ہفتہ، 29 اپریل، 2023

رقیّہ تم برّصغیر چلی جاوامام حسین (ع)

  

برّصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی روشنی لے کر بے شمار اولیائے دین آئے ا ور ہر ایک ولی نے بہت ہی بامشقّت زندگی گزارتے ہوئے اور شہنشاہان وقت کے عتاب

 کو جھیلتے ہوئے اپنے پاکیزہ مشن کو جاری رکھّا ان میں سے بے شمار ولی اللہ نے ا پنے حقّا نی مشن کی تکمیل کے دوران شہا دت کی حیات آفرین موت کو گلے لگا لیا لیکن

 اپنے دین الِہی کی تبلیغ کے مشن سے دست بردار نہیں ہوئے ،ان شہید اولیائے کرام کے مزارات مقدّ سہ تمام برّصغیر کے گوشے گوشے میں مرجع ءخلائق عام ہیں۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس

 طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ بت کدے میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں

 کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع

 ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو ،بی بی رقیّہ جو آپ امام عالی

 مقام کی ہمشیرہ تھیں اور اور شادی ہو کر اپنے عم زاد حضرت مسلم بن عقیل کی زوج میں گئیں تھیں ، اوراب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے و صیت کی،بہن

 اب تم برّ صغیر چلی جانا ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نا تھابہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا

 ہو کر برّصغیر کے لئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان کے ہمرا ہ ان کی دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی

 خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتے تین یا چار مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ قافلہ ء بے وطن جنگل کے ایک

 ٹیلے پر قیام پذیر ہوا اس وقت دریائے راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا جس کے راج کمار کا

 نام کنور بکرما ساہر تھا اور اس راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا بستی کے مندروں میں کبھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی۔ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو

 یہاں پہنچے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پر رکھّے ہو سنگی بت محل کے فرش پر اوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے

 آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ جو مقدّس آگ مانی جاتی تھی وہ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اور بستی کے اندر بھی کہرام

 مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہوا ہئے نجومیوں اور جوتشیوں نے

 ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہوا ہئے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ

 بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل

 میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل

 کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کا ایک خیمہ نصب ہئے جس میں اجنبی مسافر ٹہرے ہیں ،،کماندار نے خیمے کے با ہر

 سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔

کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اور کسی کو کوئ

 نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا ل پر چھوڑ دیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سے کہا اے راجہ وہ

 لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کر کے کہا پردیسیوں کو ابھی

 ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہئے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بیرقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے

 بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوں کو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے

 مقام پر زمین شق ہو گئ اور( خیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحے راج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتے

 دیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب ہی اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء

 اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اور براوئتے بیبیوں کے دوپٹّوں کے پلّو باہر رہ گئے ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو

 حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہنے لگا،بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے ،وہ اتنا رویا کہ اس کے آںسوؤ ں سے وہ

 زمین تر ہو گئ سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ راجکمار واپس آنے کوتیّار نہیں

 ہئے اور سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے تو راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادے ہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار

 نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نے اس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے

 کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی

 خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا یہ میں نے کیا کیا جب اس کے پچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور

 اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اب اس نام جمال دین یا عبد اللہ بابا خاکی کہلایا جانے لگا۔

اس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزار نوجوان

 پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے پوچھے بغیر کوئ

 کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینی ہوگی

اگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سے شادی کی

 اجازت طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری دور ہو چکی تھی

 ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا ،بی بی پاک دامن کے مزار کی مجاوری آج بھی جمال دین کی اولاد ہی سنبھالے ہوئے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر