شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا سنگم ہے۔ یہیں شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی
۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔
عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔ پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔
تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے 62 کلو میٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے مقام پر اس شاہراہ کا آغاز ہوا جو 1978 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے شب وروز شانہ بشانہ کام کیا۔قراقرم کے سخت اور پتھریلے پہاڑوں کو چیرنے کے لئے 8ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ استعمال کیا گیا۔18 جون 1978ء کو اس کا با قاعدہ افتتاح ہوا۔ تکمیل کے دوران 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔سلک روٹ یا شاہرائے ریشم ایک وسیع نیٹ ورک کا نام تھا، جس کا پھیلاؤ ٔچین سے شروع ہوتا ہوا ہندوستان، وسط ایشیاء، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ کواپنی لپیٹ میں لیتا ہوا افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک پہنچتا تھا۔ ان راستوں کا اولین مقصد تجارت تھا۔ چین سے یورپ تک اس تجارتی راستہ کی لمبائی تقریباً 6500 کلو میٹر تھی۔ چین میں اس کا آغازایک Changanنامی شہر سے ہوتا تھا۔ پھر یہ شاہراہ وسط ایشیا، ایران، ترکی سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچتی تھی۔
شاہراہ ریشم پر 33 مشہور شہر آتے تھے۔ جن میں Dunhuang (چین) ، میرو (ترکمانستان) ، بخارا، سمرقند (ازبکستان) ، بلخ (افغانستان) ، ٹیکسلہ (پاکستان) ، رئے، نیشاپور، ہمدان (ایران) ، دمشق (شام) ، بغداد، موصل (عراق) ، قسطنطنیہ، ازمیر (ترکی) اسکندریہ (مصر) وغیرہ شامل ہیں۔ قرون اولی ٰ اس شاہراہ پر ایرانی زبان بکثرت استعمال ہوتی تھی۔ دور اسلام میں اِس کی جگہ فارسی زبان نے لے لی۔ دیوار چین کی تعمیر کا اہم مقصدبھی اس تجارتی راستہ کی حفاظت کرنا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم قدیم شاہراہ ریشم کے راستے پر بنائی گئی ہے یعنی وہی دشوار گزار پہاڑی راستہ جہاں سے پرانے وقتوں میں وسطی ایشیا اور چین آنے جانے والے قافلے گزرتے تھے۔شمال میں خنجراب پاس سے جنوب میں صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال تک آنے والی یہ سڑک تقریباً 1300
شمالی علاقہ جات میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی یہی شاہراہ خطے میں چین کے ساتھ سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر رابطوں کا بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔شاہراہِ قراقرم پاکستان کے خوبصورت اور دلفریب مناظرشاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے۔شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً 1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200 کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں