بدھ، 22 مئی، 2024

پیر علی محمد راشدی

 

پیر علی محمد راشدی سندھ دھرتی کے وہ بلند کردار فرزند ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کا جنازہ اپنی آنکھوں سے دفن ہوتے دیکھا اور وطن عزیز کے وہ واحد سیاست دان تھے جو کبھی حاکمان وقت کی نظر میں معتوب نہیں ہوئے نہ  ان کے خلاف  کوئ کیس داخل ہوا، نہ ایبڈو  قانون کی زد میں آئے اور نہ کبھی جیل میں گئے۔وہ قیام پاکستان کے ہراول دستے کے کارکن تھے اور رہے لیکن جب قیام پاکستان کے بعد وطن کی گردن پر خونیں چمگادڑوں کو خون چوستے دیکھا تو اپنا دامن بچا کر الگ   ہوگئے۔ قیام پاکستان کے لیے ان کردار اہم اور مثالی رہا۔ علی محمد راشدی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم ان کے بہت معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ اسی سلسلے میں پیر علی محمد نے ایک سال تک لاہور میں قیام بھی کیاتھا۔ 


انھوں نے 1938ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجلاس میں شیخ عبد المجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور حاجی عبداللہ ہارون کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور علی محمد راشدی کو اس کمیٹی کا سیکریٹری بنایا گیا۔ بعد ازاں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے علی محمد راشدی کو لیگ کی فارن کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ -میں نے اس مضمون میں گوگل حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو علی محمد راشدی قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی تھے


علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز بیک وقت کیا۔ سیاسی زندگی کی ابتدا انھوں نے 1924ء سے کی۔ جب انھوں نے حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی وہاں ان کی ملاقات جی ایم سید سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے انجمن سادات راشدیہ قائم کی اوراس کی ترجمانی کے لیے الراشد رسالہ جاری کیا۔ اس کے بعد وہ سندھ کے مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ اس تنظیم کے صدر سر شاہنواز بھٹو اور سیکریٹری خان بہادر ولی محمد حسن تھے۔ 1927ء تک علی محمد راشدی اس تنظیم کے سیکریٹری بنے رہے۔ 1929ء میں سندھ کی بمبئی سے علاحدگی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور 1936ء تک، سندھ کی علاحدگی تک اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔


 1933ء میں لاڑکانہ ڈسٹرک اسکول بورڈ کے ارکان بنے۔ 1939ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ تحریک شروع ہوئی تو ہندو مسلم فسادات کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس ویسٹن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا۔ جس کے سامنے علی محمد راشدی نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت کی۔ وہ خود رقم طراز ہیں کہ اسی اثناء میں سکھر میں منزل گاہ تحریک چلی تھی اور ایک زبردست ٹربیونل بیٹھا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے بھی مسلم لیگ کی طرف سے میں نے وکالت کے تھی اور کیس جیتے تھے۔ 1934ء میں سر شاہنواز بھٹو کی لیڈر شپ میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو اس میں علی محمد راشدی شریک ہوئے۔ 1936ء میں سر حاجی عبد اللہ ہارون کے ساتھ مل کر سندھ اتحاد پارٹی بنائی۔1940ء میں لاہور میں رہ کر اس اجلاس کا بندوبست کیا جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔


1946ء میں مشترکہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے مقابلے میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1953ء میں بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ اور مالیات، صحت عامہ اور اطلاعات کے وزیر بنے۔ وزیر مالیات کی حیثیت سے 1954ء میں سندھ کی جاگیروں کا خاتمہ کیا اور زمین غریبوں میں تقسیم کی۔ صحت عامہ سے متعلق اداروں کو منظم کیا۔ جامشورو میں لیاقت میڈیکل کالج قائم کیا۔ لاڑکانہ، سکھر اور نواب شاہ میں سول اسپتال قائم کیے۔ سجاول میں زچہ خانہ اور کوٹری میں تپ دق کے مریضوں کے علاج کے لیے ادارہ قائم کیا۔ ۔ انھوں نے 1954ء میں سندھ اسمبلی کی جانب سے ون یونٹ میں شامل ہونے والی قرارداد منظور کرانے میں محمد ایوب کھوڑو کی سربراہی میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ ون یونٹ کے بعد علی محمد راشدی 1956ء تک مرکزی حکومت میں نشر و اشاعت کے وزیر بنے۔ اسی دوران حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ پاکستان کے 1956ء کے آئین کو بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں جی ایم سید کے ساتھ ون یونٹ ختم کروانے کے لیے کام کیا اور 1970ء میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا۔ 1970ء میں ہی سندھ اسمبلی کی نشست کے لیے سیہون-کوٹری حلقے سے الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1972ء تا 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت میں مشیر رہے۔

ادبی خدمات- 1949ء میں راشدی صاحب آل پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1951ء میں پاک بھارت کے ایڈیٹرز کی تنظیم جوائنٹ پریس کمیشن کے صدر منتخب ہوئے۔بعد ازاں وہ 1952ء میں اسٹیٹس مین اخبار جاری کر چکے تھے۔   اس کے بعد اخباری کالم نگاری تک محدود ہو گئے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم پوری آب و تاب سے شائع ہوتے رہے۔ وہ 23 سال مسلسل جنگ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے 1963ء سے 1964ء تک روزنامہ جنگ کے لیے مکتوب مشرق بعید کے عنوان سے کالم لکھے۔ 1964ء سے 1978ء تک مشرق و مغرب عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا شروع کیا۔ 1967ء تا 1969ء تک روز نامہ سندھی اخبار عبرت میں  لکھتے رہےتصانیف

رودادِ چمن (اردو)

اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)

فریاد سندھ (سندھی)

چین جی ڈائری (سندھی)

ون یونٹ کی تاریخ (اردو)

(بہ زبان انگریزی) SINDH: WAYS AND DAYS

وفات-پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں-بشکریہ گو گل سرچ


1 تبصرہ:

  1. پیر علی محمد راشدی نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا -وہ بلا شبہ ایک بے غرض سیاستدان اور بہترین دانشور تھے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر