جمعہ، 17 فروری، 2023

۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ



۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک فرد واحدنہیں بلکہ چلتے پھرتے ایک ادارہ تھے ،آپ ایک تنظیم تھے ایک تحریک تھے ،آپ کھلی کتاب تھے جس سے ہزاروں تشنگان علم نے اپنی پیاس بجھائی تھی ،آپ کروڑوں عاشقان رسول کی منزل کی راہ کے چراغ تھے ، آپ فطری و پیدائشی فنافی الرسول ﷺ تھے ،اسی عشق کی بدولت رب کریم نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا ۔آپکے اُصول چٹانوں کی طرح مضبوط ،الفاظ سچ کی طرح روشن عزم غیر متزلزل اور جذبے صادق تھے ،آپ کا کردار قابل تقلید اور گفتار قابل تعریف تھی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی ہر بات عزم و حوصلہ سے مزین تھی ،آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا دین تو حید پروردگار تھا اور ایمان عشق رسول ﷺ کا پرچار تھا ۔ احمد رضا خان نے  محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید سیکھا

 احمد رضا خان نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو احمد رضا خان فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے

 احمد رضا خان نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔ مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیر ہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام کو ایک مجدد اعظم کی ضرورت تھی جو رسول اﷲ ﷺ کا سچا وارث بن کر اپنی نورانی کرنوں سے بد مذہبی کی کالی گھٹاؤں کر تتر بتر کر سکے ،جو جلال موسیٰ کا پر توبن کر اﷲ تعالیٰ جل شانہ کی ردائے عظمت میں جھوٹ کا دھبہ لگانے والوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا سکے ،جو حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر قہر کی بجلی بن کر گرنے کے قابل ہو ،جو اپنے زمانے کا امام ابو منصور اور امام ابو الحسن اشعری بن کر ڈارون اور نیوٹن کے فلسفے کا شیشہ چکنا چور کر سکے ،جو ظاہری مسلم رہنماؤں کی پھیلائی گئی نیچریت کا گلا گھونٹ سکے ،جو آفتاب رشد و ہدایت بن کر قادیانیت کی پھیلائی گئی تاریکیوں کو اجالے میں بدل سکے ،

جو اپنے تجدیدی کارناموں سے امت مرحومہ کا دین تازہ کر کے حضور اقدس ﷺ کی سنتوں کو پھر سے زندہ کر سکے اور جو محمد ی کچھار کا شیر بن کر بد مذہب بھیڑیوں کی گردنوں پر اپنے مضبوط پنجے گاڑ سکے ۔اور اﷲ تعالیٰ نے ان کی انجام دہی کے لئے رسول اﷲ ﷺ کی نظر شفقت کے سبب امام احمد رضا خان کو چن لیا اور ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کرنے کا بندو بست فرما دیا 

عنائیت خداوندی کی وہ کتنی ارجمند گھڑی تھی جب رب کریم نے امام احمد رضا خان جیسا مرد قلندر پیدا فرمایا ۔کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر سیلِ رواں بن کر اہل باطل کے مزعومات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور اس کے قلم کی لو سے ڈالا ہوا شگاف ہمیشہ کے لئے دشمن کے سینے کا ناسور بن جائے گا اور پھر کسے معلوم تھا کہ ایک شخص کی محنت رنگ لائیگی اور اسکا ایک ایک لفظ بحر و بر میں پھیل جائے گا اور ایک چراغ کی لو سے ایمان و عقیدت کے شبستانوں میں کروڑوں چراغ جل اٹھیں گے ۔بلا شبہ یہ احسان عظیم ہے اس خالق لوح و قلم کا جس کے دست قدرت میں انسانی اذہان ،زبان اور قلوب کی کنجیاں ہیں کہ اس نے اپنے حبیب مجتبیٰ ﷺ کی حمایت و دفاع میں اٹھنے والے امام احمد رضا خان کو عزت و اقبال کی بلندی بخشی اور اسے قبول عام کا اعزاز مرحمت فرمایا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ملحد ،فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ سر انجام دیا 

