امجد اسلام امجد محبت کا دوسرا نام تھے وہ محبّت کی علامت تھے-محبّت کا استعارہ تھے -وہ اپنی زاتی زندگی میں بھی تقسیم محبّت کے فامولے پر کاربند رہے۔ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی محبت آمیز اور محبت آموز تھی۔وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے- وہ کرکٹ کی دنیا میں قسمت آزمائ کو نکلے تھے لیکن ان کے مقدّر کا ستارہ ادب کے آسمان پربراجمان ہو چکا تھا -اس لئے کرکٹ کے میدان سے ادب کے طولانی میدان کے سفر پر آن پہنچے-ان کا خود بھی کہنا تھا کہ اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو میں 1965-66 میں شروع کر کے 1971-72 تک فارغ ہوچکا ہوتا اور ادبی دنیا میں ان کی جو شناخت بنی وہ اس سے محروم رہتے۔امجد اسلام امجد کا گھرانہ بنیادی طور پر دستکاروں کا اور تجارتی کام کرنے والوں کا تھا لیکن امجد اسلام امجد کے لہو میں ایک ادیب اور شاعر بس رہا تھا اس ادیب بچّے کو اپنے گھر کے پڑوس میں ہی اپنے زوق کی تسکین کا سامان مل گیا -ان کے پڑوسی کا نام تھا آغا بیدار بخت-
آغا بیدار بخت جیسے بیدار مغز نے جب اس بچے میں لکھنے پڑھنے کا ذوق دیکھا تو اسے اپنی کتابوں کے زخیرے تک رسائی دے دی۔ بعد میں اس بچے نے اعتراف کیا کہ اس کے ادبی سفر میں آغا بیدار بخت کا یہ کتب خانہ سنگ میل ثابت ہوا۔یہ بچہ نویں دسویں کلاس میں پہنچا تو اس نے شعر کہنا شروع کردیا۔ فرسٹ ایئر میں تھا تو ایک شعر لکھا:بچے کا نام امجد اسلام تھا۔ شاعری شروع کی تو تخلص کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنے نام ہی کو تخلص بنا لیا اور امجد اسلام امجد کے نام سے معروف ہوا۔
لیکن کالج کی منزل آتے آتے امجد اسلام امجد میں کرکٹ کھیلنے کا شوق بھی پلنے لگا
-کھیل کا سفر آگے بڑھا تو اسلامیہ کالج 12 سال بعد چیمپیئن بنا جس میں امجد اسلام امجد کی کارکردگی بہت عمدہ تھی مگر ان کی جگہ قومی ٹیم میں ایک بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کر لیا گیا اور امجد اسلام امجد کو ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا۔یہ امجد اسلام امجد کی زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ انھوں نے غصے میں اپنا بلا توڑ دیا۔لیکن کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونا ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوا۔اب انھوں نے شاعری کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی اورادبی جرائد میں اپنا کلام چھپوانے لگے۔ اسی زمانے میں انھوں نے عربی شاعری کے تراجم کیے، جس کا مجموعہ بعدازاں ’عکس‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔امجد اسلام امجد کے گروپ میں کچھ ان سے سینیئر شاعر شامل تھے جن میں سرمد صہبائی، اسلم انصاری، ریاض مجید، خورشید رضوی اور انور مسعود اور ہم عصروں میں خالد شریف، عطا الحق قاسمی اور جونیئرز میں سعادت سعید، اجمل نیازی، حسن رضوی، ایوب خاور اور پروین شاکر شامل تھیں۔
1972 میں امجد اسلام امجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ایک ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ تحریر کیا، یہاں سے ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا آغاز ہوا۔
ابتدا میں اکا دکا ڈرامے لکھے اور اردو کے مختلف افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔انھی ڈراموں میں طویل دورانیے کا ایک ڈرامہ ’خواب جاگتے ہیں‘ شامل تھا جو ناظرین کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہا۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے قیام کی سِلور جوبلی کے موقع پر نشر ہوا تھا مگر جس ڈرامہ سیریل نے انھیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا وہ ’وارث‘ تھا۔اس ڈرامے کی پہلی قسط 13 اکتوبر 1979 کو نشر ہوئی، اس کی کہانی جاگیردار معاشرے کے گرد گھومتی تھی، یہ ایک سادہ اور حقیقی کہانی تھی جس کے کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ اس سادہ سی کہانی نے وارث کو پاکستان کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل بنا دیا۔
یہ سیریل اس قدر مقبول ہوا کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کے قومی نیٹ ورک پر چینی زبان میں ڈب کر کے بھی پیش کیا گیا۔ وارث کے بعد ان کے لکھے ہوئے جو ڈرامہ سیریل ناظرین میں بے حد پسند کیے گئے ان میں دہلیز، سمندر، دن، وقت، گرہ، بندگی، اگر، اپنے لوگ، رات، ایندھن، زمانہ، شیرازہ اور انکار کے نام سرفہرست رہے۔ڈراموں کی مقبولیت انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئی۔ انھوں نے چند فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے جن میں قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں۔
ان ڈراموں اور فلموں کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کا شعری سفر بھی جاری رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ تھا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔
اس کے بعد ان کے پچیس تیس مجموعے شائع ہوئے جن میں ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میںاور اسباب شامل ہیں۔
ان کی کئی شعری کلیات بھی شائع ہوئیں جن میں خزاں کے آخری دن، ہم اس کے ہیں، نزدیک، شام سرائے، باتیں کرتے دن، سپنوں سے بھری آنکھیں اور میرے بھی ہیں کچھ خواب سرفہرست ہیں۔انھوں نے عالمی شاعری کے تراجم بھی کیے۔
ان نظموں کے مجموعے ’عکس‘ اور ’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔1970 کی دہائی میں امجد اسلام امجد کی ایک نظم ’محبت کی ایک نظم‘ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی اور زندگی بھر امجد اسلام امجد کی پہچان بنی رہی، وہ جہاں بھی جاتے تھے ان سے اسی نظم کی فرمائش ہوتی تھی۔ پھر ان کی مقبولیت کا یہ سفر عمر بھر جاری رہا-امجد اسلام امجد کا نثری سفر بھی بہت طویل ہے۔ ان کے کئی سفرنامے شائع ہوئے جن میں شہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں سرفہرست ہیں۔
وہ اردو ادب کے ایک مقبول اور بہترین استاد تھے۔شاعر وہ فطرتا تھے۔یہ جوہر اللہ تعالی نے ان میں پیدائشی صفت عطا کی تھی وہ غزل اور نظم دونوں کے شاعر تھے۔ وہ دونوں اصناف پر قادر تھے۔ان کی کتنی ہی غزلیں مقبول عام ہوئیں۔نظم سننے یا پڑھنے کی چیز تو ہے لیکن یہ غزل کے اشعار کی طرح زبان زد عام کم ہی ہوتی ہے لیکن امجد صاحب نے یہ کرشمہ بھی کر دکھایا۔ان کی بہت سی نظمیں بھی مقبول ہوئیں۔وہ جب کسی مشاعرے یا ادبی تقریب میں ہوتے تو حاضرین ان سے ان کی مشہور نظمیں فرمائش کر کے سنتے- امجد صاحب کو اپنی لمبی لمبی آزاد نظمیں یاد کس طرح رہ جاتی ہیں۔وہ بہت سہولت اور روانی سے اپنی طویل آزاد نظمیں پڑھتے جاتے اوراور اپنے الفاظ کی سلاست اور روانی مجمع کو گم کر لیتے
اور پھر بالآخر اردو ادب کا یہ روشن ستارہ اپنے غروب کو پہنچا لیکن سفر آخرت سے محض پانچ دن پہلےروضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی سعادت حاصل کی اور مسجد نبوی میں اپنا حضوری کلام بھی پیش کیا -
امجد اسلام امجد کی نماز جنازہ ڈیفنس فیز 1 کی جامع مسجد میں ادا کی گئی جس میں مرحوم کے عزیز و اقارب ، ادبی حلقوں کی شخصیات اور اہل علاقہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔نمازجنازہ کے بعد امجد اسلام امجد کا جسد خاکی تدفین کیلئے میانی صاحب لایا گیا، تدفین کے وقت بھی امجد اسلام امجد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود تھے ۔خداوند عالم مرحوم و مغفور کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں