یہ سر گنگا رام پر میری دوسری تحریر ہے -یہ تحریر میں نےب اس وقت کرغیز ستان میں اپنے وطن کے طالبعلموں کی حالت زار دیکھتے ہوئے تحریر کی ہے -اگر پاکستان میں ہماری گزشتہ حکومتوں نے وہ پیسہ جو منی لانڈرنگ کے زریعہ اپنے بیرونی خزانوں میں جمع کیا ہے اس سے اعلی تعلیمی یونیورسٹیز بن گئ ہوتیں تو ہہمارے ہونہار طالب علم دوسرے ملکوں میں خطرات میں گھرے یوں در دبدر نا ہوتے - چلئے تو سر گنگا رام کا تعارف دیکھتے ہیں - سر گنگا رام 13اپریل 1851 کو پاکستانی پنجاب کے گاؤں مانگٹا والا میں پیدا ہوئے تھے، ان کی وفات 10جولائی1927 کو لندن میں ان کے گھر ہوئی تھی، اس عرصہ میں سرگنگا رام نے جو کارہائے سرانجام دیئے وہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں زندہ رکھیں گے، ان کی ہمت، جدوجہد، ان کے سوچنے ، کام کرنے کی صلاحیت اور منفرد انداز تخلیق اور تحقیق نے ان کو انسانیت کے ایک عظیم مرتبہ اور مقام پر فائز کردیا ہے ۔ ان کا تعلق ایک ہندو گھرانے سے تھا لیکن ان کے کاموں اور کارناموں سے ہر مذہب و ملت اور قوم کے ہزاروں ، لاکھوں افراد نے فیض پایا ۔ وہ پیدائشی طور پر انسانی ہمدردی اور انسانی دوستی کے علمبردار تھے ۔اس علم دوست انسان کا علمی تعارف یہ ہے کہ 1921 میں انہوں نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔
ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔
لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتےانہوں نے زندگی بھر تعلیم ، زراعت اور صحت کے لئے عمارتوں کی اور ہسپتالوں کی تعمیر کی جس کی بدولت لاکھوں طلباء اور مریضوں اور انسانوں نے فائدہ اٹھایا ۔ چھ سال بعد2027 کو ان کی وفات کو ایک سو سال پورے ہو جائیں گے ۔ گنگا رام کو جدید لاہور کا بانی بھی کہا جاتا ہے، ان کو محسن لاہور بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔گنگا رام کے والد دولت رام اگروال کے پولیس اسٹیشن میں جونیئر سب انسپکٹر تھے، بعد میں وہ امرتسر شفٹ ہوگئے اور وہاں ایک دربار میں کاپی رائٹ ہوگئے تھے ۔ گنگا رام نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا،دو سال بعد1871 میں روڑکی کے تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ سے سکالرشپ حاصل کیا ۔ دوسال بعد اسی کالج سے سونے کے تمغہ کے ساتھ سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک محکمہ میں اسسٹنٹ انجینئر لگ گئے،ان کی تعمیرات کی یادگاروں کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ گنگا رام نے کھیتوں میں آبپاشی نظام کا نیا سلسلہ اپنے دور میں تعارف کراکر انقلاب برپا کردیا تھا ۔ گنگا رام نے 1900 کے ابتدائی سالوں میں نکاس آب اور واٹر ورکس کی ٹریننگ کے لئے انگلینڈ کا تعلیمی سفر کیا اور واپس آنے کے بعد لاہور میں ان کے تعمیراتی سنہری دور کا آغاز ہوا تھا ۔
موجودہ نوجوان نسل شاید گنگا رام ہسپتال کے حوالے سے ہی ان کو جانتی ہوگی لیکن یہ سچ نہیں ہے اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ گنگا رام نے آج کے پورے جدید لاہور کی تعمیر کی تھی اور لاہور کو ایک نیا حسن بخشا تھا ۔ آج لاہور کی جو عمارتیں سیاست، ثقافت اور علم کا ورثہ ہیں ان سبھی کی تعمیر و تخلیق کے بانی سر گنگا رام ہی تھے ۔ لاہور کی تاریخ میں گنگا رام کے تعمیراتی سنہری کارناموں میں گنگا رام ہسپتال، گنگا رام فلیٹس اور گنگا رام بلڈنگز قابل ذکر ہیں ۔ 1919 میں انہوں نے مال روڈ پر گنگا رام بلڈنگ تعمیر کی جس میں ایک لفٹ لگائی گئی تھی، بعد میں یہ بلڈنگ بھی ایک ٹرسٹ کے سپرد ہو گئی تھی ۔ انہوں نے ذاتی خرچے سے بحالی معذوراں اور دیگر فلاحی ادارے قائم کئے تھے ۔ مثال کے طور پر لاہور کا عجائب گھر جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے، وہ عمارت گنگا رام نے تعمیر کرائی تھی ۔ ایچی سن کالج کی وسیع و عریض عمارت جس نے بڑے بڑے بیوروکروٹیس، سیاستدان وغیرہ پیدا کئے، اس کو بھی گنگا رام ہی نے ڈیزائن کیا تھا ۔ 1921ء میں لاہور کا معروف و مشہور ہسپتال گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا تھا جو اس وقت550بیڈ پر مشتمل تھا ۔اس کے علاوہ مال روڈ اور اس کے نواح میں واقع تاریخی عمارتیں جن کو گنگا رام نے ڈیزائن اور تعمیر کروایا تھا ان میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میواسکول آف آرٹس، میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں جبکہ سر گنگا رام ہسپتال، اسلامیہ کالج سول لائن( اولڈڈی اے وی کالج)، سر گنگا رام گرلز اسکول( موجودہ لاہور کالج فار وومن)، ادارہ بحالی معذوراں فیروز پور روڈ وغیرہ انہوں نے اپنے ذاتی خرچہ پر تعمیر کروائے تھے ۔ اسی طرح آج بھارت میں بھی ان کی متعدد تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن میں سر گنگا رام ہسپتال دہلی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی( گنگا بھون) قابل ذکر ہیں ۔ لاہور کا مشہور کامرس کا لج (ہیلی کالج آف کامرس) غریب طلباء کے لئے قائم کیا ۔ تعمیرات اور زراعت اور انسانی ہمدردی کی غیر معمولی کاموں کو دیکھتے ہوئے ان کو 1885ء میں رائے بہادر کا خطاب دیاگیا
سرگنگا رام نے زندگی کے آخری آیام لندن میں گزارے اور بالآخرمحسن اور معمار لاہور10 جولائی1927ء کو اپنے گھر میں انتقال کرگئے ۔ گنگا رام سے ایک بار ان کے کسی دوست نے ان کی دولت اور شہرت کےبارے استفسار کیا کہ کتنی ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ میں جب شہر آیا تھا تو میںنے ایک شراکت داری کی تھی جو پچاس پچاس فیصد کی تھی۔ اسی شراکت داری کے سبب مجھے یہ دولت ملی ہے۔ اس دوست نے حیرانی سے پوچھا کہ کس سے شراکت داری کی ؟ گنگا رام نے جواب دیا کہ بھگوان سے۔دوست نے حیرانی سے پوچھاکہ بھگوان سے ؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں !بھگوان سے۔انہوں نے بتایا کہ میںجو کچھ کماتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کرتا ہوں ۔سرگنگا رام کی وفات کے بعد گنگا رام کی استھیاں دریائے راوی (بڈھا راوی) میں بہائیں گئیں تھیں اور بعد میں وہاں ایک انتہائی خوبصورت سمادھی تعمیر کردی گئی تھی جو اعلیٰ سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی تھی اور یہ آج بھی دریائے راوی کےکنارے موجود ہے ۔ لیکن افسوس کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے اس عظیم انسان اور محسن لاہور کو کبھی بھی اس کے شان شایان کے طور پریاد نہیں کیا گیا۔میں نے ا ن کے علمی کاموں کا بہت ہی مختصر تعارف پیش کیا ہے ورنہ تو انکے علمی کارناموں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہو سکتا ہے
اس میں کوئ شک نہیں کہ اللہ سے جو لوگ سودا کھرا رکھتے ہیں وہ اوج ثریا تک پہنچتے ہیں
جواب دیںحذف کریں