان نے بیسل کنوینشن کی منظوری دی ہے۔ تاہم آلات کو ابھی تعمیر کرنا باقی ہے۔ جبکہ پاکستان اینوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 1997، فیکٹریز ایکٹ 1934 اور پاکستان پینل کوڈ موجود تو ہیں لیکن بہت کمزور ہیں۔اس رپورٹ میں ماحول دوست شپ بریکنگ اور ری سائیکلنگ کیلئے بیس کےقریب سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ چونکہ ان ریگولیشنز پر عمل کرنا ایک مہنگا نسخہ ہے اور پاکستانی شپ بریکنگ انڈسٹری اس کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن اس ضمن میں گلوبل اینوائرنمنٹ فیسلیٹی ( جی ای ایف) اور بینک اس ضمن میں پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں -ایک قصہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہاں سندھ سے کچھ لوگ آئے اور اُن کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی۔ میٹنگ کو سندھی زبان گڈجانڑی کہتے ہیں۔ اسی لفظ سے بگڑ کر یہ گڈانی بن گیا۔ اصل لفظ گڈھانی تھا، بعد میں لکھتے لکھتے گڈانی ہو گیا گڈانی سندھ کے بلوچوں کی ایک قوم بھی ہے، لیکن اُس کا ہمارے گڈانی کے نام سے کوئی تعلق تاحال نظر نہیں آیا۔
بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری کے پلاٹ نمبر 60،86 ،45سے پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آلودہ ترین کوسٹل ایریا بن گیا ۔
جواب دیںحذف کریںلوگوں نے احتیاطی تدابیرکے تحت ساحل کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