۔آپ نے اپنی کتاب ’’مقال العرفاء‘‘ میں قرآن و حدیث و اقوال علماء سے ثابت کیا کہ شریعت اصل ہے اور طریقت اس کی فرع ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا ایک دریا ،طریقت کی جدائی شریعت سے محال و دشوار ہے ۔شریعت ہی پر طریقت کادار و مدار ہے
 ۔شریعت ہی اصل معیار ہے ۔طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے شریعت مطہرہ ہی کی اتباع کا صدقہ ہے جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے 
۔مختصر یہ کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی پوری عمر اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کے سچے دین اور محمد مصطفےٰﷺ کی سنن مقدسہ کی خدمت کی اور جہاں بھی کسی بد مذہب ،بد دین نے سر اٹھایا آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے اسے کچل کر رکھ دیا اور اسکے رد میں کتابیں تصنیف کیں ۔امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ سہ عالی مرتبت شخصیت تھے جو اپنی شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے ۔زور تقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے ۔سیف قلم سے باطل پرستوں کو مجروح و مردہ کرتے رہے ۔آپ نے گلشن عظمت مصطفےٰ ﷺ کو ہرا بھرا بنایا ،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محبت کی ،ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو دوبارہ در نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا آپ دشمنان خدا اور رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے رہے ۔آپ نے اﷲ جل جلالہ کی وحدانیت اور سر کارِ مصطفےٰ ﷺ کی عظمت و حرمت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجایا 
۔آپ نے بڑے بڑے فلاسفروں کو اپنے خدا داد علوم کی تابناک شعاعوں سے چکا چوند کر دیا آپ نے دین مبین کی راہ میں آندھیوں سے تیز اٹھنے والے فتنوں اور سیلاب کی طرح بڑھنے والی گمراہیوں کے سامنے دیوار آہن کا کام کیا ۔آپ اس پر آشوب دور میں میدان عمل میں کود پڑے جب ہزاروں بے درد اسلام کے ہرے بھرے چمن کو اجاڑ دینے کی غلیظ کوشش میں مصروف تھے وہ بد بخت ڈاکو مسلمانوں کا متاع ایمان لوٹنے پر تلے ہوئے تھے ۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے  احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی،   عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے
آپ کے علم کا احاطہ کرنا میرے قلم کی دسترس سے کہیں بالا تر ہے ۔لیکن وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے زمانے میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم موجود نہ تھا ۔ اسی لئے تو بعض چرب زبان مخالفین نے بھی کہا کہ مولانا احمد رضا جس قابلیت و جامعیت کے عالم تھے اس کے پیش نظر سارا زمانہ انکی قدم بوسی کرتا اور انکو پیشوا مانتا مگر انہوں نے عمر بھر سب کا رد کر کے اپنی مقبولیت کو بڑا دھچکا پہنچایا ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ نے جس ملاں میں بھی محمد ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کا عنصر دیکھا اسکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے بد بخت اور ذلیل جانتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ دیا ۔اور یہی باب تو ہم جیسے دیوانوں کے لئے پسندیدہ ہے ۔کیونکہ اگر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم کے ہوتے ہوئے بھی آقا نامدار ﷺ کی توہین اور گستاخی برداشت کرتے رہتے تو پھر ہمارا ان سے کیا واسطہ تھا ۔انکی اسی عادت پر تو ہر غلام محمد ﷺ اپنی جان و ارتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور جو حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کو برداشت کرنے کی منافقانہ صلاحیت رکھتا ہے وہ امام احمد رضا خان سے عداوت اور بغض رکھتا ہے ۔امام احمد رضا خان نے اگر اپنی شہرت اور مقبولیت کو دھچکا پہنچایا تو عین سنت رسول ﷺ پر عمل کیا کیونکہ جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے کفار مکہ کو دعوت اسلام دی اور تمام بت پرستوں کے خلاف آواز حق بلند کی کافروں نے آپ ﷺ سے کہا اگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں اور سب مل کر دولت کے انبار آپ ﷺ کیسا منے لا کر رکھنے کو تیار ہیں ،جس قبیلہ میں آپ ﷺ چاہیں وہاں آپ ﷺ کی شادی کرنے کو تیار ہیں ۔
لیکن ہمارے پیارے نبی آخر زماں ﷺنے کفار مکہ کے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور چونکہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ بھی اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے سچے غلام اور عاشق تھے اس لئے آپ نے بھی اپنے زمانے کے باطل پرستوں کی پیش کی گئی سردار ی اور شہرت کو رد کر دیا ۔اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے آپکو نہ صرف یہ کہ علوم دینیہ کا صاحب بصیرت عالم بنایا بلکہ آپ کو اپنے دور کے فقہا و محدثین کا امام اور ارباب فلسفہ و منطق کا اُستاد بنایا مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے اکابر علمائے اسلام نے آپ کے علم و فضل کا مشاہدہ کر کے تحریر ی گواہی دی کہ شیخ احمد رضا خان بریلوی علامہ کامل ،استاذ ماہر ،فاضل سریع الفقہہ، ہیں ۔مکہ شریف کے فقیہہ جلیل حضرت مولانا سید اسمٰعیل بن سید خلیل نے آپ کے فتاویٰ کے چند اوراق پڑھ کر یہاں تک لکھ دیا کہ :’’بخدا میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے اس فتویٰ کو ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں اور وہ آپ کو اپنے شاگردوں کے طبقہ میں شامل کرتے ۔‘‘(رسائل رضویہ صفحہ258مطبوعہ لاہور )ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ حضرت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا اطباع و ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا ۔(فاضل بریلوی اور ترک موالا ت صفحہ16)
امام احمد رضا خان بریلو ی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم و فضل اور فتویٰ کے معترف چند گنے چنے علماء برصغیر ہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے کثیر علمائے کرام بھی تھے ۔بلکہ انہوں نے آپ کو اپنا سردار اور پیشوا تسلیم کیا ۔مکہ معظمہ سے مولانا شیخ محمد سعید مکی رحمۃ اﷲ علیہ ،شیخ مولانا احمد ابو الخیر میر داد (امام و مدرس مسجد حرام) مفتی علامہ شیخ صالح کمال مکی (مدرس حرم شریف) علامہ شیخ اسعد بن احمد دہان مکی (مدرس حرم شریف) و دیگر 16علماء کرام اور مدینہ منورہ کے مفتی مولانا تاج الدین الیاس مدنی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا عثمان بن عبد السلام داغستانی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا سید احمد جزائری مدنی ،و دیگر 10علمائے کرام نے امام احمد رضا خان کے مجموعہ فتاویٰ ’’حسام الحرمین‘‘ پر دستخط فر ما کر آپ کے علم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنا سردار و پیشوا کہا ۔(بحوالہ امام احمد رضا خان اور ان کے مخالفین مصنف حضرت مولانا بد رالدین قادری مطبوعہ فضل نور اکیڈمی گجرات)
اعلیٰ حضرت نے حدود شریعت میں رہ کر جس جوش اور خلوص سے اپنے آقا سید عالم ﷺ کی عظمت و جلالت کے نغمے گائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ میدان نعت میں آپ کا کوئی حریف و مقابل نہیں ۔آپ نے حضور اقدس ﷺ کے لئے ایسے الفاظ اور ایسے استعارے استعمال کئے ہیں جو انتہائی ادب اور محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں آپ کے نعتیہ کلام کی خوبیاں گنی نہیں جا سکتیں ’’حدائق بخشش‘‘ آپ کی نعتیہ تصنیف ہے جس کا ہر اک شعر عشق مصطفےٰ ﷺ سے سرشار ہے ۔آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حدود شریعت کو ازحد قائم رکھا ہے آپ نے آقائے نامدار ﷺ کی تعریف اور انکا تقابل دیگر انبیاء سے اس طرح کیا ہے کہ باقی انبیائے کرام کا احترام بھی باقی رہا ہے آپ کے اشعار میں مبالغہ تصنع اور بناوٹ کی بجائے خلوص و عقیدت کی ترجمانی ہے ،آپ کے کلام میں قرآن وحدیث کے بعینہٖ کلمات و عبارات یا ترجمے موجود ہیں یعنی آپ کی شاعری کا ماخذ ہی کلام الہٰی اور حدیث نبوی کے مضامین ہیں ۔
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علوم کا تذکرہ میرے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ نے علم تفسیر میں 7،علم حدیث میں 45,عقائد و کلام میں 22،فقہ و تجوید میں 70،علم زیجات میں 7، علم جفر و تکسیر میں 11،جبرو مقابلہ میں 4اوردیگر علوم میں کتب و رسائل تصنیف کئے ،آپ نے عشق رسول ﷺ کی شمع وقت رخصت تک جلا رکھی آپ نے جو آخری مجلس میں وعظ فرمایا اس کی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہیں جن پر ہمیں ضرور عمل کرنا چاہیے آپ نے فرمایا اے لوگو! تم ہمارے مصطفےٰ ﷺ کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو اور بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بہکا ئیں ،تمہیں فتنہ میں ڈالیں اور اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں ان سے بچو اور دُور بھاگو۔
حضور اقدس ﷺ رب العزت کے نور ہیں ۔حضور ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم روشن ہوئے ۔صحابہ کرام سے تابعین عظام رضی اﷲ عنہم روشن ہوئے ،تابعین سے تبع تابعین روشن ہوئے ۔ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ۔ان سے ہم روشن ہوئے ۔اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو ۔وہ نور یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ ﷺ کی سچی محبت ،انکی تعظیم ،انکے دوستوں کی خدمت اور تکریم اور انکے دشمنوں سے سچی عداوت ۔جس سے اﷲ جل شانہٗ رسول اﷲ ﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ۔میں پونے چودہ برس کی عمر سے یہ بتاتا رہا ہوں اور اس وقت پھر یہی عرض کرتا ہوں ،اﷲ تعالیٰ ضرور اپنے دین کی حمایت کے لئے کسی بندے کو کھڑا کر دیگا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لئے ان باتوں کو خوب سن لو ۔حجۃ اﷲ قائم ہو چکی ہے ۔اب میں قبر سے اُٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لئے نور نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت و ہلاکت ہے ۔آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق مصطفےٰﷺ کی دولت سے مالا مال رکھے-
حب اہل بیت آپ کی زندگی میں آپ کے لہو میں موجزن رہا

یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو

شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات

اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر

امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے

صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر

سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن

دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں

عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں

اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے

چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو

یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں

اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط

آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے

رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں

قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے

دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر